صوبیدار میجر نے مجھے بتایا کہ ہم نے شہید کی ایک ٹانگ بہت ڈھونڈی لیکن ہمیں ان کی ٹانگ نہ مل سکی ہم نے پوچھا کہ کیا ٹانگ بالکل جدا ہو چکی تھی ؟ اس کے باوجود انہوں نے اپنے حواس برقرار رکھے اور دشمن کے اس مین مورچے میں جا گھسے
محفوظ آباد میں شام گہری ہو چکی تھی لانس نائیک محمد محفوظ شہید کے بھائی کے پاس ہمیں خاصا وقت گزر چکا تھا لیکن انہوں نے شہید کے حوالے سے یادوں کی جو پٹاری کھولی ہوئی تھی اس میں اتنا کچھ تھا کہ جب وہ انہیں بیان کر رہے تھے تو ہم سحر زدہ ان کی گفتگو سن رہے تھے محمد معروف کا کہنا تھا کہ جب میں محمد محفوظ کی شہادت کے 27 ویں روز گھر پہنچا تو چار روز اہل خانہ کے ساتھ گزار کر لاہور چلا گیا تاکہ پتہ کروں کہ میرا چھوٹا بھائی دشمن کے ساتھ لڑا کس طرح تھا اس نے سینے پر گولی کھائی تھی یا کہیں پیٹھ پر تو گولی نہیں لگی تھی وہاں پہنچ کر اس کے ساتھیوں نے کہا جس طرح محفوظ لڑا ہے اس کی مثال نہیں ملتی اس کی تعریف دشمن کے افسروں نے بھی کی ہے اس نے سینے پر گولیاں کھائیں‘ اس دوران محفوظ شہید کے صوبیدار میجر کو معلوم ہوا کہ شہید محفوظ کا بھائی آیا ہوا ہے تو اس نے مجھے پیغام بھجوایا کہ معروف سے کہیں کہ مجھے ملے بغیر واپس مت جائے چنانچہ میں ان کے انتظار میں بیٹھ گیا صوبیدار میجر جن کا نام صفدر یا ملک صفدر تھا نے اگلے روز میرے لئے گاڑی بھجوائی اور میں ان سے ملنے چلا گیا‘ انہوں نے میرے سامنے ایک اخباری تراشا رکھا اس کا عنوان تھا لانس نائیک کی دلیرانہ شہادت اس میں محفوظ شہید کا نام نہیں لکھا ہوا تھا صرف لانس نائیک لکھا ہوا تھا اس کے بعد محفوظ کی ساری کارکردگی لکھی گئی تھی کہ اس نے کس طرح جام شہادت نوش کیا وہ تراشا انہوں نے مجھے دیا اور کہا کہ ہم انشا ء اللہ اس کے لئے پاک فوج کا سب سے بڑا اعزاز حاصل کرنے کی سفارش کریں گے اگر اللہ تعالیٰ نہ کرے وہ نہ بھی مل سکا تو ہلال جرات تو ضرور ملے گا‘ انہوں نے کہا کہ ہمارے سینئرز نے نشان حیدر کی سفارش کر دی ہے دُعا ہے کہ انہیں ان کے کارنامے پر یہی اعزاز نصیب ہو پھر میں وہاں سے واپس آگیا۔اس وقت کےجنرل ٹکا خان نے محفوظ شہیدؒ کی فائل منگوائی اسے دیکھا اور پھر فائل لے کر وزیراعظم کے پاس چلے گئے وہاں جا کر نشان حیدر کی منظوری لے آئے‘ اس موقع پر شہید کے بہنوئی محمد فرید بولے کہ دراصل محفوظ شہید کی شہادت اور دلیری کو بھارتی فوجیوں کی پذیرائی نے زیادہ شہرت دی جب دشمن بھی آپ کی بے جگری کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو جائے تو پھر باقی کچھ نہیں بچتا ۔دشمن کے فوجی باربار شہید کے بارے پوچھتے تھے کہ یہ نوجوان کون تھا کیونکہ دشمن کے گھر میں گھس کر اسے جہنم واصل کرنا اور وہ بھی بغیر کسی ہتھیار کے‘ کم کارنامہ نہ تھا جب یہ بھی معلوم ہو کہ سامنے سارے ہتھیار بند موجود ہیں اور وہ خالی ہاتھ ہوں اس پر طرہ یہ کہ ایک ٹانگ بھی کٹ چکی تھی اور ایک بازو بھی ناکارہ ہو چکا تھا یہ دلیری دشمن کے لئے بہت حیران کن تھی ۔
معروف نے بتایا کہ آپ کے لئے یہ بھی حیرا ن کن بات ہوگی کہ صوبیدار میجر نے مجھے بتایا کہ ہم نے شہید کی ایک ٹانگ بہت ڈھونڈی لیکن ہمیں ان کی ٹانگ نہ مل سکی ہم نے پوچھا کہ کیا ٹانگ بالکل جدا ہو چکی تھی ؟ تو معروف نے کہا کہ جی یہی تو میں بتا رہا ہوں کہ ان کی ایک ٹانگ اڑ گئی تھی اس کے باوجود انہوں نے اپنے حواس برقرار رکھے اور دشمن کے اس مین مورچے میں جا گھسے جہاں سے مشین گن پاکستانی فوجیوں پر گولیاں برسا رہی تھی شہید کی میت کو جب دفن کیا گیا تو ان کے ساتھ ان کی ٹانگ نہیں تھی جنرل ٹکا خان نے نشان حیدر کا اعلان 16 اپریل 1972 ء کو کیا اور میرے والد کو صدر ہائوس میں ایک تقریب میں بلا کر چھ ماہ بعد یہ نشان حیدر عطا ء کیا گیا‘ ہم نے نشان حیدر کو دیکھا یہ وہ اعزاز تھا جو ہر فوجی جوان کی خواہش ہوتی ہے ‘ یہ نشان حیدر جو حضرت علی ؓ حیدر کرار کی نسبت سے منسوب تھا سب سے بڑا فوجی اعزاز تسلیم کیا جاتا ہے ہم نے معروف سے پوچھا کہ آپ کو کب معلوم ہوا تھا کہ انہیں نشان حیدر مل چکا ہے تو انہوں نے کہا کہ میں اس وقت اپنی یونٹ کے ساتھ اسکردو میں تھا میں نے ریڈیو پر یہ اعلان سنا کہ محمد محفوظ شہیدؒ کو حکومت پاکستان نے سب سے بڑا فوجی اعزاز نشان حیدر عطا ء کر دیا ہے ہم نے کہا کہ نشان حیدر سب سے بڑا اعزاز اور ہمارا ایمان ہے کہ شہادت کا صلہ اللہ پاک دیتا ہے اس کے علاوہ حکومت کی جانب سے نشان حیدر پانے والے کے خاندان کو کیا سہولیات دی جاتی ہیں ؟ تو انہوں نے کہا کہ تین مربع زمین خانیوال میں ملی تھی اور شہید کی پنشن بھی والدہ کے نام جاری ہوئی والدہ محفوظؒ کی شہادت کے پندرہ ماہ بعد فوت ہو گئیں تو پنشن والد صاحب کے نام منتقل ہو گئی ان کے انتقال کے بعد 2003 ء میں پنشن ختم ہو گئی جب محفوظ شہیدؒ ہوئے تو اس کے بعد والدہ دوبارہ اپنے قدموں پر کم ہی کھڑی ہو سکیں ۔محمد معروف نے بتایا کہ پہلے شہید کو اس جگہ دفن کیا گیا جہاں اب والد صاحب کی قبر ہے جب نشان حیدر مل گیا تو اس سے قبل سنٹرل کمانڈر اور جنرل ٹکا خان چادر چڑھا کر جا چکے تھے 15 پنجاب کے لیفٹیننٹ کرنل بعد میں چادر چڑھانے آئے ان کے ساتھ پورا دستہ سلامی دینے کے لئے آیا انہوں نے مجھے کہا کہ معروف یہ جگہ بہت تنگ ہے یہاں نہ تو مزار بن سکتا ہے اور نہ ہی سلامی دی جا سکتی ہے‘ اب ان کی قبر پر باقاعدہ لوکل گورنمنٹ کی طرف سے مزار بنے گا اور ہر سال یہاں اسلامی دی جائے گی اس لئے اگر ممکن ہو تو شہید کی میت کو کسی کھلی جگہ پر منتقل کیا جائے میں نے کہا کہ یہ سب زمین اپنی ہے آپ جہاں چاہیں گے وہیں قبر منتقل کر دی جائے گی میں نے بعد میں یہ بات اپنی برادری کے ساتھ کی کہ اس طرح قبر منتقل کرنے کا کہا گیا ہے مجھے لوگوں نے ڈرایا کہ اب تو چھ ماہ ہو گئے ہیں اللہ تعالیٰ جانے میت کس حالت میں ہوگی میں نے جب یہ باتیں سنی تو لاہور چلا گیا وہاں ان کے کمانڈنٹ آفیسر سے ملا وہ کرسچین تھے اور ان کا نام سرلی اینن تھا انہوں نے مجھے کہا کہ میں کسی مذہبی معاملےمیں مداخلت نہیں کرتا اس کا سب سے بہتر حل یہ ہے کہ آپ اس حوالے سے اپنے علما ء سے بات کریں اگروہ اجازت دیں تو پھر مجھے اطلاع کریں میں یہاں فوجی جوان لے کر آئوں گا اور قبر منتقل کردیں گے میں واپس آکر یہاں ایک دوسرے قصبے گوڑا مست کے معروف عالم دین کے پاس چلا گیا ان کا نام حاجی امیر عالم تھا انہیں جا کر ساری بات بتائی انہوں نے میری بات سنی تو ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور کہنے لگے کہ یار معروف ہمارے ایمان اس قدر کمزوری ہوگئے ہیں جبکہ اللہ پاک قرآن میں واضح فرماتے ہیں کہ شہید زندہ ہیں ا ور انہیں غذا تک اللہ پاک نے پہنچانے کی ذمہ داری لی ہوئی ہے پھر آپ اور میں کیسے کہہ سکتے ہیں کہ وہ مردہ ہیں ؟ چنانچہ انہوں نے کہا کہ وقت مقرر کرو میں خود آئوں گا اور ہم خود ہی قبر منتقل کریں گے کسی بھی فوجی جوان کو بلانے کی ضرورت نہیں ہے چنانچہ 30 جون 1972ء بروز جمعۃ المبارک طے کیا کہ میت منتقل کی جائے گی میں نے آکر مساجد میں اعلان کرا دیا کہ اس روز میت منتقل کی جائے گی ہزاروں کی تعداد میں لوگ اس موقع پر موجود تھے ہم نے پہلے موجودہ قبر تیار کی اور جمعہ کی نماز ادا کرنے چلے گئے واپس آکر محفوظ شہید کی قبر پر پہلا بیلچہ میں نے خود چلایا آپ یقین کریں کہ جیسے جیسے قبر کھلتی جارہی تھی‘ قبر سے خوشبو اٹھنا شروع ہوگئی‘ ایسی پیاری خوشبو قبر سے اٹھنے لگی کہ اس سے پہلے اور نہ آج تک دوبارہ میرے مشام جاں کو معطر کرسکی جو اس خوشبو کو محسوس کرتا وہ حیران رہ جاتا ہزاروں لوگوں نے اس خوشبو کو محسوس کیا جب قبر کھل گئی تو میں نے خود اندر میت کے صندوق کے نیچے سے رسی گزاری تاکہ اسے اوپر کھینچا جائے
دائیں ہاتھ کو تابوت کے نیچے ڈالا تو پورا ہاتھ لہو سے تربتر ہوگیا‘ خیر میں نے رسہ گزار کر میت کو باہر نکلوایا قبر میں تازہ خون ایسے پڑا ہوا تھا جیسے بکرا ذبح کیا جاتا ہے میں نے اس پر مٹی ڈال دی جب میں قبر سے باہر آیا تو لوگوں نے بتایا کہ چارپائی پر خون کے قطرے گر رہے ہیں تابوت کی درزوں سے خون نکل کر چارپائی سے گرنے لگا میں نے گھر سے پلیٹ منگوا کر تابوت کے اس کونے میں رکھ دی جہاں سے خون باہر آ رہا تھا وہاں سے قطرہ قطرہ خون پلیٹ میں جمع ہونا شروع ہوگیا ہم نے شہید کے بھائی سے پوچھا کہ وہ پلیٹ موجود ہے ؟ تو انہوں نے کہا کہ اس وقت افراتفری کا عالم تھا ہمیں ہوش ہی نہ تھا ہم نے وہ پلیٹ بھی شہید کی میت کے ساتھ دفن کردی اب سوچتا ہوں کہ اسے محفوظ کرلیتا لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ کام نہیں ہونے دیا گیا اس موقع پر میں نے مولانا صاحب سے عرض کی کہ میں نے تدفین کے وقت اپنے بھائی کا چہرہ نہیں دیکھا تھا اجازت ہو تو میں تابوت سے چہرہ دیکھ لوں؟ انہوں نے تھوڑی دیر سوچنے کے بعد مجھے کہا کہ ایک شرط پر چہرہ دیکھ لو کہ جو کچھ دیکھو گے کسی سے اس کا ذکر نہیں کرو گے میں نے کہا کہ ضرور کسی سے ذکر نہیں کروں گا میں نے جب تابوت کا تختہ ہٹایا تو کسی غیبی ہاتھ نے ایسے دھکا دیا کہ میں پیچھے کھڑے شخص کے سینے کے ساتھ جا لگا اس نے مجھے سنبھالا حوصلہ دیا اور دل مضبوط کرنے کی تلقین کی چھ ماہ اور تیرہ دن بعد میں نے دوبارہ آگے بڑھ کر چہرہ دیکھا تو میں حیرت زدہ رہ گیا شہید کی ڈاڑھی بڑھی ہوئی تھی معروف نے ہاتھ کی انگلیوں ہتھیلی تک نشان بنا کر بتایا یعنی کہ تین انچ تک کہنے لگے کہ جب شہید کو دفن کیا گیا تھا تو انہوں نے تازہ شیو بنائی تھی اب ان کی تین انچ داڑھی نکلی ہوئی تھی میت کے سینے پر جو پھول پڑے تھے وہ بالکل تازہ تھے اور خوشبو دے رہے تھے‘ چہرہ بالکل ہشاش بشاش تھا اس طرح جیسے ابھی آنکھیں کھول کر مجھے آواز دیں گے‘ نیچے پورے جسم پر کمبل لپیٹا ہوا تھا صرف چہرہ کھلا ہوا تھا ہم نے کہا کہ نظر بھر کر دیکھا تھا؟ تو انہوں نے کہا کہ میں نے پانچ منٹ تک ان کا چہرہ دیکھا میری والدہ نے بھی خواہش کی تھی لیکن مولانا نے انہیں چہرہ دیکھنے کی اجازت نہ دی لوگ مجھ سے پوچھنے لگے لیکن میں نے کسی سے بات نہ کی کہ میں نے کیا دیکھا بعد میں والدہ مستقل روتی رہتیں اور مجھ سے پوچھتی رہتیں کہ تم نے کیا دیکھا تھا بتائو؟ مجھ سے ان کا رونا برداشت نہ ہو سکا اور پھر مجھے مجبوراً دس دن بعد انہیں بتانا پڑا کہ میں کیا دیکھا والدہ کا کہنا تھا کہ ان کی شیو تو تازہ تھی میں نے کہا میں نے جب دیکھا تو تین انچ شیو بڑھ چکی تھی ۔اس کے بعد کمرے میں مکمل خاموشی چھا گئی ہمارے پاس گفتگو کے لئے الفاظ ختم ہو گئے محمد معروف پھر گویا ہوئے کہ جب تدفین مکمل ہو گئی تو اس قبر کو عارضی طور پر بند کر دیا گیا کیوں کہ والد صاحب نے یہ قبر اپنے لئے مخصوص کرلی کہ میرے مرنے پر مجھے اسی قبر میں دفن کیا جائے چنانچہ انہیں 2003ء میں دوبارہ یہ قبر کھول کردفن کیا گیا ‘ہمارے خاندان کا ایک بندہ ہے جس کا نام صغیر ہے وہ قبریں کھودتا ہے اور میت لحد میں اتارتا ہے ‘اس کا کہنا تھا کہ میت کو قبر میں رکھنے لگا تو مجھے قبر سے آواز آئی کہ تم اب چھوڑ دو میں سنبھال لوں گا‘ محمد معروف نے بتایا کہ اس کے بعد ایک دن شہید میرے خواب میں آئے میں ان کی ٹانگوں کی جانب بیٹھا تھا ان کا صرف پائوں کا انگوٹھا زخمی تھا میں نے کہا کہ تمہاری تو ٹانگ کٹ گئی تھی کہنے لگے نہیں یار صرف انگوٹھا زخمی ہوا ہے تم ایک کام کرو میرے مزار پر پانی نہیں ہے اس کا بندوبست کرو چنانچہ پھر میں نے کنواں کھدوایا اور یہاں پانی کا بندوبست کیا ۔
لانس نائیک محمد محفوظؒ کی یہ داستان شجاعت سن کر ایمان تازہ ہوگیا شہید زندہ ہے اور تا قیامت زندہ رہے گا اس داستان سے اس بات پر یقین اور بھی کامل ہو گیا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں