Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔ --

نونہال کو جب لوری بھی نہ سلائے تو کیا ،کیاجائے؟

ماہنامہ عبقری - ستمبر 2016ء

سوتے وقت کے معمولات بچوں کے مزاج اور عادات میں اختلاف کی وجہ سے مختلف ہوسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر بعض بچے اپنے امی یا ابو سے کہانی سننا پسند کرتے ہیں۔ بعض بچے اپنے سکول اور دن بھر کی اپنی مصروفیات اپنے والدین کو بتانا پسند کرتے ہیں۔

رات کا وقت ہے۔ آدھی رات کے قریب گزر چکی ہے۔ اکثر لوگ سوچکے ہیں یا اپنے گھروں کی لائٹیں بند کرکے سونے کی تیاری کررہے ہیں لیکن پاک وطن کے ہزاروں گھروں کی روشنیاں جل رہی ہیں اور وہاں کے باسی جاگ رہے ہیں۔ ان کو نہیں معلوم کہ وہ آج رات کب سوسکیں گے۔ ان سب کے جاگنے کی وجہ بھی صرف ایک ہے۔ ان کے گھر میں موجود کوئی بچہ سونے کو تیار نہیں اسے نیند نہیں آرہی ہے۔ بچوں کو نیند کیوں نہیں آتی؟ اس کے کئی ممکنہ اسباب ہوسکتے ہیں۔ عام طور پر بچوں کو علیحدہ بستر اور علیحدہ کمرے میں سلایا جاتا ہے۔ بچے اپنے والدین سے الگ ہوکر خود کو تنہا اور بے سہارا سمجھ کر خوف زدہ ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ رات کا اندھیرا، خاموشی اور تنہائی مل کر ان میں خوف کا جذبہ پیدا کردیتے ہیں۔ ایسی فضا میں بچے کیلئے سونا مشکل ہوجاتا ہے۔ ایک ماہر نفسیات کے بقول، بچے سارا دن والدین کے محبت و پیار بھرے ماحول میں رہتے ہیں اور سونے کو اس پیار محبت سے محرومی سمجھتے ہیں، لہٰذا یہ احساس محرومی و کمتری ان میں خوف اور تنہائی کا احساس پیدا کردیتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق بچوں کی نیند کا مسئلہ حل کرنے کی ایک آسان اور عملی تدبیر یہ ہے کہ ان کے سونے کے معمول میں باقاعدگی اختیار کی جائے، یعنی ان کے سونے کا وقت طے کرکے روزانہ انہیں اسی وقت پر سونے کا پابند کیا جائے۔ کمرے کی روشنیاں (لائٹیں) بند کرنے سے آدھا گھنٹے پہلے کسی کھیل کو د وغیرہ میں بچے کو لگنے نہ دیں ‘اس سے بچے کی نیند بھاگ سکتی ہے۔ اس کے بجائے بچے کو کسی ہلکے پھلکے کام میں لگائیے تاکہ دن بھر کی اس پھرتی میں کمی آجائے۔ رات کے کپڑے بدلوانا، دانت صاف کرانا وغیرہ بچے کو اس بات کا پیغام دیں گے کہ سونے کا وقت آگیا ہے۔
سوتے وقت کے معمولات: بچوں کے مزاج اور عادات میں اختلاف کی وجہ سے مختلف ہوسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر بعض بچے اپنے امی یا ابو سے کہانی سننا پسند کرتے ہیں۔ بعض بچے اپنے سکول اور دن بھر کی اپنی مصروفیات اپنے والدین کو بتانا پسند کرتے ہیں۔ بعض نونہال اپنے پسندیدہ کھلونے کو اپنے ساتھ لے کر سوتے ہیں۔ بعض بچوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ لوری سنتے ہوئے سوتے ہیں۔ سوتے وقت بچے کا معمول (روٹین) کچھ بھی ہو، اس بات کا اہتمام کرنے کی کوشش کیجئے کہ وہ اپنے ہی بستر میں سوئے۔ ایسا کوئی کام بھی نہ کیجئے جس سے بچہ جاگتا رہے۔ کمرے کی روشنیاں بند کردیجئے اور اگر ضروری ہوتو نائٹ بلب جلادیجئے۔ اگر گھر میں بڑے موجود ہیں تو ان سے کہیں کہ وہ شور نہ کریں۔ بعض اوقات کسی شے مثلاً پنکھے کی آواز بھی سونے میں مدد دیتی ہے ایسا شور یقیناً مددگار ہوتا ہے۔
بچہ سوجائے تو اس کے بستر یا کمرے سے آہستہ سے ہٹ جائیے تاکہ بچہ تنہا سونے کا عادی ہوسکے۔ یہ معاملہ بڑے بچوں کے ساتھ بھی رکھئے اور نومولود کے ساتھ بھی۔ عام طور پر شیرخوار اور نومولود بچوں کو گود میں یا پنگھوڑے میں سلایا جاتا ہے اور بچہ جب سوجاتا ہے تو اسے بستر پر لٹادیا جاتا ہے۔ یہ طریقہ مناسب نہیں ہے۔ اگر آپ بچے کو اپنی گود میں سلائیں گی اور اس کے سونے کے بعد اسے بستر پر لٹائیں گی تو اس سے ہوگا یہ کہ رات کے کسی پہر جب اس کی آنکھ کھلے گی تو وہ خود کو آپ کی گود میں نہ پاکر گھبرا جائے گا۔ وہ یہ سوچے گا کہ وہ سویا تو کہیں اور تھا لیکن اس وقت یہاں کیسے پہنچ گیا۔ یہ سوال اس میں خوف پیدا کردے گا۔ ہوسکتا ہے کہ بچہ رونا شروع کردے اور اس کی نیند بھی اڑ جائے۔ چنانچہ نونہال پر جب تھکن طاری ہونے لگے، تبھی اس کو بستر پر لٹاکر اسے تھپکائیے۔ (بعض مائیں بچے کے منہ میں فیڈر دے کر یا اپنی چھاتی بچے کے منہ میں دے کر سلاتی ہیں یہ طریقہ بچے کی صحت کیلئے مضر ہے)۔قطع نظر اس سے کہ آپ کے بچے کا سونے کا معمول کیسا ہے، بعض اوقات بچے سوتے ہوئے بہت تنگ کرتے ہیں، کبھی تو ایک اور کہانی کی فرمائش کرتے ہیں تو کبھی کہیں جانے کی خواہش کا اظہار۔ اس کی خواہش پوری ہوتو ایک اور فرمائش آموجود ہوتی ہے اسے جتنا زیادہ سمجھایا دھمکایا جائے وہ سونے کیلئے تیار نہیں ہوتا۔ ماہرین کے مطابق کبھی کبھار کی یہ ضد بجے کے بڑھوتری کے عمل کا حصہ ہے۔ اس سے زیادہ پریشان نہیں ہونا چاہئے۔ ہاں مسلسل ایک مہینے یا اس سے زیادہ اگر بچہ سوتے ہوئے پریشان کرے تو اس کو سنجیدگی سے لینا اور اس صورت حال کا حل نکالنا چاہئے۔ تاہم بچے کے رویے کو سامنے رکھ کر اس مسئلے کو سلجھانے کی کوشش کرنا چاہئے۔ بعض اوقات بچہ سوتے میں ضد اس لئے کرتا ہے کہ وہ ماں باپ کی زیادہ توجہ حاصل کرنا چاہتا ہے،کبھی اضحملال اور اداسی (ڈپریشن) اسے گھیر لیتے ہیں تو کبھی والدین بالخصوص ماں پر وہ اپنا دبائو ڈالنا چاہتا ہے۔اگر آپ کے ساتھ ایسی صورتحال پیدا ہوجائے تو ا پنے لہجے کو دھیما اور اپنے مزاج کو ٹھنڈا رکھ کر بچے سے بات کیجئے اس کو اطمینان دلائیے۔ اس کی اداسی اور مایوسی کم کرنے کی کوشش کیجئے۔ اگر آپ یہ سمجھتی ہیں کہ آپ کا بچہ آپ کی توجہ چاہتا ہے یا یہ آزمارہا ہے کہ آپ کتنی دیر تک یہ رویہ برداشت کرسکتی ہیں تو اسے پیار سے اطمینان دلائیے اور تسلی دیجئے۔ پھر اسے یہ باور کرائیے کہ تم نے دودھ بھی پی لیا، اب سونے کا وقت ہے لہٰذا کچھ اور کرنے کے بجائے سوجائو! یہ کہہ کر کمرے سے نکل جائیے یا اس کے بستر سے ہٹ کر اپنے بستر پر آجایئے۔ بچہ اگر تھکا ہوا نہ ہو تب بھی وہ سونے سے کتراتا ہے۔ فرض کیجئے آپ نے بچے کو شام سات بجے ہی بستر پر لٹادیا تو وہ آپ کی تمام تر کوششوں کے باوجود 9 بجے تک سوئے گا کیونکہ آپ نے اسے بہت جلد بستر پر لٹادیا ہے۔ تاہم اگر بچہ دن بھر کا تھکا ہوا ہے (اور دن میں سویا بھی نہیں) اور اسے نیند آرہی ہے تو اس کو جلدی سلادینے میں کوئی حرج نہیں، خواہ اس کے سونے کا معمول یہ نہ ہو۔ ایسے میں اس کے معمول کو ترجیح دینے کے بجائے اس کی نیند کو اہمیت دیجئے بچے کو نیند آرہی ہوگی تو وہ بآسانی سو بھی جائے گا۔
بچوں کے نہ سونے کی ایک عام وجہ بچوں کا خوف بھی ہوتا ہے۔ وہ اپنے ذہن میں بھوت ‘پریت ‘جن‘ چڑیل وغیرہ کا ایک تصور بٹھالیتے ہیں اور پھر رات کے اندھیرے میں انہیں پردوں کے سائے میں، دروازے کی اوٹ میں یہ سب کچھ محسوس ہوتا ہے، حالانکہ حقیقت سے اس کا تعلق نہیں ہوتا۔ بعض اوقات تشویش و فکر (ANXIETY)بچے کے ذہن پر بھوت پریت کا خیال مسلط کردیتی ہے جس سے بچہ سو نہیں پاتا۔ ا یسی صورت میں سب سے ضروری یہ ہے کہ بھوت پریت کے جھوٹے تصور کو اس کے ذہن سے محو کیا جائے۔ چونکہ بچہ اکیلے ہی میں ڈرتا ہے۔ اس لئے اس کی تنہائی کم کرنے کی ایک صورت یہ ہوسکتی ہے کہ اس کے کمرے کا دروازہ بند نہ کیا جائے یا ریڈیو ہلکی آواز میں چلادیا جائے۔ ایک اچھی ترکیب یہ ہے کہ کھیل کھیل میں بچے کے ساتھ مل کر بھوت پریت کو ڈھونڈا جائے اور پھر اسے بتایا جائے کہ دیکھو یہاں کوئی جن بھوت نہیں ہے، تم تو خواہ مخواہ ڈر رہے ہو! بچہ ڈر جائے تو کچھ دیر اس کے بستر پر بیٹھ کر اس کو تسلی دی جائے۔ اس سے ہلکی پھلکی باتیں کی جائیں تاکہ اس کے ذہن سے خوف نکل جائے۔ جب وہ سوجائے تو اس کے کمرے سے باہر آجائیں۔

Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 044 reviews.