Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔ --

دولت‘ شہرت‘ اقتدار سب کچھ مگر سکون کدھر گیا؟

ماہنامہ عبقری - مارچ2017ء

دن کے تین وقت کے کھانوں میں ان میں سے ایک دو چیزیں لازماً شامل ہونی چاہئیں۔ اس کے علاوہ دودھ، دہی، پنیر اور شہد بھی استعمال کرناچاہیے۔ دباؤ اور بے چینی کے مریضوں کو کافی، سافٹ ڈرنکس‘ سگریٹ اور دیگر نشہ آور چیزوں سے دور رہنا چاہیے۔

چارلس ڈیوک Charles Mass Duke Jr. امریکی خلاباز Astronaut ہیں۔ وہ 1935ء میں امریکہ North Carolinaمیں پیدا ہوئے۔ انہوں نے سپیس سائنس میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی‘ وہ 1966ء میں ناسا کے پانچویں خلاباز گروپ کے لئے منتخب کئے گئے۔ انہوں نے خلامیں کی پروازیں کیں‘ 1972ء میں انہوں نے اپالو کے ذریعے چاند کا سفر کیا‘ 16 اپریل 1972ء میں وہ چاند کی سطح پر اترے۔ 21 فروری 2008ء کی شام کو ہماری ٹیم کے دو ممبر (رجت ملہوترا‘ سعدیہ خان) ڈاکٹر چارلس ڈیوک سے نئی دہلی کے اشوکا ہوٹل میں انٹرویو کیلئے ملے۔  ملاقات کے وقت انہوں نے اپنے دستخط کے ساتھ اپنی ایک تصویر دی۔ اس تصویر میں وہ خلائی سوٹ میں چاند کی سطح پر کھڑے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ہماری ٹیم کے مذکورہ دونوں ممبروں نے امریکی خلاباز ڈاکٹر چارلس ڈیوک کا ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ اس انٹرویو کا موضوع سپریچولسٹی تھا۔ انٹرویو کے دوران ان سے ایک سوال یہ کیا گیا کہ آپ اپنی زندگی سے مطمئن ہیں اور آپ کو پرمسرت زندگی حاصل ہے۔ اس کے جواب میں انہوں نے اپنے حالات بتاتے ہوئے کہاکہ ابتدائی طور پر میری زندگی میں سکون نہ تھا میں نے یہ سمجھا کہ چاند مجھ کو سکون دے گا۔ میں نے یہ سمجھا کہ خلابازی کی زندگی مجھے سکون دے گی‘ میں خلاباز بن گیا مگر خلا بازی کی زندگی نے مجھ کو سکون نہیں دیا۔ پھر میں نے سوچا کہ میں اپنا کیرئیر بدل دو‘ میں نے ناسا میں ایسٹروناٹ کی جاب چھوڑ دیا اور بزنس شروع کردیا۔ میں نے کافی دولت کمائی مگر اب بھی میری زندگی کو سکون نہ تھا۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ اب بھی میری زندگی میں کوئی چیز مفقود ہے۔یہ معاملہ صرف ڈاکٹر چارلس ڈیوک کا نہیں یہی موجودہ زمانے میں تمام لوگوں کا معاملہ ہے۔ موجودہ زمانے میں دولت اور شہرت اور اقتدار حاصل کرنے کے مواقع بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں‘ لوگ نہایت تیزی کے ساتھ ان چیزوں کو حاصل کرنے کیلئے دوڑ رہے ہیں‘ بہت سے لوگ ان چیزوں کو پانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو سپراچیورس کہا جاتا ہے لیکن تجربہ یہ بتاتا ہے کہ تمام سپراچیور کا کیس سپر ناکامی کا کیس تھا۔ سب کچھ پانے کے باوجود ان لوگوں کو داخلی مسرت حاصل نہیں ہوئی‘  آخر کار وہ مایوسی کا احساس لے کر مرگئے۔ کہاجاتا ہے کہ موجودہ زمانہ بڑی بڑی کامیابیاں حاصل کرنے کا زمانہ ہے۔ اس صورتحال نے موجودہ زمانے میں ایک نئی اصطلاح پیدا کی ہے جس کو اعلیٰ کامیابی حاصل کرنے والے کہا جاتا ہے مگر تجربہ بتاتا ہے کہ ہر بڑی کامیابی آخر میں صرف بڑی ناکامی بن گئی‘ اس قسم کے نئے قسم کے سنگین مسائل میں مبتلا ہوگئے‘ مثلاً مہلک بیماریاں وغیرہ۔ انہیں نئے مسائل میں سے ایک ٹینشن یا اسٹریس ہے‘ لوگوں کے پاس دولت اور شہرت اور اقتدار سب کچھ موجود ہے لیکن ان ظاہری کامیابیوں کے باوجود لوگ مسلسل طور پرٹینشن اور اسٹریس میں مبتلا رہتے ہیں۔ زیادہ دولت صرف بیماری کا سبب بن رہی ہے کہا جاتا ہے کہ موجودہ زمانے میں سب سے زیادہ ریسرچ میڈیکل سائنس میں ہورہی ہے تاکہ نئی نئی بیماریوں کا علاج دریافت کیا جاسکے۔ اس صورتحال کے نتیجے میں ایک نیا بزنس شروع ہوگیا ہے جس کو ڈی اسٹریسنگ کہا جاتا ہے۔ ان اداروں میں بڑے بڑے مہرین لوگوں کو سٹریس سے نجات دینے کیلئے سرگرم ہیں لیکن واقعات بتاتے ہیں کہ لوگوں کا ٹینشن اور اسٹریس بدستور بڑھتا جارہا ہے‘ کہاجاتا ہے کہ موجودہ زمانے کا سب سے بڑا خطرہ تیسری عالمی جنگ کا خطرہ نہیں ہے بلکہ ٹینشن اور اسٹریس کا خطرہ ہے۔ یہ صورتحال کو قرآن کریم کی ایک آیت کی یاددلاتی ہے‘ وہ آیت یہ ہے: 

اسی بات کو پیغمبر اسلام ﷺ نے ان الفاظ میں فرمایا 

(صحیح البخاری‘ کتاب الرقاق) کا مطلب یہ ہے کہ خدائے برتر ہی کو اپنا سپریم کنسرن بنانے سے انسان کو سکون حاصل ہوتا ہے اور اپنی پسندکی زندگی انسان چاہتا ہے وہ صرف موت سے پہلے کے دور حیات میں کسی انسان کو ملے گی۔ موت سے پہلے کے دور حیات میں کسی کو اپنی پسند کی زندگی ملنے والی نہیں۔ اس معاملے کا براہ راست تعلق خالق کے کریشن پلان سے ہے۔ خالق نے موجودہ دنیا کو امتحان گاہ کے طور پر بنایا ہے۔ موجودہ دنیا کسی کیلئے بھی اپنی آرزوئوں کی تکمیل کی جگہ نہیں بن سکتی۔ موجود دنیا ہر عورت اور مرد کیلئے سفر کا مرحلہ ہے اور بعد کو آنے والی آخرت کی دنیا اس کی ابدی منزل ہے۔ آپ بس یا ٹرین یا ہوائی جہاز میں سفر کررہے ہوں اور اس کے اندر آپ گھر والی سہولتیں حاصل کرنا چاہئیں تو آپ اس کو حاصل نہ کرسکیں گےکیونکہ سواری صرف سواری ہے اس طرح موجودہ دنیا میں خواہشوں کی تکمیل fulfilment کسی کیلئے بھی ممکن نہیں‘ جو آدمی اپنی خواہشوں کی تکمیل چاہتا ہے اس کو آخرت کیلئے کام کرنا چاہئے۔ یہی وہ حقیقت ہے جو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کی گئی:

ذہنی دباؤ کے علاج کیلئے مریض کے طرزندگی اور معمولاتِ زندگی کو مکمل طور پر تبدیل کرنا پڑتا ہے۔ اسے ایسی خوراک استعمال کرنی چاہیے جو دباؤ کے غذائی مطالبات کو پورا کرسکتے ہیں۔ تجربات اور امر کے شواہد ہیں کہ جس غذا میں بیج خشک میوؤں کی گریاں‘ اناج‘ پھل اور سبزیاں شامل ہوں وہ خوراک کی ضرورت پوری کرنے کے ساتھ ساتھ جسمانی قوت بڑھانے میں بھی خاصے مددگار ہوتےہیں۔ لہٰذا ماہرین خوراک تجویز کرتے ہیں کہ دن کے تین وقت کے کھانوں میں ان میں سے ایک دو چیزیں لازماً شامل ہونی چاہئیں۔ اس کے علاوہ دودھ، دہی، پنیر اور شہد بھی استعمال کرناچاہیے۔ دباؤ اور بے چینی کے مریضوں کو کافی، سافٹ ڈرنکس‘ سگریٹ اور دیگر نشہ آور چیزوں سے دور رہنا چاہیے۔ معمولاتِ زندگی میں تبدیلی لاکر باقاعدہ ورزش کرنی چاہیے یاد رکھیںکہ ورزش سے ذہن ہشاش بشاش رہتا ہے۔ ذہنی اور جذباتی دباؤ کے مریضوں کو سیرو تفریح اور آرام کیلئے مناسب پروگرام ترتیب دینا چاہیے۔ انہیں ہفتے میں ایک یا دو دن مکمل آرام کرنے کے علاوہ خوش و خرم رہنے کے اسباب بھی پیدا کرتے رہنا چاہیے۔ اگر ہم اپنے معمولاتِ زندگی میں تھوڑی سی تبدیلیاں لے آئیں اور پریشانیوں و الجھنوں پر ضرورت کی حد تک ہی توجہ دیں تو نہ صرف ہم ذہنی و اعصابی دباؤ سےبچ سکتے ہیں بلکہ صحت مند اور خوش و خرم زندگی بھی بسر کی جاسکتی ہے۔

Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 533 reviews.