Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔ --

عید کی روایتی خوشیاں اور گہماگہمی کہاں رخصت ہوگئی!

ماہنامہ عبقری - مئی 2021ء

(شبانہ جبیں،کراچی)

عیدالفطر اور عیدالاضحی وہ اسلامی دن ہیں جو مسلمانوں کو حکم ربانی کے تحت و دیعت ہوئے ہیں۔ عیدالفطر کو ہی لیجئے۔ یکم شوال کے دن کچھ کام ایسے ہیں جو اس خاص دن پر لازمی ہورہے ہوتے ہیں مثلاً عید سے پہلے ہر گھر میں صفائی ستھرائی ایک اہم ذمہ داری کی صورت میں ہوتی ہے۔ عید کے روز ہر گھر چمک دمک رہا ہوتا ہے، عید کے دن کا آغاز ہر مسلمان عید کی نماز سے کرتا ہے۔ سلام و دعا ہوتی ہے، ایک دوسرے سے پرجوش انداز سے بغل گیر ہوکر عید کی خوشیوں کا اظہار کیا جاتا ہے اور یوں عید کی اس مسرت کی مبارک باد ہر کوئی بانٹتا اور وصول کرتا ہے۔ مزیدار کھانے بنائے اور کھائے جاتے ہیں، ملاقاتیں ہوتی ہیں۔ کہیں تحائف اور عیدی کا تبادلہ ہوتا
ہے تو کہیں عید پر گھومنے پھرنے کی پلاننگ ہورہی ہوتی ہے یوں ہر مسلمان اپنے اپنے طریقے سے اس تہوار کو تزک و احتشام سے منانے کے لیے سرگرم ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ ہمیشہ سے ہی عید کی خوشی کو بھرپور انداز سے منانے کی غرض سے ہوتا آیا ہے لیکن اب محسوس کیا جاسکتا ہے کہ عید کی حقیقی خوشی کہیں گم سی ہو کر رہ گئی ہے‘ بالکل اسی طرح جیسے ہم اپنی کئی اخلاقی اقدار کھوتے چلے جارہے ہیں۔ جہاں زندگی کے بعض دوسرے پہلوئوں پر ہمارا نکتہ نظر تبدیل ہوچکا ہے وہیں ہمارے اسلامی تہواروں کا مزہ، جوش و ولولہ اور شادمانی میںبھی اب پہلے جیسی بات نہیں رہی بلکہ اس حوالہ سے تمام ترجوش و خروش ماند پڑتا جارہا ہے۔ ہمارے ملک میں عیدالفطر کا تصور بدلتے تقاضوں کے مطابق تبدیل ہوکر بے نام سا رہ گیا ہے۔ میٹھی عید کا لطف، گہما گہمی، سرشاری کی کیفیت اب اس طرح محسوس نہیں ہوتی جو چند دہائیوں پہلے ہوا کرتی تھی۔ ممکن ہے کہ وقت کی تبدیلی کے ساتھ ہی عمروں اور زمانوں کا فرق بھی اپنے اثرات مرتب کرتا رہا ہو لیکن حقیقت صرف یہ ہے کہ میٹھی عید روکھے پھیکے دن کی طرح چپ چاپ گزر جاتی ہے، نہ اس کے آنے پر خوشی ہوتی ہے‘ نہ ہی ہم اسے صحیح طرح مناپاتے ہیں جس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ آج کل لوگ عید کی خوشی دراصل چاند رات میں ہی گھر سے باہر بازاروں میں گھوم کر اور دکانوں پر وقت برباد کرکے مناچکے ہوتے ہیں اور جو جذبہ، اُمنگ اور توانائی عید کے دن محسوس ہونا چاہئے وہ گزرے ہوئے گھنٹوں میں بازاروں کی نذر ہوچکا ہوتا ہے۔ ان تمام پہلوئوں پر غور کیا جائے تو صاف نظر آتا ہے اس کی وجہ ہماری مادیت پرستی پر مبنی سوچ ہے۔ اب لوگوں نے ملنا جلنا اس لئے کم کردیا ہے کہ کچھ دینا دلانا نہ پڑے۔ خاص و عام، رشتے دار و احباب سے خلوص سے دل کھول کر ملنا بھی ناپید ہوتا جارہا ہے اب ہمیں عید کی خوشیوں سے زیادہ اس بات کی فکر کھائے جاتی ہے کہ جتنے مہمان آئیں گے ان کی تواضع کم سے کم بجٹ کے اندر کس طرح کی جائے گی۔ گراں فروشی نے لوگوں کے دلوں کو تنگ کردیا ہے جس کا ملزم ہم کسی کو ٹھہرا نہیں سکتے۔ تین دن کی تعطیل ہمیں میسر آتی ہے تو ہم میں سے اکثریت ان دنوں میں کیا کررہی ہوتی ہے؟

 

کیا آپ بھی عید کو ’’یوم نیند‘‘ کے طور پر مناتے ہیں؟

سارا سال مصروف ترین مرد حضرات عید کے اوّل دن کو ’’یوم نیند‘‘ کے طور پر مناتے ہیں۔ اس دوران جو بھولے بھٹکے معزز مہمان غلطی سے ملنے کو آجائیں تو گھر کے مالک سب کی پہنچ سے دور استراحت فرما رہے ہوتے ہیں۔ شام میں جب نیند کا ٹینک فل ہوتا ہے تو کہیں ہوا خوری کو نکل لیا جاتا ہے اور یوں عید کا اہم ترین دن ان فضولیات کے ساتھ ختم ہو جاتا ہے۔گھریلو خواتین کی جان اس دن بھی کچن میں پھنسی رہتی ہے جن کے پیش نظر گھر کے افراد ہی نہیں آنے جانے والے مہمان بھی ہوتے ہیں جن کی خاطر مدارت لازمی ہوتی ہیں۔ لڑکیاں سہیلیوں کے ساتھ فون پر خوش گپیوں میں مشغول رہتی ہیں۔ گھر کے بزرگ اپنی دلچسپیوں میں لگے ہوتے ہیں کسی حد تک وہ ہر عمل سے لاتعلق سمجھے جاتے ہیں۔اکثر بچے عیدی کیلئے مزید عیدی جمع کرنے کی آس میں پڑوس، رشتے داروں یہاں تک کہ دور دراز کے ملنے والوں کے گھروں میں ٹور پر نکلے ہوتے ہیں اور عیدی جمع کرکے ان کی ننھی فوجیں کھانے پینے اور کھلونوں کی دکانوں کا رخ کرتی ہیں۔ عید پر تقریباً ہر گھر میں مہمانوں کی آمد و رفت چلتی رہتی ہے۔ عموماً میٹھی ڈشز کے ذریعے ان کی تواضع کی جاتی ہے۔ خاص طور پر شیر خرمہ کی روایتی ڈش صبح سویرے ہی پکا کر رکھ لی جاتی ہے۔مہمان کو رحمت خداوندی سمجھا جاتا تھا مگر اب مہمان نوازی کا کام ریڈی میڈ اشیاء سے چلایا جاتا ہے اور چاند رات کو مٹھائیوں اور حلوہ جات کے ڈبے خرید کر فریج میں جمع کرلئے جاتے ہیں جو چار پانچ دن تک مہمانوں کی تواضع کرنے میں کام آتے ہیں۔ ساتھ ہی کالی اور سفید سافٹ ڈرنکس میٹھے کے ساتھ رکھ کر مہمانوں کو پلادی جاتی ہے۔ یہ ہے آجکل کی مہمانداری اور تواضع کی روایت۔ اب بہت کم گھرانوں میں ہاتھ سے تیار کردہ دیسی گھی کے میٹھے بنانے کا رواج عام ہے جن کا ذائقہ منفرد اور لذیذ ہوتا تھا۔ اب تو مہمانوں کی آمد پر چہروں اور دلوں میں گرم جوشی کے بجائے سرد مہری ہوتی ہے اور کوشش یہ کہ گھر آنے والے جتنی جلد ممکن ہو واپس چلا جائے۔مسلمان رمضان کے مہینے میں جس قدر صدقہ و خیرات کرتا ہے اسے اس نیکی کو عید کے دن بھی برقرار رکھنا چاہیے ہوسکتا ہے کہ کوئی سفید پوش مانگنے سے شرماتا ہو، ایسے افراد کی چپکے سے مدد کردینا ثواب بھی ہے اور عید کی اصل خوشی کا باغ بھی۔ عید کا تہوار ہم سے چاہتا ہے کہ ہم اپنی تنہائی سے نکل کر اپنے جیسے مسلمان بہن بھائیوں کی مدد کریں اور انہیں خوشی دیں۔ یہ اتنا مشکل کام نہیں ہر شخص اگر غور کرے تو دیکھ سکتا ہے کہ کہیں نا کہیں کوئی مستحق اس کی نظر سے ضرور ٹکراتا ہے۔ کسی ایک مستحق گھرانے کو ہم سب ہی جانتے ہیں۔ یہ بات سمجھ لیں کہ آپ پر خدا کا اتنا احسان ہے کہ اس نے آپ کو دینے والا ہاتھ دیا ہے۔ اپنے ہاتھ کو کھلا رکھ کر جس طرح رمضان میں ہم مسلمان خرچ کرتے ہیں عید کے موقع پر اس تسلسل کو برقرار رکھا جائے تو کتنی اچھی بات ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ رمضان کا بابرکت مہینہ ختم ہوتے ہی لوگ ہر اچھی بات کو فراموش کر دیتے ہیں۔عید کی اصل خوشیاں ذاتی مفاد سے زیادہ دوسروں کو نفع پہنچانے میں ہیں۔ ایک لمحے کو اپنی ذات کو بھلا کر دوسروں کی ضروریات کا سوچیں، ان کے مسائل کو سنیں تو یقیناً کسی طریقے سے آپ ان کی اخلاقی یا مالی مدد کرسکیں گے۔ عید پر نئے کپڑے خرید کر مستحق افراد کی مدد بھی کی جاسکتی ہے۔ ایسا ممکن ہو سکتا ہے کہ کسی غریب گھرانے میں بیٹی بیٹے کی شادی ہونے والی ہو تو ایسے سفید پوشوں کا بھرم رکھنے میں آپ کی مدد کام آسکتی ہے۔ غرض کئی طریقے ہیں جن کے ذریعے عید کا اصل لطف اٹھایا جاسکتا ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہم خدا کی ان گنت نعمتوں سے فائدے اٹھاتے ہیں، اس کا شکر ادا کرنے کے ہمیں جتنے عملی مواقع ملیں ہمیں ان سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے۔ اپنی زندگی سب کو پیاری ہوتی ہے، اپنا لائف اسٹائل برقرار رکھنے اور اچھا بنانے میں سب ہی کوشاں رہتے ہیں لیکن اگر آپ چاہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا فضل آپ پر قائم رہے تو اپنے سے نچلے لوگوں کی زندگیوں کو بھی دیکھیں اور اپنے ساتھ ان کا موازنہ کریں پھر آپ یہ جان سکیں گے کہ حقیقی شکر کیا ہے اور دراصل شکر کا ہی نام عیدالفطر ہے۔

 

Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 532 reviews.