وسط ستمبر سے برف کا استعمال بہت کم کردینا چاہیے۔ رات دس بجے کے بعد چھت یا صحن میں سونے کی بجائے کمرے یا برآمدے میں سوئیں۔ رات کے پچھلے پہر پنکھوں‘ ایئرکولروں اور اے سی کا استعمال بند کردینا چاہیے۔ ٹھنڈے پھل‘ ٹھنڈی سبزیاں خاص کر رات کو نہیں کھانی چاہئیں۔
ستمبر کا مہینہ اپنے موسمی اثرات کے اعتبار سے ماہ اگست کا توام قرار دیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ اس مہینے میں بھی قریب قریب انہی طبی ہدایات اور حفظان صحت کی تدابیر کو ملحوظ رکھنے کی ضرورت ہے جن کو اگست میں رکھا جاتاہے۔واضح رہے کہ ستمبر کا مہینہ (بالخصوص اس کا نصف اول) بھی اپنے موسمیاتی اعتبارات کے لحاظ سے موسم برسات کا اختتامی دور تصور ہوتا ہے جس کا آغاز اول جولائی میں ہوتا ہے۔ اس مہینے کی ہواؤں میں بھی وہی تاثیر و کیفیت پنہاں ہوتی ہے جو جولائی اور اگست کی برساتی فضاؤں کا خاصہ ہے۔ البتہ اس مہینے میں یہ کیفیت اپنے ر د عمل کے اعتبار سے کسی قدر بتدریج انحطاط پذیر ہونے لگتی ہے۔ دھوپ نکلنے اور گاہے بگاہے مطلع ابر آلود ہونے(ہر دو صورتو ں میں) واضح طور پر دو رنگے بہروپ کاآئینہ دار ہے۔ یعنی دن اتنا گرم گویا ابھی موسم گرما کا شبابی دم خم برقرار ہے اور راتیں ایسی خنکی لیے ہوئے جیسے موسم سرما حملہ آور ہونے کیلئے سروں کے عین اوپر پرتول رہا ہے۔ چند ضروری احتیاطیں (1) اس مہینے رات کو سوتے وقت (خواہ کمرہ میں پنکھا ہی کیوں نہ ہو) دروازہ بند نہ کریں۔ کیونکہ اس مہینے کی ہوا میں حبس کی بھی کیفیت ہوتی ہے جس سے بعض عوارض کے پیدا ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ (2 ) زیادہ ترش اشیاءکے استعمال سے پرہیز کریں کیونکہ ان سے نزلہ‘ زکام‘ بخار اور دیگر امراض سینہ کے رونما ہونے کا قطعی احتمال ہے۔(3) اس مہینے میں نزلہ کے بگاڑ کی ابتداءہو جایا کرتی ہے۔ اس لیے نزلہ ہونے کی صورت میں فوراً اس کی اصلاح کی کوشش کریں۔ ماہ ستمبر کے ممتاز پھل انار جنت الفردوس کے پھلوں میں سے ایک پھل ہے۔ روایت ہے کہ ہر انار میں ایک دانہ ایسا لازمی رکھا گیا ہے جو جنت الفردوس کے پھلوں سے تھا۔ یہ بھی روایت ہے کہ یہ دانہ اکثر گر جاتا ہے۔ ضائع ہو جاتا ہے۔ ایسی جگہ پر جا گرتا ہے جہاں سے اٹھانے کو جی نہیں چاہتا‘ ہاں یہ دانہ انہی لوگوں کو نصیب ہوا جنہوں نے ہر پہلو اس کی حفاظت کی ہو گی۔ انار جواہرات کی طرح کئی رنگوں میں دستیاب ہے۔ مثال کے طور پر زمرد، یاقوت، سرخ ،سفید گوہر ناسفتہ کی طرح چمک لیے ہوئے۔ لیموئے شیریں المعروف میٹھا پھل، اس موسم کا میوہ ہے۔ ایسے فروخت ہوتا ہے جیسے بازاروں میں آم اور خربوزہ۔ میٹھا پھل بخار کی روک تھام میں بہت کارآمد ہے۔ اس کے بیج بخار توڑ ادویات کے مرکبات میں استعمال ہوتے ہیں۔ اس کے چھلکوں سے سقراط نمک اخذکیا کرتاتھا جو بخاروں کا تریاق تھا۔ افسوس آج کا طبیب اپنے اجداد کے مسیحائی کر شما ت والے فارمولوں کو یکسر بھول گیا ہے اور مغرب کی تقلید میں آگے چل رہا ہے۔میٹھا پھل یرقان کا شافی مداوا ہے۔ جگر اور مثانہ کی حدت کو توڑنے میں اس کا خصوصی ذکر ملا ہے۔ حاملہ عورت جو کم از کم تین ماہ کی صاحب ثمر ہو۔ ایک میٹھا نہار منہ استعمال کی عادی ہو جائے اور اس وقت تک استعمال جاری و ساری رکھے جب تک یہ پھل دستیاب ہوتا رہے تو حکیم مطلق کی حکمت بالغہ کا بچشم ملاحظہ فرمائے۔ جب بچہ یا بچی تولید ہو گی تو اس کی آنکھیں ہلکی نیلی اور سر کے بال نیم سنہری ہوں گے۔ نیز اس کے نقش ،نقاش یکتا کا نمونہ ہوں گے۔ آزمائش شرط ہے۔ بہی سفرجل یا بہی ، سیب کی شکل کا پھل ہے اور عام طور پر اسی مو سم یعنی ستمبر ، اکتوبر کے دوران ملتا ہے ۔ اس کے تمام اجزاءبطور دوا یا دواؤں کے اجزاءکے طور پر استعمال ہوتے ہیں ۔ پہا ڑی علاقوں کا یہ پھل پاکستان میں مری ، سوات، مر دان اور آزاد کشمیر میں پا یاجا تا ہے ۔ حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا ”اگر کوئی نہا ر منہ بہی دانہ کھائے تو اس کا ذہن پا ک اور اس کے علم اورقوت بر داشت میں اضا فہ ہو جاتا ہے۔ شیطان اور اس کے چیلوں کے فکر سے محفو ظ رہتا ہے ۔ ٭بہی دانہ کھائیں اور ایک دو سرے کو تحفہ میں دیں ۔ کیونکہ یہ بینائی تیز کرتا ہے اور دلو ں میں محبت پیدا کر تاہے ۔ “ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:بہی دانہ کا استعمال دل کی کمزوری کے لیے بہت مفید ہے ۔ یہ معدے کو صاف، ذہن کو وسعت اور ڈر پوک آدمی کو شجا عت دیتا ہے ۔
بدلتے موسم کی غذائیں:اس بدلتے ہوئے موسم میں صبح ناشتے میں ڈبل روٹی‘ انڈا‘ دلیہ‘ چنے‘ چنے کا شوربہ‘ دودھ‘ بیسن اور انڈے کا حلوہ‘ بیسن کی روٹی‘ دہی اور مربہ آملہ کا خصوصی استعمال کریں۔ نیز چائے کے شوقین لوگ چائے بھی پی سکتے ہیں وسط ستمبر کے بعد موسم میں بتدریج تبدیلی آنا شروع ہوجاتی ہے اصل میں جب موسم بدلتے ہیں تو اس طرح کی تبدیلیاں اکثر رونما ہوتی ہیں۔ فطری طور پر موسم ایک دم نہیں بدلا کرتے کیونکہ اگر ایسا ہوجائے تو پھر ایک دو نہیں سینکڑوں لوگ بیماریوں میں مبتلا ہوجائیں۔ جب کبھی فطری قوانین مشیت ایزدی کے تحت فطرت سے ہٹتے ہیں تو طوفان‘ سیلاب‘ زلزلے اور دیگر ناگہانی آفات کرہ ارض پر نمودار ہوتی ہیں لیکن وہ بھی کچھ عرصے کیلئے۔ پھر قدرت اس ماحول کو فطرت پر لے آتی ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ یہ صرف اور صرف وہ ذات باری تعالیٰ ہی جانتی ہے جو اس کائنات کی مالک و خالق ہے لیکن ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ فطرت کے اصولوں پر عمل کرنا صحت اور ان اصولوں سے روگردانی بیماری کا سبب بنتی ہے۔ انسان اگر ماحول اور موسم کے مطابق اپنا رہن سہن اور ضرورت کے مطابق مناسب غذا کا استعمال رکھے تو کبھی بھی بیمار نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح جب موسم سرما کی ابتدا ہوتی ہے تو سابقہ موسم یعنی گرمی والے معمولات انسان کو ترک یا مناسب حد تک کم کردینے چاہئیں لیکن ایسا نہیں ہوتا لوگ سردی کی ابتدا ہوجانے کے باوجود برف فریج کی اشیاءکا استعمال بند نہیں کرتے۔ پنکھوں‘ ایئرکولروں اور اے سی وغیرہ کے استعمال میں کمی نہیں لاتے اور یہی بے اعتدالیاں آگے چل کر بیماریوں کا پیش خیمہ بنتی ہیں اور لوگ پھر اعصابی درد‘ نزلہ‘ زکام‘ کھانسی‘ لقوہ‘ دمہ‘ ٹی بی‘ نمونیہ اور خاص کر فالج اور جوڑوں کے درد وغیرہ میںمبتلا ہوجاتے ہیں۔ احتیاطی تدابیر: وسط ستمبر سے برف کا استعمال بہت کم کردینا چاہیے۔ رات دس بجے کے بعد چھت یا صحن میں سونے کی بجائے کمرے یا برآمدے میں سوئیں۔ رات کے پچھلے پہر پنکھوں‘ ایئرکولروں اور اے سی کا استعمال بند کردینا چاہیے۔ ٹھنڈے پھل‘ ٹھنڈی سبزیاں خاص کر رات کو نہیں کھانی چاہئیں۔ صبح اور دوپہر کو تازہ پانی سے غسل کریں اور شام کے وقت نہانے سے پرہیز کریں۔ خاص کر وہ خواتین جو حاملہ ہوں یا جن کے بچوں کی عمریں دو سال سے کم ہوں انہیں چھت اور صحن میں بالکل نہیں سونا چاہیے اور وہ لوگ بھی ان تدابیر پر سختی سے عمل کریں جو پہلے سے مندرجہ بالا امراض کا شکار رہے ہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں