Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔

رمضان! ٹائم گزارنے کیلئے گپیں ہانکنے والے متوجہ ہوں!

ماہنامہ عبقری - جون 2017

تمام تعریفیں اس ذات پاک کیلئے جس نے حسن و اعتدال کے ساتھ انسان کو تخلیق کیا اس کے دل کو ایمان کے نور سے بھر دیا اس کو زینت و جمال سے نکھارا اور اسے بیان کی قوت بخش کر اشرف المخلوقات بنایا۔ زبان بندے کے دل و عقل کی ترجمان ہے‘ جسے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء‘ نعمتوں کے شکرانے‘ علوم کے خزانے لٹانے اور امربالمعروف و نہی عن المنکر کے فریضہ کی ادائیگی کیلئے قوت گویائی عطا کی گئی ہے۔بے شک زبان اللہ رب العزت کی بہت بڑی نعمتوں میں سےا یک نعمت ہے‘ نیکی میں اس کا دامن وسیع ہے اور بدی میں اس کا دامن لمبا ہے۔ جو شخص اپنی زبان کو کھلی چھٹی دے دیتا ہے اس کی لگامیں ڈھیلی چھوڑ دیتا ہے شیطان اسے ہر جگہ لے جاتا ہے یہاں تک کہ ہلاکت میں ڈال دیتا ہے۔الحمدللہ! رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ ایک مرتبہ پھر ہماری گناہوں سے بھری زندگی میں آچکا ہے اور اپنی بھرپور رحمتیں‘ برکتیں‘ نعمتیں لٹارہا ہے اور مسلمان خوب پارہے ہیں۔ہمارے معاشرے میں ویسے تو سارا سال ہی خوب بدزبانی ہوتی ہے مگر عموماً دیکھا گیا ہے کہ رمضان المبارک میں بجائے ہماری زبان ذکراور نیک باتوں پر لگے الٹا ہم زیادہ فضول گفتگو کرنا شروع کردیتے ہیں اور ایسی محفلوں کو ’’ٹائم پاس‘‘ کہہ کر خوب غیبت‘ گالیاں‘ بے ہودہ مذاق کیا جاتاہے‘ آج یہ زبان کا فتنہ ہمیں پوری طرح اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ ایسے ماحول میں میں آپ کے سامنے چند احادیث پیش کرنا چاہتی ہوں۔ حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے روایت ہے کہ میں نے ایک دن نبی کریم ﷺ سے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ مجھے کوئی ایسا عمل بتادیجئے جس پر عمل کرکے میں جنت میں پہنچ جاؤں اور دوزخ سے دور کردیا جاؤں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: سنو سب سے مقدم بات یہ ہے کہ دین کے بنیادی مطالبوں کی فکر اہتمام سے ادا رکھا کرو‘ اللہ کی عبادت کرو‘ کسی کو اس کے ساتھ شریک نہ کرو‘ اچھے طریقے اور دل کی توجہ کے ساتھ نماز ادا کیا کرو‘ زکوٰۃ ادا کرو‘ رمضان کے روزے رکھا کرو‘ بیت اللہ کا حج کرو‘ پھر فرمایا: کیا میں تمہیں خیر کے دروازے بھی بتادوں (گویا اب تک جو فرمایا وہ اسلام کے ارکان و فرائض تھے خیر کےاور دروازے سے غالباً آپ کی مراد نفل عبادات تھیں) چنانچہ حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی طلب دیکھ کر آپ ﷺ نے فرمایا: روزہ (گناہوں اور دوزخ کی آگ سے بچانے والی)ڈھال ہے۔ صدقہ گناہ کو(گناہ سے پیدا ہونے والی آگ کو) بجھا دیتا ہے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: کیا میں تمہیں معاملے کا (یعنی دین کا) سر اور اس کا عمود (یعنی ستون) اور اس کی بلند چوٹی بتادوں؟‘‘ حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی طلب دیکھ کر آپ ﷺ نے مزید فرمایا: دین کا سریا سرا اسلام ہے اور اس کا ستون نماز ہے اور اس کی بلند چوٹی جہاد ہے‘ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: کیا میں تمہیں وہ چیز بھی بتادوں جس پر گویا ان سب کا دارومدار ہے‘ حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے عرض کیا وہ چیز بھی ضرور بتائیے۔ پس آپ ﷺ نے اپنی زبان مبارک پکڑی اور فرمایا: ’’اس کو روکو‘‘ (یعنی اپنی زبان کو روکو یہ چلنے میں بے احتیاط اور بےقابو نہ ہو) حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: حضور ﷺ کیا ہم جو آپس میں باتیں کرتے ہیں ان پر بھی ہم سے مواخذہ ہوگا؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ آدمیوں کو دوزخ میں (زیادہ تر) ان کی زبانوں کی بیباکانہ باتیں ہی ڈلوائیں گی۔حدیث مبارکہ کے آخری جز سے پتہ چلتا ہے کہ تمام ارکان اسلام نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور جہاد کے علاوہ نفلی عبادات نماز، تہجد، روزہ، صدقہ وغیرہ جیسی عبادات کی نورانیت اور اللہ کی بارگاہ میں ان کا حسن و قبول زبان کی احتیاط پر ہی موقوف ہے۔ یعنی زبان کی بے احتیاطی ان تمام اعمال حسنہ کو بے وزن اور بے نور کردیتی ہے۔
ہمیں جان لینا چاہیے کہ زبان کا خطرہ بہت بڑا ہے‘ اس خطرے سے نجات صرف خاموشی میں ہی ہے۔ یہی وجہ ہے شریعت نے خاموشی کی تعریف کی اور اس کی ترغیب دی ہے۔ مفہوم ہے حضور نبی کریم ﷺ تاکید فرماتے تھے کہ زبان کو قابو میں رکھا جائے ہر قسم کی بری باتوں سے بلکہ بے ضرورت‘ بے فائدہ باتیں کرنے سے بھی زبان کو روکا جائے اور جب بات کرنے کی خاص ضرورت نہ ہو اور بات سے کسی خیر اور نفع کی امید نہ ہو تو خاموش ہی رہا جائے۔ یہ تعلیم رسول خدا ﷺ کی اہم تعلیمات میں سے ہے جس پر آپ ﷺ نے نجات کا دارومدار بتایا ہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جو خاموش رہا اس نے نجات پالی‘‘۔
ہر دیکھنے والا بچشم خود دیکھ سکتا ہے کہ آج کل بڑے بڑے گناہ جو وبا کی طرح عام ہیں وہ جس سے بچنے والے بہت ہی کم ہیں‘ ان کا تعلق زیادہ تر زبان سے ہی ہے۔ دنیا میں بھی جھگڑے، فسادات زیادہ تر زبان کی بے احتیاطی اور بے باکی ہی کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ زبان کی آفات بہت زیادہ ہیں۔ ان میں وہ بھی چیزیں شامل ہیں جنہیں ہم ہلکا سمجھ کر اختیار کرلیتے ہیں اور وہ بھی جنہیں گناہ کبیرہ سمجھتے ہوئے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثلاً بے مقصد گفتگو‘ فضول کلام‘ جھگڑا فساد‘ طعن تشنیع‘ باطل گفتگو‘ فحش کلامی‘ گالی گلوچ‘ لعنت بھیجنا‘ مذاق اڑانا‘ تحقیر کرنا‘ راز افشاء کرنا‘ جھوٹا وعدہ‘ جھوٹ بولنا‘ منہ پر تعریف کرنا‘ دو رخی اختیار کرنا‘ یعنی منافقت۔ غیبت‘ چغلی‘ ریاکاری اور لوگوں کے رازکھولنا۔ ان سب گناہوں کا تعلق زبان سے ہے اور یہ زبان پر بھاری بھی ہیں۔ ان کا باعث طبعی بھی ہے اور شیطانی بھی اور جو بھی آدمی بہت باتونی ہو وہ بہت کم اپنی زبان کو روک سکتا ہے۔ الا یہ کہ وہ اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ کے احکامات اور رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات سے باخبر اور وہی بات منہ سے نکالے جو اللہ کو پسند ہو اور اس بات سے رک جائے جس میں اللہ کی ناراضگی کا خطرہ ہو۔ خاموشی کو سلامتی اور بولنے کو خطرہ قرار دے۔ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ارشادفرمایا: میں تمہیں ایسی دو فضیلتیں بتادوں جو پیٹھ پر بہت ہلکی ہیں (یعنی ان کو اختیار کرنے سے آدمی پر کچھ زیادہ بوجھ نہیں پڑتا) مگر اللہ کے میزان میں بہت بھاری ہوں گی۔ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے اصرار پر نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: زیادہ خاموش رہنے کی عادت اور حسن اخلاق۔ قسم اس ذات پاک کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے مخلوقات کے اعمال میں یہ دونوں چیزیں بے مثل ہیں۔
نبی کریم ﷺ کو اس دنیا میں بولنے کی ضرورت تھی کیونکہ آپ ﷺ کو قیامت تک آنے والے انسانوں کو ہدایات دینا تھیں۔ آپ ﷺ ضرورت پر بولنے میں کوئی کمی نہیں فرماتے تھے‘ بتانے کی ہر چھوٹی بڑی بات بتاتے‘ لیکن اس کے باوجود آپ ﷺ کو دیکھنے والے صحابہ اکرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپ ﷺ کا یہ حال بیان فرمایا ہے کہ آپ ﷺ بہت زیادہ خاموش رہتے تھے۔ آپ ﷺ صرف وہی بات فرماتے تھے جس پر آپ ﷺ کو ثواب کی امید ہوتی تھی۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: مومن کی زبان دل کے پیچھے ہوتی ہے جب وہ کوئی بات کرنا چاہتا ہے تو دل سے غورو فکر کرتا ہے پھر اسے زبان پر جاری کرتا ہے اور منافق کی زبان اس کے دل کے آگے ہوتی ہے جب وہ کسی بات کا فیصلہ کرتا ہے اسے زبان پر لے آتا ہے دل سے سوچتا نہیں ہے۔لیکن ایک بات کی وضاحت ہونی چاہیے کہ خاموشی کی جو فضیلت ہے وہ بُری باتیں کرنے کے مقابلے میں ہے ورنہ اچھی باتیں کرنا 

خاموش رہنے سے افضل ہے۔ عقلمند وہی ہے جو زبان جیسے درندے کو قید کرکے رکھے‘ اگر کھلا رہ جائے تو اسی کو کھالے گا‘ زبان سے زیادہ کوئی چیز اس کڑی قید کی محتاج نہیں۔ زبان کے ذریعے جہنم میں گرنے سے بچنے کی یہی ایک راہ ہے کہ دوسروں کے بارے میں اپنی زبان بند رکھی جائے اگر کہیں غیبت ہورہی ہے تو فوراً اٹھنے یا روکنے پر قادر نہ ہو تو استغفار شروع کردینا ہی واحد طریقہ کار ہے۔ اس کے علاوہ نجات کا کوئی راستہ نہیں۔ پیارے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ ’’اچھی بات کہے یا خاموشی اختیار کرے‘‘

Ubqari Magazine Rated 5 / 5 based on 818 reviews.