Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔

اے ماؤں سنبھلو!کیوں بچوں کوشوگرکامریض بنارہی ہو؟

ماہنامہ عبقری - مارچ2017ء

مائیںچمچ بھر بھر کر چینی (شوگر) کے فیڈر میں ڈالتی ہیں حالانکہ فالتو چینی (شوگر) کی بالکل ضرورت نہیں ہے جو چینی ڈالتی ہے وہ فالتو کیلوریز ہوتی ہیں جو بچہ جلا نہیں پاتا۔ اگر بچہ دن میں چھ بار فیڈر لیتا ہے تو چھ سے بارہ چمچ چینی اضافی لیتا ہے۔

مائیںچمچ بھر بھر کر چینی (شوگر) کے فیڈر میں ڈالتی ہیں حالانکہ فالتو چینی (شوگر) کی بالکل ضرورت نہیں ہے جو چینی ڈالتی ہے وہ فالتو کیلوریز ہوتی ہیں جو بچہ جلا نہیں پاتا۔ اگر بچہ دن میں چھ بار فیڈر لیتا ہے تو چھ سے بارہ چمچ چینی اضافی لیتا ہے۔

آج کل پاکستان میں شوگر کے مریضوں کی تعداد میں بے انتہا اضافہ ہورہا ہے‘ نوزائیدہ نونہال نوجوان جوان بوڑھے سب اس کی گرفت میں ہیں۔ پاکستان میں اس کی شرح دوسرے ممالک کی نسبت بہت زیادہ ہے‘ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ اس میں سراسر قصور والدین کا ہے۔ جو نادانی‘ناواقفیت اپنی جسمانی فٹنس اور بچوں کی وقتی خوشی کیلئے اپنے بچوں کو شوگر (میٹھا‘ چینی وغیرہ)کھلا کھلا کر مرض شوگر میں مبتلا کررہے ہیں۔ پیدائش کے بعد بچے کا دماغ اور جسمانی ساخت نازک اور کمزور ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے بیٹے کو ماں اڑھائی سال اور بیٹی کو دو سال اپنا یا کسی دوسری عورت کا ہی پلائیں۔ وجہ یہ ہے انسانی دودھ انسان کی ضروریات کیلئے ہے اور حیوانی دودھ ان کے بچوں کیلئے ہے۔ انسانی بچہ کے لیے اس کی ماں کا دودھ ہی لطیف غذا ہے جو دنیا کی کوئی بھی لیبارٹری تیار نہیں کرسکتی ہے اس کے ساتھ ساتھ ماں کے دودھ سے بچے کو انسانی خواص عادات‘ اعمال‘ انسانی جبلت منتقل ہوتے ہیں۔ اس کی جگہ اگر حیوانی دودھ ملتا ہے تو اس میں بکری‘ بھینس‘ گائیں کی عادات ہوں گی۔ اس عرصہ میں اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ماں کے دودھ سے بہتر کوئی دودھ نہیں۔ ماں کے دودھ میں قدرتی شوگر (مٹھاس) ہوتی ہے۔ جو بچہ کی ضروریات کے مطابق ہے۔بھینس، گائے‘ بکری کے دودھ میں ہی تناسب ہوتا ہے‘ ڈبے کے دودھ جو گائیں یا بھینس کا ہی ہوتا ہے ۔ اُس فیکٹری میں شوگر (مٹھاس) اضافی شامل ہوتی ہے۔ لیکن مائیں چمچ بھر بھر کر چینی (شوگر) کے فیڈر میں ڈالتی ہیں حالانکہ فالتو چینی (شوگر) کی بالکل ضرورت نہیں ہے جو چینی ڈلتی ہے وہ فالتو کیلوریز ہوتی ہیں جو بچہ جلا نہیں پاتا۔ اگر بچہ دن میں چھ بار فیڈر لیتا ہے تو چھ سے بارہ چمچ چینی اضافی لیتا ہے۔ شوگر (چینی) جسم میں کیڑے اور بیماریاں پیدا کرتا ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ اکثر بچوں کو جبونے تنگ کرنے پر مائیں وقتی طور پر میٹھا بند کردیتی ہیں اور رسوت وغیرہ بچوں کے مقعد پر لگاتی ہیں‘ فالتو چینی کا اثر بچوں کی آئندہ عمر پر پڑتا ہے جسمانی کمزوری ہوجاتی ہے‘ بچہ بچہ طرح طرح کے جسمانی امراض کا شکار ہورہا ہے‘ لیکن لوگوں کی زبان پر لفظ ہوتے ہیں کہ پہلے دور کی خوراک خالص ہوتی تھی اس لیے اب تک بوڑھوں میں طاقت ہے ہم نے ناخالص اور کیمیکل والی خوراک کھائی ہے ہم میں وہ طاقت کہاں؟ جب ماں چینی کی عادت ڈالتی ہے کہ بچہ آہستہ آہستہ گولیاں‘ ٹافیاں‘ کولڈڈرنکس یعنی شوگر کا عادی ہوجاتا ہے جو نشے کی طرح کام کرتی ہے۔ بچہ خودسر‘ ضدی‘ بدتمیز‘ بدلحاظ ہوجاتا ہے۔ اس لیے بچہ وقفہ وقفہ سے ماں کو تنگ کرتا ہے۔ ماں جان چھڑانے کیلئے بچے کو پیسے دیتی ہے جا بیٹا لے آ۔ بچہ اپنی جگہ خوش ماں اپنی جگہ خوش‘ دونوں کا کام وقتی طور پر آسان ہوگیا۔ بوتل‘ رنگ برنگ کی گولیاں‘ کھٹے میٹھے چورن وغیرہ یہ سب کیمیکل ٹاٹری‘ تیزاب‘ کلر‘ استعمال ہوتے ہیں‘ کھانےوالے کلر مہنگے ہوتے ہیں ان کی جگہ نہایت سستے کلر جو کپڑے رنگنے کیلئے ہوتے ہیں استعمال ہوتے ہیں۔ پھر نہایت گندے ماحول میں تیار ہوتی ہیں۔ یہی دکھ کی بات ہے جو والدین اپنی اولاد کے خیر خواہ ہیں وہ ہی لاشعور طور پر خود انہی سے سرزرد ہورہا ہے براہ کرم اپنی اولاد پرترس کھائیں آئندہ نسلوں کو شوگر کے نشہ سے بچائیں۔ فیڈر والے دودھ میں اضافی چینی استعمال نہ کریں۔ بچے کو جیسا چسکا لگائیں گی وہ اسی کا عادی ہوجائے گا۔ اگر انسان شوگر کے مرض مبتلا ہوتا ہے تو ہر چیز سے پرہیز شروع ہوجاتا ہے۔ یعنی شوگر کے بغیر انسان زندہ رہ سکتا ہے تو یہ پرہیز پہلے ہی دن سے شروع کریں۔80 فیصد ڈبہ کے جوس میں صرف کیمیکل ہوتا ہے اس میں چینی کلر اور ذائقہ ہوتا ہے۔ پھولوں کا جوس بالکل نہیں ہوتا اگر ہو بھی اس میں بھی محفوظ کرنے کیلئے طرح طرح کے کیمیکل اور اضافی شوگر ملائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ کھانوں میں ذائقہ کیلئے گھر گھر بریانی مصالحہ‘ چاٹ مصالحہ‘ مچھلی مصالحہ‘ قورمہ مصالحہ‘ وغیرہ کا عام استعمال ہے‘ یہ صرف کیمیکل ہے۔آج سے تیس سال پہلے مائیں موسم بہار میں رسوت‘ چاکسو‘ چرائتہ‘ نیم کی نمولیاں کھلاتی تھیں تاکہ بچے کا خون صاف ہو‘ بچہ گرمی سردی کے اثرات سے بچتا تھا۔ کئی امراض شروع میں نہیں ہوتے؟ کیا یہ مائیں ظالم تھیں؟ کیا آپ اپنے بچوں کی حفاظت کریں گی یا ان کو نشہ کا عادی بنائیں گی۔ (سید خالد حسین‘ لاہور)
بچوں کے لنچ بکس کو صحت بخش بنائیے
بچے جب سکول جاتے ہیں تو زیادہ ترمائیں ایک ڈبے میں کھانے پینے کی کچھ چیزیں رکھ کر ان کے ساتھ کردیتی ہیں اور یہ لنچ باکس بچے کو تھماتے ہوئے اکثر تاکید کرتی ہیں: ’’دیکھو بیٹا سب چیزیں کھالینا‘ چھوڑنا نہیں۔ خوب کھاؤ گے تو طاقت آئے گی‘ صحت اچھی رہے گی‘‘ آئیے! دیکھتے ہیں کہ بچے کی صحت واقعی اچھی رکھنے کیلئے اس کے لنچ باکس میں کیا کیا ہونا چاہیے۔ غذائی ماہرین کی رائے ہے کہ لنچ باکس میں رکھے گئے کھانے میں ایک تہائی حصہ روٹی، ڈبل روٹی یا نشاستے دار چیزوں کا ہونا چاہیے کیونکہ نشاستے سے بچوں کے دماغ اور جسم دونوں کو توانائی حاصل ہوتی ہے۔ چوکر والی روٹی یا ڈبل روٹی فولاد اور حیاتین ب (وٹامن بی) سے بھرپور ہوتی ہے اور یہ پانچ سال سے زیادہ عمر کے بچوں کیلئے بہت مفید ہے۔ اس سے کم عمر کےبچوں کو ریشے کی اتنی ضرورت نہیں ہوتی لہٰذا ان کیلئے بغیر چوکر والی یا سفید روٹی اورڈبل روٹی مناسب ہے۔ بڑوں کی طرح بچوں کو بھی دن میں کم از کم پانچ بار پھل اور سبزیاں کھانی چاہئیں‘ لہٰذا ان کے لنچ باکس میں کم از کم ایک یا دو پھل مناسب مقدار میں ضرور رکھیں۔ یہ مناسب مقدار ظاہر ہے کہ اس مقدار سے کچھ کم ہی ہوگی جو بڑوں کیلئے تجویز کی جاتی ہے۔ جومائیں اپنے بچوں کو سکول کیلئے سینڈوچ دیتی ہیں انہیں یہ خیال رکھنا چاہیے کہ سینڈوچ کے اندر کیا رکھیں۔ اس سلسلے میں ایسی اشیاء کو اہمیت دیں جن میں پروٹین ہو‘ کیونکہ پروٹین سے نہ صرف صحت مند عضلات اور بافتیں بنتی ہیں بلکہ سہ پہر میں ان کی وجہ سے توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت بھی درست رہتی ہے۔ بچوں کیلئے عموماً پچاس گرام کسی بھی قسم کا گوشت یا ماچس کی ڈبیا کے برابر پنیر کا ٹکڑا مناسب ہے۔ جو بچے گوشت نہیں کھاتے ان کیلئے تین بڑے چمچ بنا ہوا لوبیا دال یا ایک بڑا چمچ خشک میوے کا یا پھر ایک انڈا مناسب ہوگا۔ یہ ایک اندازہ ہے لیکن دراصل مقدار کا انحصار بچے کی بھوک پر بھی ہے۔ گوشت میں چربی جتنی کم ہو اتنا ہی اچھا ہے۔ بچے کے لنچ باکس میں مچھلی شامل رکھنے کی زیادہ کوشش کیجئے۔ بچوں کو دن میں دو تین بار دودھ یا دودھ سے بنی اشیاء بھی دی جائیں۔ اس سے جسمانی ڈھانچہ مضبوط ہوگا۔ آلو کے چپس‘ چاکلیٹ اور بسکٹ جیسی مزےدار چیزوں کی ایک حد تو ٹھیک ہے لیکن انہیں بچے کی روزانہ کی غذا کا حصہ نہ بنائیے۔ دوسری بات یہ کہ ایسی چیزیں ہروقت بچوں کی پہنچ میں نہ رکھیے۔ بچوں کو گردوں، جلد، آنکھوں اور معدے کی صحت کیلئے انہیں روزانہ چھ سے آٹھ گلاس پانی ضرور پلائیے۔ ان کے لنچ باکس کے ساتھ دو سو سے ڈھائی سوملی لیٹر پانی کی بوتل رکھیے۔ بچوںکے دانتوں کیلئے سادہ دودھ اور پانی بہترین ہیں لیکن ملک شیک بھی خوب ہے اور اس سے کیلشیم بہت زیادہ حاصل ہوتا ہے البتہ لنچ باکس میں سوفٹ کولڈ ڈرنک (ٹھنڈی بوتل) ہرگز نہ رکھیے۔ (ماریہ شاکر‘ راولپنڈی)
(پارڈ ڈہٹا فروری فولڈر)(

Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 531 reviews.