ایمانداری کا صلہ
پریشان حال شخص نے احمد سے پوچھا” تمہیں یہاں گری ہوئی کوئی تھیلی ملی ہے“ آپ کی تھیلی کیسی ہے؟ احمد بولا۔ اس شخص نے اپنی تھیلی کی چند نشانیاں اسے بتائیں تو احمد نے جیب سے تھیلی نکال کر اس شخص کے حوالے کر دی۔ وہ شخص تھیلی پا کر بہت خوش ہوا اور بولا: بیٹا تمہارا بہت بہت شکریہ‘ تم نے مجھے تباہی سے بچا لیا۔ اس تھیلی میں میری سال بھر کی کمائی جمع ہے۔ یہ کہہ کر اس شخص نے احمد کو چاندی کا ایک سکہ انعام کے طور پر دیا۔ احمد واپس گھر کی طرف چل دیا۔ راستے میں ایک آدمی کو دیکھا جو شہر سے سبزیوں کے بیج فروخت کرنے آیا تھا۔ احمد نے چاندی کے سکے سے سبزیوں کے بیج خرید لئے گھر آ کر اس نے زمین تیار کی اور سبزیوں کے بیج بو دیئے۔ چند دن بعد ننھے منے پودے نمودار ہو گئے تو احمد بہت خوش ہوا۔ وہ اپنے پودوں کا بڑا خیال رکھتا تھا۔ اس لئے اس کی فصل بڑی اچھی ہوئی۔ ایک دن وہ گھر بیٹھا تھا کہ سامنے سے وہی شخص گزرا جس کی تھیلی احمد نے لوٹائی تھی۔ احمد نے بھاگ کر اس شخص کو سلام کیا اور اسے اپنے گھر لے آیا ‘ اس کی خاطر مدارات کی جب وہ جانے لگا تو احمد نے ایک ٹوکری میں تازہ سبزیاں بھر کر اسے پیش کیں۔ وہ شخص یہ دیکھ کر حیران رہ گیا اور پوچھا احمد بیٹا یہ کیا؟ ” آپ کے دیئے ہوئے چاندی کے سکے سے میں نے یہ بیج خریدے تھے۔ ابھی بیجوں سے یہ سبزیاں تیار ہوئی ہیں۔ یہ میرے ننھے سے کھیت کی پیداوار ہیں اور یہ سب آپ کی وجہ سے ہوا ہے۔ میری طرف سے آپ یہ حقیر تحفہ قبول فرمائیں۔ احمد نے جواب دیا۔
وہ شخص یہ سن کر بہت خوش ہوا اور بولا بیٹا میں زمیندار ہوں۔ مجھے ایک ایسے نوجوان کی ضرورت ہے جو ایماندار اور عقل مند ہو۔ اللہ کے فضل سے یہ دونوں خوبیاں تمہارے اندر موجود ہیں۔ آج سے میں نے تمہیں ملازم رکھ لیا ہے۔ تم دن کو تعلیم حاصل کیا کرنا اور شام کو میرے کاروبار کا حساب کتاب کیا کرنا۔ میں تمہیں اس کے عوض ہر ماہ 200 چاندی کے سکے دیا کروں گا۔ احمد یہ سن کربہت خوش ہوا اور کام کرنے کی حامی بھر لی اب وہ دن کو تعلیم حاصل کرتا اور رات کو کام کیا کرتا۔ اس طرح تعلیم کی منزلیں طے کرتا ہوا احمد بڑا آدمی بن گیا۔ اس نے غریبوں کیلئے کئی سکول اور ہسپتال قائم کئے اور آرام سے زندگی بسر کرنے لگا۔
(محمد شاہد حفیظ)
چاند ڈوب ہو گیا
بہت عرصہ پہلے گاﺅں میں ایک آدمی اور اس کا بیٹا رہتا تھا۔ وہ مچھیروں کا گاﺅں تھا۔ آدمی کا نام کرمو اور بیٹے کا نام چاند تھا۔ چاند اب سولہ سترہ برس کا تھا۔ وہ اپنی مرضی کرتا‘ لیکن فضول باتوں سے گریز کرتا تھا۔ چاند نے ایک دن اپنے والد سے کہا کہ آج ہم گہرے سمندر میں چلیں گے۔ اس نے ضد کی اور کرمو نے اس کی بات مان لی۔ پھر وہ گہرے سمندر کی طرف کشتی میں سوار ہو کر چل دیئے مگر جب وہ دس بارہ میل آگے آئے تو سمندر میں ایک خوفناک طوفان آیا۔ اس طرح دونوں ایک دوسرے سے بچھڑ گئے۔ کرمونے بے شمار آوازیں دیں‘ مگر رو پیٹ کر صبرکر لیاکہ اس کے سوا چارہ نہ تھا۔ وہ خوب رویا چیخا مگر کچھ حاصل نہ ہوا۔ جب کرمو آیا اور اپنی بیوی کو چاند کے متعلق بتایا تو اسی وقت بیوی کا انتقال ہو گیا۔ اب کرمو سارا دن بیٹھا رہتا۔ کبھی کبھار کوئی دوست آجاتا تو دل کا بوجھ ہلکا ہوجاتا ‘ ورنہ رونے دھونے کے سوا اور کوئی کام نہ تھا۔ کرمو کا غم اسے گھن کی طرح ختم کر رہا تھا۔ اب وہ بوڑھا ہو چکا تھا۔ شام کا کھانا اسے اپنے پڑوسی فضلو سے مل جاتا۔ صبح کوئی اور روٹی دے دیتا۔ اس طرح وہ زندگی کے دن پورے کر رہا تھا۔ بعض اوقات زندگی میں ایسے موڑ آتے ہیں کہ آدمی اپنے کئے پر پچھتاتا ہے۔ کرموں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ایک دن وہ بستر پر لیٹا تھا کہ السلام علیکم کی آواز آئی۔ آنے والے آدمی نے بتایا کہ میں مسافرہوں۔ رات بسر کرنے دیں تو مہربانی ہو گی۔ کرمو نے ہاں کر دی۔ آنے والے آدمی نے اپنا سامان کرمو کو دیا اور کہا اس میں ڈھیر ساری رقم ہے‘ رکھ لو میں صبح لے لوں گا۔ کرمونے سامان لے لیا اور رکھ دیا۔ بعد میں شیطان نے لالچ دیا اور مختلف ترکیبیں بتائیں۔ کرمو مہمان کے سونے کا انتظار کرنے لگا تاکہ اس کے سامان پر قبضہ کر لے۔ جب مہمان سو گیا تو کرمو نے اس کی گردن کاٹ دی اور لاش کو چھپا دیا۔ یہ کام اس نے راز داری اور بغیر آواز پیدا کئے ہوئے کیا اور سو گیا۔ صبح کے وقت اس کا پڑوسی فضلو آیا اور مبارکباد دینے لگا کہ چاند رات کو آگیا تھا ۔ بھائی! کون چاند؟فضلو نے اسے بتایا کہ وہ کل شام مچھلیاں پکڑ رہا تھا کہ دور سے ایک کشتی آتی دکھائی دی وہ کشتی قریب رک گئی جو آدمی اس سے اترا وہ چاند تھا‘ کشتی واپس چلی گئی اور چاند میری کشتی میںآگیا۔ اس نے مجھے بتایا کہ وہ سمندری لہروں میں گم ہو گیا تھا۔ پھر اسے کچھ ہوش نہیں رہا تھا۔ ایک جہاز ادھر سے گزر رہا تھا۔ جہاز والوں نے چاند کی آواز سنی تو اسے جہاز پر کھینچ لیا۔ انہوں نے چاند کو ایک شہر میں اتار دیا اور وہ محنت مزدوری کرنے لگا۔ وہ سوچنے لگا کہ جب ڈھیر ساری رقم لے کر گھر جاﺅں گا تو امی ابا خوش ہوں گے۔ چاند کو میں نے بتایا کہ تمہاری ماں کا انتقال ہو چکا ہے ‘ باپ زندہ ہے اب رونا نہیں‘ صبر سے کام لو اور بوڑھے باپ کی خدمت کرو۔ اس کے بعد وہ تمہاری طرف آیا مگر نظر نہیں آ رہا ہے۔ کرمو کی دنیا اندھیر ہو چکی تھی وہ زور ور سے رونے لگا اور کچھ دیر بعد بے ہوش ہو گیا‘ شاید ہمیشہ کیلئے۔
(محمد علی طاہر‘ ساہیوال)
Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 057
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں