Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔ --

چاچا نے پتھر اٹھوائے اور ایک سبق سکھایا

ماہنامہ عبقری - جون 2019

جب تم لوگ کسی کی غیبت کرتے تو میں ایک پتھر تمہارے تھیلے میں ڈال دیتا اور جب تم کوئی مثبت بات کرتے تو میں ایک پتھر تمہارے تھیلے سے نکال کر باہر پھینک دیتا۔ اب اپنے تھیلوں کی طرف دیکھو کہ یہ کتنے بھاری ہیں۔

ہمیں تو سیرسپاٹا پسند ہے
بچپن میں ہم بہن بھائی گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے دیہات میں چچا کے پاس جاتے تھے‘ ان کا گھر بہت بڑا تھا‘ ہمارے وہ چچا یونیورسٹی کے شعبہ ارضیات میں پروفیسر تھے وہ اکثر صبح سویرے دیہات کی کھلی فضا میں چہل قدمی کرتے تھے اور اپنی یونیورسٹی کیلئے پتھروں کی مختلف اقسام اکٹھی کیا کرتے تھے۔ ہمیں بھی سیرسپاٹا بہت پسند تھا۔ لہٰذا اکثر ہم چچا کے ساتھ ان کے مشغلے میں شامل ہو جایا کرتے تھے۔
ایک دن ہم سب صبح بہت جلد گھر سے روانہ ہوئے‘ چچا نے ہمیں بھی پتھر جمع کرنے کے کام میں لگانے کیلئے ہماری کمر سے تھیلے باندھ دئیے اور فرمایا کہ تم لوگ بھی پتھروں کی اقسام جمع کرنے میں میری مدد کرو‘ ہم بخوشی اس کام کیلئے تیار ہوگئے۔ سارا دن ہم گھوم پھر کر پتھروں کی مختلف اقسام جمع کرتے رہے۔ سارے راستے ہم بہت باتیں کرتے اور پھر پتھر ڈھونڈتے رہے۔ چچا ہمارے تھیلے سے کچھ پتھر نکال بھی لیتے اور کبھی ایک ہی قسم کے کئی پتھر ہمارے تھیلے میں بھر دیتے۔
سہ پہر کو جب ہم گھر واپس پہنچے تو بہت زیادہ تھک چکے تھے ہمارے تھیلے بہت بھاری ہورہے تھے۔ جب ہم نے ان تھیلوں کو کندھوں سے اتارا تو ہمیں بہت سکون ملا لیکن چچا کا تھیلا اب بھی نصف سے کم تھا۔
آج تم لوگوں کا چھوٹا سا امتحان تھا
ہم نے چچا جان سے پوچھا کہ آپ نے ہمارے بیگ میں اتنے زیادہ پتھر کیوں بھر دئیے۔ انہوں نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا کہ میں نے تو نہیں بھرے کچھ دیر رک کر انہوں نے کہا تمہیں پتہ نہیں چلا آج میں نے تم لوگوں کے رویوں کا چھوٹا سا امتحان لیا ہے۔ ہم نے حیران ہوکر پوچھا کہ رویوں کے امتحان سے آپ کی کیا مراد ہے؟ چچا فرمانے لگے: یہ ایک سبق ہے جو کبھی کسی نے مجھے سمجھایا تھا جو ہمیشہ مجھے یاد رہا اور آج وہی سبق میں نے تم لوگوں کو سکھانے کی کوشش کی ہے۔ ہم نے حیرت سے پوچھا کیسا سبق؟ چچاجان فرمانے لگے: جو کچھ آج تم لوگ کہہ رہے تھے میں نے ایک ایک لفظ بہت غور سے سنا۔ جب تم لوگ کسی کی غیبت کرتے تو میں ایک پتھر تمہارے تھیلے میں ڈال دیتا اور جب تم کوئی مثبت بات کرتے تو میں ایک پتھر تمہارے تھیلے سے نکال کر باہر پھینک دیتا۔ اب اپنے تھیلوں کی طرف دیکھو کہ یہ کتنے بھاری ہیں۔ مجھے امید ہے کہ تم لوگ اس امتحان کو یاد رکھو گے۔
دراصل ہمارے منفی خیالات پتھر ہیں
دراصل تمہارے منفی خیالات ان پتھروں کی مانند ہیں‘ تم اپنے ذہن میں اسے لیے پھرتے ہو جیسے پتھروں کا تھیلا‘ کمر پر لاد رکھا تھا۔ جتنے زیادہ منفی خیالات ہوں گے اتنا ہی تمہارا ذہن بھاری ہوگا لیکن ہاں تمہارے مثبت خیالات ان منفی خیالات کو رد کرسکتے ہیں لہٰذا اب اپنے اپنے تھیلے کی طرف دیکھو کہ تم نے کیا کہا اور کیسے کہا۔ اس چھوٹی سی بات میں ایک بڑا سبق پوشیدہ تھا جوچچا نے ہمیں بہت دلچسپ انداز میں سکھلایا تھا ایک ایسا سبق جو ہماری پوری زندگی پر محیط تھا اور وہ سبق تھا کہ رویوں کی طاقت کتنی مضبوط شدید اور پراثر ہوتی ہے جتنے زیادہ منفی خیالات کا بوجھ آپ اپنے ذہن میں رکھیں گے اتنا ہی زندگی کو بوجھ آپ پر بڑھتا جائے گا۔ آپ کا سفرحیات مشکل اورکٹھن ہوجائے گا۔ اگر آپ اپنی زندگی کو آسان بنانا چاہتے ہیں تو اپنے خیالات اور رویوں میں تبدیلی لانا ضروری ہے۔ (غلام قادر ہراج‘ جھنگ صدر)
کسی سے الجھے‘حسدکیے بغیر آگے نکل جانے کا ہنر
کلاس روم میں سناٹا چھایا ہوا تھا۔ طلبہ کی نظریں کبھی استاد کی طرف اٹھتیں اور کبھی بلیک بورڈ کی طرف کیوں کہ استاد کے سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا۔
تمام طلبہ کے نزدیک یہ ناممکن تھا
سوال تھا ہی ایسا استاد نے کلاس روم میں داخل ہوتے ہی بغیر ایک لفظ کہے بلیک بورڈ پر ایک لمبی لکیر کھینچ دی۔ پھر اپنا رخ طلبہ کی طرف کرتے ہوئے پوچھا ’’تم میں سے کون ہے جو اس لکیر کو چھوئے بغیر چھوٹا کر دے؟‘‘ ’’یہ ناممکن ہے۔” کلاس کے سب سے ذہین طالب علم نے آخر اس خاموشی کو توڑتے ہوئے جواب دیا ’’لکیر کو چھوٹا کرنے کے لیے اسے مٹانا پڑے گا اور آپ اس لکیر کو چھونے سے بھی منع کر رہے ہیں۔‘‘
طلبہ نے اپنی زندگی کا سب سے بڑا سبق سیکھا
باقی طلبہ نے بھی گردن ہلا کر اس کی تائید کر دی۔ استاد نے گہری نظروں سے طلبہ کو دیکھا اور کچھ کہے بغیر بلیک بورڈ پر پہلی لکیر کے پاس تھوڑا فاصلہ دے کر اس سے بڑی ایک اور لکیر کھینچ دی۔ اب سب نے دیکھ لیا کہ استاد نے لکیر کو چھوئے بغیر اسے چھوٹا ثابت کر دیا تھا۔ طلبہ نے آج اپنی زندگی کا سب سے بڑا سبق سیکھا تھا یعنی دوسروں کو نقصان پہنچائے بغیر ان کو برا بھلا کہے بغیر ان سے حسد کیے بغیر ان سے الجھے بغیر آگے نکل جانے کا ہنر جو انہوں نے چند منٹ میں سیکھ لیا۔ (عالیہ مظفر‘ اوکاڑہ)

Ubqari Magazine Rated 5 / 5 based on 649 reviews.