یہ حیرت انگیز انکشاف ہوا کہ کھچڑی میں آئرن کی ایک معقول مقدار موجود ہوتی ہے اور ہمارے خون میں فوری طور پر جذب بھی ہوجاتی ہے۔ اس لحاظ سے خون میں آئرن کی کمی کے عارضے میں مبتلا افراد کیلئے کھچڑی کا استعمال بہت فائدہ منہ ثابت ہوسکتا ہے۔
کھچڑی ہمارے ملک کی ایک عام اور مقبول ڈش ہے۔ یہ لذیذ ہونے کے ساتھ زود ہضم اور غذائیت سے بھرپور بھی ہوتی ہے لیکن بہت سے افراد ایسے بھی ہیں جو اسے صرف مریضوں کی غذا سمجھتے ہیں۔ کھچڑی کے متعلق یہ خیال درست نہیں ہے یہ ٹھیک ہے کہ بیماری کی حالت میں ایسی غذائیں تجویز کی جاتی ہیں جو ایک تو ہلکی ہوں یعنی زود ہضم ہوں، غذائیت بخش ہوں اور موسم سے مطابقت رکھتی ہوں۔ اس ضمن میں معالجین کھچڑی کے استعمال کا بھی مشورہ بالعموم دیتے ہیں لیکن اسے صرف مریضوں کی غذا سمجھ کر استعمال کرنا دانشمندی نہیں ہے کیونکہ اس سادہ سی غذا میں کئی صحت بخش فوائد پوشیدہ ہیں جس سے ہر خاص و عام مستفید ہوسکتا ہے۔
نیشنل ہیلتھ سروے آپ پاکستان کی ایک تحقیق کے مطابق کھچڑی کے استعمال سے خون میں آئرن یعنی فولاد کی کمی پوری کی جاسکتی ہے۔ پاکستان بھر میں کی جانے والی اپنی نوعیت کی یہ منفرد تحقیق تھی، جس سے یہ حیرت انگیز انکشاف ہوا کہ کھچڑی میں آئرن کی ایک معقول مقدار موجود ہوتی ہے اور ہمارے خون میں فوری طور پر جذب بھی ہوجاتی ہے۔ اس لحاظ سے خون میں آئرن کی کمی کے عارضے میں مبتلا افراد کیلئے کھچڑی کا استعمال بہت فائدہ منہ ثابت ہوسکتا ہے۔
خون میں آئرن کی کمی کا عارضہ دنیا بھر میں عام بیماری کی صورت میں اختیار کرتا جارہا ہے۔ اقوام متحدہ اور عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق جنوب مشرقی ایشیا میں حاملہ خواتین اور چھوٹے بچوں کی پچاس سے ستر فیصد تعداد اس عارضے کا شکار ہے۔ تاہم تجربات کے دوران غذا کے ذریعے آئرن کی کمی دور کرنے کا ایک نیا اور متبادل طریقہ سامنے آیا جو ناصرف یہ کہ سستا تھا بلکہ ہر قسم کی پیچیدگیوں سے مبرا بھی تھا۔ یقیناً آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ یہ طریقے کھچڑی کا بطور غذا استعمال ہے۔ آئرن کی کمی دور کرنے کے ساتھ ساتھ یہ ان خواتین کیلئے بھی سود مند ثابت ہوا جو بغیر کسی پیچیدگی اور دشواری کے ماں بننے کے عمل سے گزرنا چاہتی ہیں۔ مذکور بالا تجربے اور مشاہدے میں کھچڑی میں موجود فولاد کی نشاندہی ہوئی اور حاملہ خواتین کیلئے اس کی افادیت واضح ہوئی۔ اب سائنسی تجزیے کی روشنی میں دیکھتے ہیں کہ فولاد کا خون میں کیا کردار ہوتا ہے اس سے ہماری سادہ سی غذا کھچڑی کی اہمیت واضح ہوجائے گی۔ سائنس دان عرصہ دراز قبل ہی یہ ثابت کرچکے ہیں کہ انسانی زندگی جن عناصر کی مرہون منت ہے ان میں آئرن کی بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ میڈیکل سائنس کی رو سے خون میں موجود سرخ خلئے فولاد ہی کی شکل کے ہیں۔ جب جسم میں یہ سرخ خلیات سفید خلیوں کے مقابلے میں کم ہوجاتے ہیں تو جسم خون کی کمی کا شکار ہوجاتا ہے، جسے اینیمیا Anemia کہا جاتا ہے۔ جسم میں خون کی کمی کے سبب جب جسم کے مختلف اعضائے ریئسہ کو خون کی فراہمی کے تعطل کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو یہ اعضاء مضحمل اور سست ہوجاتے ہیں جس سے ان کی کارکردگی ماند پڑ جاتی ہے ساتھ ہی قوت مدافعت کم ہونے لگتی ہے اور مختلف بیماریوں کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ ماہرین کے وضع کردہ آئرن کی کمی کے ان مضمرات سے محفوظ رہے کیلئے ضروری ہے کہ جسم میں فولاد کی کمی نہ ہونے دی جائے۔ اس مقصد کیلئے مرغی یا مچھلی کا گوشت روزانہ، بکرے یا بھیڑ کا گوشت ہفتے میں تین مرتبہ ، کلیجی مستقل، مٹر اور پھلیاں روزانہ اور وٹامن سی والے کھانے، ہرے پتوں والی سبزیاں یعنی پاک وغیرہ اور وٹامن سی سے مزین پھلوں کا استعمال کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ یہ غذائیں جسم میں فولاد کی کمی کو تو پورا کرتی ہیں لیکن اگر ان کا بکثرت استعمال کیا جائے
اور ورزش وغیرہ کا اہتمام بھی نہ ہو تو جسم میں چربی، چکنائی اور کولیسٹرول کا تناسب بڑھنے لگتا ہے جس سے دل کے عوارض کا خدشہ رہنے لگتا ہے۔ کلیجی تو دل کے مریضوں اور فربہ افراد کے لئے سم قاتل ہے۔ اس لحاظ سے بھی آئرن کی کمی دور کرنے میں کھچڑی کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے جس کے استعمال سے ان سب خدشات کا خطرہ نہیں رہتا۔ اس کے علاوہ جیب پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب نہیں ہوتے یعنی کھچڑی پر ’’کم خرچ بالا نشین‘‘ کی مثال صادق آتی ہے۔ محض چاولوں کو مونگ یا مسور کی دال میں شامل کرکے تھوڑی دیر پکاکر اوپر سے بھگاردے کر چند منٹ میں کھچڑی تیار ہوجاتی ہے۔ اسے دہی یا رائتے اورلہسن یا کیری کی چٹنی کے ہمراہ نوش کرنے سے کم خرچ میں حس ذائقہ کی تسکین اور غذائیت بھی حاصل ہوتی ہے۔ سائنسی تجزئیے کی رو سے چاولوں میں کولیسٹرول اور چکنائی بالکل نہیں ہوتی حالانکہ اس میں پروٹین گندم کے مقابلے میں کم ہوتا ہے لیکن پھر بھی اس کی جلد ہضم ہونے کی خاصیت، عمدہ ذائقے اور مسحور کن خوشبو کی بدولت دنیا بھر میں نصف سے زائد آبادی کی بنیادی غذا چاول ہی ہیں، اسی طرح مونگ کی دال کو بھی سب سے ہلکی اور زیادہ استعمال ہونے والی غذا کہا جاتا ہے۔ کھچڑی بنانے کیلئے ثابت مونگ، دھلی ہوئی یا چھلکے والی اور تینوں اقسام استعمال کی جاسکتی ہیں۔ کھچڑی میں پیاز، ادرک اور لہسن کے تڑکے کے ساتھ نمک ڈال کر پکایا جاسکتا ہے۔ مونگ کے علاوہ مسور کی دال کے ساتھ بھی کھچڑی بنائی جاتی ہے۔ مسور کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ قبض کرتی ہے لیکن چھلکے کے ساتھ پکائی جائے تو قبض کشا ہوجاتی ہے کیونکہ اس کا چھلکا گرم اور دال سرد و خشک ہوتی ہے۔ مسور کی گرمی دور کرنے کیلئے اسے مونگ کی دال کے ساتھ پکانا موثر رہتا ہے لیکن بات اگر کھچڑی کی ہو تو اسے چھلکے سمیت چاولوں کے ساتھ پکاکر دہی کے ہمراہ استعمال کرنا اسے مضر اثرات سے پاک، پروٹین اور فولاد کا ماخذ اورخوش ذائقہ بنادیتا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں