Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔

محنتی لڑکے ! میری دکان پر کام کروگے؟

ماہنامہ عبقری - جون 2018

حاجی صاحب بولے: لڑکے اور کیاکام کرتے ہو‘ عامر بولا: سکول میں پڑھتا ہوں اور دوپہر میں تین چار جگہوں پر کھانا سپلائی کرتا ہوں‘ بس! کھانا میری امی بناتی ہیں کیونکہ اباجان کا انتقال ہوگیا ہے اور اب یہی ہمارا ذریعہ معاش ہے‘ حاجی صاحب بولے: کیا تم میری دکان پر کام کروگے‘ ا

گرمی کی دوپہر تھی‘ سکول کی چھٹی ہوچکی تھی اور آٹھویں کلاس کا طالب علم عامر تیزی کے ساتھ اپنی سائیکل کو گھسیٹ کر پنکچر لگوانے والے دکان تک لے جارہا تھا‘ اس کے انگ انگ سے پسینہ چھوٹ رہا تھا ایک تو شدت کی گرمی اور دوسری اس کو یہ ٹینشن تھی کہ اگر وہ وقت پر گھر نہ پہنچا تو کھانا کس طرح دفاتر میں پہنچائے گا۔ عامر کے ابو کا انتقال ہوچکا تھا اور اس کی امی دوپہر کا کھانا تیار کرکے دو تین دفاتر میں سپلائی کیا کرتی تھیں اس طرح ان کی گزر بسر ہورہی تھی‘ دو تین ماہ پہلے عامر نے ماں سے کہہ کر پرانی سائیکل لے لی تھی جس پر نہ صرف وہ سکول آتا جاتا تھا بلکہ چھٹی کے بعد جلد گھر پہنچ کر ماں کے بنائے ہوئے لنچ باکس دفاتر میں پہنچا دیا کرتا تھا اور یہ دیکھ کراسے خوشی ہوتی تھی کہ اب اس کی وجہ سے ماں کو گھر سے باہر نہیں نکلنا پڑتا اور ماں کاکام آسان ہوجاتا تھا مگر آج سکول آتے ہوئے سائیکل کا ٹائر پنکچر ہوگیا اور وہ سکول بھی دیر سے پہنچا استاد سے سزا بھی ملی‘ اب شدید گرمی کی دوپہر میں سائیکل گھسیٹ کر پنکچر لگوانے جارہا تھا‘ آخر پنکچر لگوا کر وہ جلدی سے گھر پہنچا‘ گھر اس کی امی لنچ باکسز تیار کرکے بے چینی سے عامر کا انتظار کررہی تھی اور عامر کے دیر ہونے کی وجہ سے سخت پریشان تھی‘ جب عامر گھر میں داخل ہوا تو ان کی جان میں جان آئی اور وہ پیار سے عامر کو گلے لگاتے ہوئے بولیں: شکر ہے بیٹا تم خیریت سے آگئے‘ کیوں دیر ہوگئی تھی میری جان کو؟ عامر نے ساری کہانی اپنی والدہ کو سنا دی۔ عامر نے کہا آپ ٹفن دیں میں کھانا دفاتر میں پہنچا کر آتا ہوں‘ امی نے کہا نہیں پہلے تم دونوں بہن بھائی کھانا کھاؤ‘میں خود جاتی ہوں کھانا دینے‘ پہلے بھی تو جاتی تھی‘ جب تمہارے پاس سائیکل نہیں تھی‘ عامر بولا: نہیں امی آپ کو پیدل جانے میں بہت دیر ہوجائے گی جبکہ میں سائیکل پر جلدی پہنچ جاؤں گاکیونکہ ہم آج ویسے بھی بہت لیٹ ہوچکے ہیں۔ اب جو امی نے گھڑی پر نظر کی تو سوا دو بج رہے تھے فوراً بولیں اے کاش! میں پہلے ہی نکل جاتی بیٹے کی فکر میں یونہی ادھر ادھر چکر کاٹ رہی تھی‘ کھانا تو ایک بجے سے تیار ہے‘ ڈیڑھ بجے پہنچ جانا چاہیے تھا کہیں انہوں نے کینٹین وغیرہ سے نہ کھالیا ہو‘ میری تو محنت رائیگاں چلی جائے گی۔
جب عامر نے لذیذ کھانے کی خوشبوؤں سے مہکتے ٹفن باکس اٹھائے تو اس کی بھوک چمک اٹھی کیونکہ اس نے صبح کی صرف چائے ہی پی ہوئی تھی اور بہت دل چاہ رہا تھا کہ وہ ابھی کھانا کھالے مگر ایسا کرتا تو ڈر تھا کہ لوگ کھانے کیلئے انتظٓار کرتے رہ جائیں گے‘ لہٰذا وہ شدید بھوک میں تیز سائیکل چلاتا ہوا دفاتر کی طرف روانہ ہوا‘ پہلے دفتر میں پہنچا تو وہاں جاویدصاحب اپنے دوستوں کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھے‘ اسے دیکھتے ہی گویا ہوئے: ’’بیٹا آج تو ہم کینٹین سے کھانا منگوا کر کھاچکے ہیں‘ عامر افسردگی سے بولا: سرجی! میری سائیکل خراب ہوگئی تھی‘ سکول کے بعد اس کو پنکچر لگوا رہا تھا ورنہ تو میں سکول کے فوراً بعد آجاتا ہوں‘ عامر کی بات سنتے ہی جاوید کے برابر والا آدمی بولا: ’’ارے واہ! تم اتنے محنتی بچے ہو‘ پڑھ بھی رہے ہو اور کام بھی کرتے ہو‘ یہ لو تمہارا انعام‘ انہوں نے سو روپے کا نوٹ جیب سے نکال کر عامر کی طرف بڑھایا تو عامر بولا: مجھے انعام نہیں چاہیے سر‘ آپ یہ کھانا رکھ لیں تو میں یہ سمجھوں گا کہ میری محنت وصول ہوگئی‘ ورنہ یہ افسوس رہے گا کہ میرے دیر کرنے کی وجہ سے امی جان کی کھانا بنانے کی محنت بھی رائیگاں گئی اور یہ لنچ باکس فروخت نہ ہوسکا‘ یہ سن کر جاوید صٓاحب نے ہنستے ہوئے کہا: ’’بھئی یہ کون کہہ رہا ہے کہ تمہاری محنت ضائع ہوگئی آج اگر تم وقت پر آتے تب بھی ہم کھانا کینٹین سے ہی منگواتے کیونکہ آج میرے دوستوں نے یہاں میٹنگ رکھی تھی اور کھانا آٖفس کے اکاؤنٹ سے آیا تھا مگرمیں پابند ہوں کہ تمہارے کھانے کے پیسے بھی ادا کروں گا کیونکہ میں روزانہ کا لگا بندھا گاہک ہوں‘ تم فکر نہ کرو‘ میں وہی ہفتہ وار پانچ سو روپے ادا کروں گا اور میری طرف سے تم یہ کھانا کھالینا۔ میں کسی قسم کی کٹوتی نہیں کروں گا‘ بے فکر رہو۔ جاوید صاحب کی بات سن کر ان کا دوست بولا: ارے واہ! صرف پانچ سو روپے میں ہفتے بھر کا کھانا اگر مل جائے تو کیا برائی ہے۔ اور کھانا بھی انتہائی لذیذ اور نفاست سے بنا ہوا جس میں مناسب مرچ مصالحے کا استعمال ہو۔ جاوید صاحب نے جملہ مزید آگے بڑھایا کہ جب سے میں یہ کھانا کھارہا ہوں میرا معدہ بالکل تندرست ہوگیا ہے۔ ٹھیک ہے بیٹا! کل سے مجھے بھی ان کے ساتھ ہی کھانا لاکر دیا کرو‘ میری ٹیبل وہ کونے والی ہے۔ یہ میرے ایڈوانس پیسے ہیں‘ انہوں نے پانچ سو کے نوٹ کے ساتھ ایک سو روپے والا نوٹ بھی عامر کو تھما دیا‘ بیٹا! سوروپے تمہارا انعام ہے۔ اب عامر نے روپے لیتے ہوئے ٹفن ان صاحب کے آگے بڑھا دیا‘ سر پھر یہ آپ رکھ لیں‘ رات کو کھالیجئے‘ وہ صاحب ہنستے ہوئے بولے: بیٹا جب سے معدہ خراب ہوا ہے میں رات کو صرف دودھ ہی پی کر سوتا ہوں‘ عامر بولا: اس میں تین عدد کوفتے اور دو آلو ہیں‘ ساتھ تین چپاتیاں ہیں‘ آپ تینوں انکل ایک ایک کوفتہ اور چپاتی کھالیں۔ ٹفن جب کھولا تو سالن کی مہک نے سارے کمرے کو مہکا دیا‘ وہ حضرات بولے واقعی نہایت نفیس کھانا بنا ہوا ہے‘ خوشبو بتارہی ہے‘ ہم کھانا کھاچکے ہیں بیٹا یہ کھانا تم کھالینا ہماری طرف سے دعوت قبول کرلو۔ عامر نے پیسے جیب میں ڈالے‘ ٹفن پکڑا اور خداحافظ کہتے ہوئے دفتر سے باہر نکل آیا‘ جلدی جلدی نچلی منزل پر دو مزید گاہکوں کو ٹفن پکڑاتا ہوا حاجی صاحب کی دکان کی طرف روانہ ہوا‘ جب دکان پر پہنچا تو اس وقت اپنے نوکر کو سخت غصہ میں ڈانٹ رہے تھے‘ ڈرتے ڈرتے سلام کیا‘ معاف کرنا صاحب آج میں لیٹ ہوگیا‘ حاجی صاحب بولے: بیٹا ٹھیک وقت پر آئے ہو‘ ابھی ابھی گاہک گئے ہیں‘ عامر نے خدا کا شکر ادا کیا اور ٹفن رکھ کر سائیکل پر بیٹھنے ہی لگا تھا کہ حاجی صاحب بولے: لڑکے اور کیاکام کرتے ہو‘ عامر بولا: سکول میں پڑھتا ہوں اور دوپہر میں تین چار جگہوں پر کھانا سپلائی کرتا ہوں‘ بس! کھانا میری امی بناتی ہیں کیونکہ اباجان کا انتقال ہوگیا ہے اور اب یہی ہمارا ذریعہ معاش ہے‘ حاجی صاحب بولے: کیا تم میری دکان پر کام کروگے‘ اچھا معاوضہ دوں گا‘ تمہیں صرف حساب کتاب لکھنا ہوگا‘ مگر میری پڑھائی‘ عامر سوچتےہوئے بولا: میں تمہیں کونسا صبح بلارہا ہوں‘ سکول سے آنے کے بعد جب تم کھانا سپلائی کرتے ہو تو آخری دکان میری ہے‘ تم کل سے یہییں رک جانا اسی وقت سے شام چھ بجے تک کا ٹائم تمہیں دینا ہوگا‘ وہ کونے میں جو میزکرسی پڑی ہے اس پر بیٹھ کر حساب کتاب لکھنا‘ صبح جو سیل ہوگی پہلے میں تمہیں وہ لکھوا دیا کروں گا پھر باقی دن کا حساب تم خود لکھ لینا۔ اس کام کے تمہیں پانچ ہزار روپے ماہوار دوں گا‘ ہاں تم اپنی کتابیں بھی ساتھ لے آنا‘ فالتو وقت میں اپنا پڑھ لیا کرو‘ تم محنتی بچے لگتے ہو‘ مجھے ایسے ہی لڑکے کی ضرورت ہے۔ عامر خوشی سے بولا: جی جناب! میں امی سے پوچھ کر کل ہی کام پر آجاؤں گا‘‘ اب عامر گھر کی طرف روانہ ہوا‘ کیسی تھکن کیسی بھوک سب پانچ ہزار نوکری ملنے کی خوشی نے ہٹا دی تھی‘ پڑھائی کے ساتھ ساتھ گھر کیلئے کمانا اور ماں کو آرام پہنچانا اس کا سب سے بڑا خواب تھا‘ اسے حیرت تھی کہ کتنی آسانی سے اس کا خواب پورا ہونے جارہا ہے‘ مزید خوش یہ بھی تھی کہ آج اسے آلو شوربہ نہیں بلکہ کوفتے کھانے کو ملیں گے۔ گھر جاکر ساری بات اماں کو بتائی اور پیسے ماں کے ہاتھ پر رکھے‘ ماں بولی: یااللہ تیرا شکر ہے‘ عامر بولا: کھانا کھاتے ہوئے بولا: امی جان اب تو آپ اچھا کھانا تھوڑا زیادہ بنا دیا کریں گی نا؟ ماں بولی: کیوں نہیں میرے لال آج سے کماؤ پوت جو ہوگیا ہے۔

Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 755 reviews.