آج کل ماں باپ کے دل آزردہ کیوں ہیں ؟ آج بیٹا کیوں ماں باپ کو برا بھلا کہہ رہا ہے ؟ آج کی بیٹی کیوں ماں باپ کو رسوا کر رہی ہے ؟ اولاد جو دل کا سکون تھا اسی نے دل میں آگ لگا دی ہے ۔ آنکھوں کی ٹھنڈک تھی وہی اب زاروقطار رونے کا سبب ہے
محترم حضرت حکیم صاحب السلام علیکم!بچپن ‘نوجوانی‘ جوانی سے لے کر تاحال عبقری زیر مطالعہ ہے ۔ مجھے بچپن سے ہی مطالعے کا بہت شوق ہے‘ بچوں کے رسائل بہت شوق سے پڑھتی‘ رسائل کے علاوہ اخبار جہاں اور نوائے وقت میگزین بھی پڑھتی‘ اخبار بھی سرسری دیکھ لیتی مگر بچوں کا صفحہ شوق سے پڑھتی‘ ڈائجسٹ بھی پڑھے لیکن افسوس کی بات ہے کہ یہ مطالعہ بس معلومات میں اضافے‘ دل بہلانے اور وقت گزارنے کے لئے ہی کیا۔ اب کبھی کبھار یہ احساس شدت سے ہوتا ہے کہ جتنا علم حاصل کیا‘ پڑھا‘ مگر کسی ایک بات کو بھی اپنی شخصیت کا حصہ نہیں بنایا ۔ ڈگری ہاتھ میں ہے‘ پر افسوس عمل جہلا ء سے بھی بدتر‘ یہ صرف میرا ہی نہیں آج کل کی تعلیم یافتہ نوجوان نسل کی کثیر تعداد کے پاس بڑی بڑی ڈگریاں ہیں مگر ان کی شخصیت کا جائزہ لیا جائے تو ناپختگی نظر آتی ہے ۔ ادب اور آداب سے انجان ہیں ۔ اخلاق حسنہ سے ناواقف ہم جیسے پڑھے لکھے ’’ تعلیم یافتہ ‘‘ ’’ با شعور ‘‘ افراد کو دیکھ کر ان پڑھ شکر کا کلمہ ادا کرتے ہیں کہ ہم جیسے ’’پڑھے لکھوں ‘‘ سے ان پڑھ جاہل ہی اچھے ہیں یا ’’ پڑھے لکھے ‘‘ ’’ تعلیم یافتہ ‘‘ افراد کا طرز عمل زندگی گزارنے کے طور طریقے دیکھ کر حیرت سے دانتوں میں انگلیاں دبا لیتے ہیں آنکھیں مارے حیرت کے باہر ابل پڑتیں ہیں اور کچھ بھی کہنے کی سکت نہیں رکھتے ۔
پہلے وقتوں میں مادہ پرستی نہیں تھی‘ نہ نفس کی نہ شیطان کی پیروی‘ نہ حسد‘ نہ رقابت‘ نہ پیسے کی دوڑ سب مل جل کر رہتے ۔ اپنے دکھ سکھ آپس میں بانٹتے اس وقت خالص غذائیں عام ملتی تھی اور مناسب داموں خالص غذائیں کھا کر ان کے جذبے بھی ہوتے تھے‘ دیانتداری ‘ خلوص ‘ ایثار گٹھی میں ہوتا ‘ محنت و مشقت کر کے روکھی سوکھی کھا کر دل کی گہرائیوں سے مالک حقیقی کا شکر ادا کرتے‘ بزرگوں کا ایک رعب دبدبہ ہوتا لیکن بزرگ ہر گز اپنی ’’ بزرگی ‘‘ کا ناجائز فائدہ نہ اٹھاتے بلکہ ہر ممکن طریقے سے اپنے اہل و عیال کی جائز ضروریات کا خیال کرتے بلکہ ظاہری و باطنی تربیت و اصلاح کی بھی فکر کرتے مائیں گھریلو امور ‘ بزرگوں کا خیال کرنے اور بچوں کی پیدائش و پرورش‘ دیکھ بھال اور ان کی اچھی تربیت کرنے سے نہ گھبراتیں حالانکہ اس دور کی مائوں کی نسبت آج کل کی مائوں کو بے پناہ سہولیات دستیاب ہیں لیکن آج کل کی مائیں اپنی اولاد خصوصا ً نوجوان اولاد کی طرز زندگی ‘ رویئے ‘ اخلاق سے بہت دل برداشتہ ہیں ۔ آخر کیا وجہ ہے کہ اتنے مہنگے مہنگے سکول ‘ بھاری فیسیں ‘ داخلے ‘ اور سکول کالج یونیورسٹیوں کے اخراجات برداشت کرنے کے باوجود مہنگی مہنگی ٹیوشن پڑھانے کے باوجود مسجد ‘ مدرسہ بھیجنے کے باوجود آج کی نسل اقبال کے شاہین اخلاقی گراوٹ کا شکار ہیں آج کے تعلیم یافتہ تربیت یافتہ ماہر اساتذہ کرام طلبا ء کی تربیت میں ناکام کیوں ہے ؟ آج کل کے بچے ٹینشن ‘ ڈپریشن کا شکار کیوں ہیں ؟ آج کی نسل مایوسی نا امیدی کی دلدل میں کیوں دھنسی ہوئی ہے ؟؟ آج کی نوجوان نسل اپنی دینی اقدار کو اپنے لئے باعث شرم کیوں سمجھتی ہے ؟ ٹی وی ‘ کمپیوٹر ‘ موبائل ‘ انٹرنیٹ ‘ سگریٹ نوشی وغیرہ کی رسیا کیوں ہے ؟
آج کل ماں باپ کے دل آزردہ کیوں ہیں ؟ آج بیٹا کیوں ماں باپ کو برا بھلا کہہ رہا ہے ؟ آج کی بیٹی کیوں ماں باپ کو رسوا کر رہی ہے ؟ اولاد جو دل کا سکون تھا اسی نے دل میں آگ لگا دی ہے ۔ آنکھوں کی ٹھنڈک تھی وہی اب زاروقطار رونے کا سبب ہے ۔ جس اولاد کی خاطر ماں باپ اپنی جان قربان کرنے تیار رہتے ہیں وہی اولاد آج ماں باپ کے خون کی پیاسی ہے ادب ‘ احترام مٹ گیا کیا یہ وہی اولاد ہے جس کے لئے مشقتیں اٹھائیں ‘ دکھ تکلیفیں ہنس کر جھیلے ‘ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ماںباپ کے آنگن میں زہریلے ناگ ‘ ناگنیں ‘ بچھو پرورش پا رہے ہیں انہی کی کمائی کھا کر انہی کو ڈس رہے ہیں انسان اشرف المخلوقات ہے اور اپنے مقام سے گر جائے راستے سے بھٹک جائے تو بہت برا اچھائی پہ چلے تو رب جنت الفردوس میں پہنچا دے اور پوچھے ۔’بتا تیری رضا کیا ہے ‘
اور یہی انسان کفر و معصیت میں گرفتار ہو گناہوں کی دلدل میں دھنسے تو نہ صرف اپنے خالق و مالک سے دوری کا مستحق ٹھہرتا ہے بلکہ اس کی مخلوقات کی لعنت و پھٹکار برستی ہے ایسے شخص پر اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے فضل و کرم ‘ شان رحیمی کریمی کے صدقے معاف فرمائے ‘ اور شان ستاری کے صدقے ہمارے عیوب ڈھانپے ۔ دُنیا و آخرت کی ذلت و رسوائی سے بچائے ‘ نیک بنائے ‘ والدین سے حسن سلوک اور رشتہ داروں کا اکرام کرنے اور روحانی بیماریوں غصہ ‘ حسد ‘ کینہ ‘ نفرت ‘ شک ‘ بدگمانی ‘ جھوٹ ‘ فریب ‘ دھوکہ ‘ عیاری مکاری ‘ منافقت و ریاکاری ‘ غرور و تکبر ‘ ظلم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نجات دے آمین ثم آمین ۔آئیں ہم سب مل کر یہ سوچتے ہیں کہ آج کی نسل دین سے دور کیوں ہے ؟ اخلاقی گراوٹ کا شکار کیوں ہے ؟ آج کل کی نسل کو ہر طرح کی سہولیات آرام و سکون ‘ پیار و محبت ‘ تحفظ ‘ کھانے پینے ‘ پہننے ‘ اوڑھنے کے لئے من پسند ‘ مہنگی اشیا ء ‘ سازوسامان سب کچھ میسر ہے پھر بھی اولاد ماں باپ کی فرماں بردار نہیں ہے ۔ آخر کیوں ؟ کیا کمی ہے‘ آپ سے کیا کوتاہی ہوئی ؟ والدین سے کیا کوتاہی ہوئی ؟ کیوں آج کی نسل بدتمیز ہے ؟ زبان دراز ہے ؟ نافرمان ہے ؟ دین سے دور ہے ؟مائیں بھی سوچیں ‘ باپ بھی سوچیں ‘ ٹھنڈے دل سے سوچیں ‘ کہیں آپ نے بھی اپنے والدین کے ساتھ تو ایسا سلوک نہیں کیا ؟کہیں آپ کا رزق حرام ‘ ناجائز ‘ ظلم ‘ منافع خوری ‘ اور سود پر مبنی تو نہیں ؟کہیں آپ کا رزق مشکوک تو نہیں؟ جس کے حلال حرام ہونے میں شبہ ہو ؟کہیں آپ اپنے مالک حقیقی سے غافل تو نہیں ؟کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ کو نماز اور دیگر ارکان اسلام روزہ ‘ زکوٰۃ ‘ حج ‘ ذکر و تلاوت کی فرصت و رغبت نہ ہو ؟کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ اپنے روزگار ‘ گھریلو امور میں اس قدر مصروف ہوں کہ آپ کے پاس وقت ہی نہیں بچے کی تربیت اصلاح کے لئے ؟کہیں ایسا تو نہیں آپ کے گھرمیں ایل ای ڈی ‘ لیپ ٹاپ‘ انٹرنیٹ ‘ موبائل ‘ وغیرہ کا منفی استعمال ہو رہا ہے اور آپ خوش و مطمئن ہوں ؟
کیا آپ نے اپنے بچوں کو اچھے اخلاق سکھانے کی کوشش کی؟کیا آپ نے اپنے بچوں کو آج کے پرفتن دور سے بچانے اور نیک اعمال اپنانے اور خود بھی ان پر عمل کرنے کی کوشش کی سوچیے ایمانداری سے ؟
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں