Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔ --

رمضان کے بعد زندگی کیسے گزاریں؟

ماہنامہ عبقری - جولائی 2014ء

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے بارے میں مروی ہے کہ آپ اختتام رمضان پر فرماتے: اے وہ شخص جس کی عبادتیں قبول ہوئیں‘ تجھے مبارک ہو اور وہ شخص جس کی عبادتیں مردہ ہوئیں یعنی قبول نہ ہوسکی اللہ تیرے نقصان کی تلافی کرے۔
حذیفہ روستانوی

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا‘ اے اللہ کے رسول ﷺ اللہ رب العزت کے ارشاد 

وَ الَّذِیْنَ یُؤْتُوْنَ مَا اٰتَوْا وَّ قُلُوْبُہُمْ وَجِلَۃٌ اَنَّہُمْ اِلٰی رَبِّہِمْ رٰجِعُوْنَ ﴿ۙمؤمنون۶۰﴾ سے مراد کیا شراب نوشی کرنے والے‘ چوری اور زنا کرنے والے ہیں؟ آیت کا ترجمہ: اور جن لوگوں کو دیا گیا‘ وہ جو دیا گیا‘ جبکہ ان کے دل خوف زدہ ہوگئے اس لیے کہ وہ (یقین رکھتے ہیں کہ) اپنے پالنہار اور پروردگار کی طرف لوٹائے جانے والے ہیں۔ تو نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ صدیق کی بیٹی‘ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو روزے رکھتے ہیں‘ نمازیں پڑھتے ہیں‘ صدقہ خیرات کرتے ہیں اور پھر اس بات سے ڈرتے ہیں کہ کیا ان کے اعمال صالحہ قبول ہوئے یا نہیں؟ یہی وہ لوگ ہیں جو خیرات میں سبقت کرتے ہیں۔
اس پوری روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سورۂ مؤمنون کی 60ویں آیت کی مراد سمجھ نہ سکیں تو انہوں نے نبی کریم ﷺ سے دریافت کیا کہ میں ’’یُؤْتُوْنَ مَا اٰتَوْا ‘‘ کی مراد گنہگار بندے سمجھی کہ گناہ کرنے کے بعد وہ خوف زدہ ہوجاتے ہیں اور یوم الحساب کا منظر انہیں یاد آجاتا ہے تو نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا نہیں بلکہ اس سے مراد اعمال صالحہ کرنے والے اور مخلصین ہیں جو عمل صالحہ کرکے مطمئن نہیں ہوتے‘ بلکہ ڈرتے رہتے ہیں کہ پتہ نہیں ہمارا عمل عنداللہ قبول بھی ہوا یا نہیں؟ اور پتہ نہیں کل قیامت کے دن کیا ہوتا ہے‘ اجر بھی ملتا ہے یا نہیں؟ کہیں ریاء کاری‘ بدنیتی‘ شرک فی العبادۃ جیسی کسی چیز کی آمیزش تو نہیں ہوئی جن کا علم اللہ کے علاوہ کسی کو نہیں‘ یہ ہے اصل حقیقت۔۔۔ ہم لوگوں کی طرح نہیں‘ اگر ایک نیکی کی ہو تو بس ختم ہوگیا‘ پوری دنیا میں ڈھنڈوڑا پیٹیں گے اور مطئمن ہوجائیں گے کہ عمل قبول ہو ہی گیا‘ لہٰذا کوئی فکر کی بات نہیں‘ میرے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: والمخلصون علی خطرعظیمکہ مخلص بھی عظیم خطرے پر ہے۔
حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں‘ مؤمن کی نشانی یہ ہوتی ہے کہ وہ خوب محنت مجاہدہ سے نیکی کرتا ہے مگر اللہ سے ڈرتا رہتا ہے اور منافق کی نشانی یہ ہے کہ وہ برائی کرکے بھی مطمئن رہتا ہے اور ڈرتا بھی نہیں ہے۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے بارے میں مروی ہے کہ جب رمضان المبارک کی آخری رات ہوتی تو آپ فرماتے ہائے کاش! مجھے معلوم ہوجائے کہ کون ہے وہ شخص جس کی رمضان المبارک میں عبادتیں قبول ہو‘ تو میں انہیں مبارک باد دیتا اور اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ کون ہے جس کی عبادتیں قبول نہ ہوں اور وہ محروم رہا تو ہم اس کی تعزیت کرتے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے بارے میں مروی ہے کہ آپ اختتام رمضان پر فرماتے: اے وہ شخص جس کی عبادتیں قبول ہوئیں‘ تجھے مبارک ہو اور وہ شخص جس کی عبادتیں مردہ یعنی قبول نہ ہو‘ اللہ تیرے نقصان کی تلافی کرے۔حضرت عامر بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے بارے میں مروی ہے کہ وہ اختتام رمضان پر رونے لگے تو لوگوں نے کہا آپ کیوں رو رہے ہیں؟ تو فرمایا قسم بخدا متاع دنیا کے ضائع ہونے پر نہیں رورہا ہوں‘ میں تو روزے میں پیاس کی شدت پر اور ٹھنڈی رات میں اللہ کے حضور میں کھڑے ہونے کی مشقت کے ہاتھوں سے چلے جانے پر رو رہا ہوں‘ یعنی روزہ‘ تراویح اور دیگر رمضانی عبادت اب نہ ہونے کا افسوس ہے۔حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے عیدالفطر کے خطبہ میں فرمایا: اے لوگو! تم نے تیس دن روزے رکھے اورتیس راتوں میں اللہ کے حضور تراویح اور نمازیں پڑھیں اور آج تم عیدگاہ کی طرف آئے ہو تاکہ اللہ سے دعا کرو کہ وہ تمہاری عبادتوں کو قبول کرے۔ایک بزرگ کو عید کے دن لوگوں نے غم زدہ دیکھا تو لوگوں نے کہا کہ خوشی اور مسرت کے دن آپ غمزدہ کیوں نظر آرہے ہیں؟ تو فرمایا: بات تو صحیح ہے کہ یہ خوشی اور مسرت کا دن ہے مگر مجھے اس بات نے غم میں ڈال رکھا ہے کہ میں اللہ کا بندہ ہوں جس نے مجھے روزے اور دیگر عبادات کا حکم دیا مگر مجھے نہیں علم کے میرے یہ اعمال عنداللہ مقبول بھی ہوئے یا نہیں؟
علامہ ابن رجب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اسلاف واکابر کا طریقہ یہ رہا کہ وہ چھ ماہ دعا کرتے کراتے‘ ہمارے لیے رمضان المبارک کا ماہ مبارک مقدر فرما اور چھ ماہ دعا کرتے اللہ ہمارے رمضان کے روزے اور تمام عبادتوں کو قبول فرما!
عبدالعزیز بن روّاد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے بے شمار صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو دیکھا کہ جب بھی وہ کوئی نیکی کاکام کرتے پھر اس فکر میں مبتلا ہوجاتے کہ پتہ نہیں ان کا یہ عمل اور یہ نیکی قبول ہوئی یا نہیں اور پھر خوب قبولیت کی دعا کرتے۔بشرحافی رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے دریافت کیا کہ حضرت بہت سے مسلمان ایسے دیکھے گئے جو صرف رمضان المبارک میں خوب عبادت اور مجاہدہ کرتے ہیں اور بقیہ سال بھر پھر کچھ نہیں‘ تو آپ نے فرمایا: ایسا اس لیے کہ انہوں نے اللہ کو کماحقہ نہیں پہچانا اور عارضی صرف رمضان المبارک کی حد تک کی عبادت کس کام کی؟ اصل عبادت اور حقیقی صلاح و تقویٰ تو یہ ہے کہ مسلمان سال بھر عبادت وریاضت‘ مجاہدہ و محاسبہ میں لگارہے۔
حضرت شبلی رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے دریافت کیا‘ رجب افضل یا شعبان؟ تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ بندہ خدا شعبانی اور رجبی بن کر کیا فائدہ ربانی بن جا۔۔۔ یعنی صرف رجب و شعبان کی فضیلت معلوم کرکے اسی میں عبادت مت کر بلکہ ربانی بن جا۔۔۔ یعنی سرتاپا ازشعور تا موت اللہ کا ہوکر اسی کا بن جا۔۔۔ تاکہ کامیاب و بامراد ہوجائے۔
بندہ خدا۔۔۔! کیا تجھے اللہ کے یہ حیرت انگیز فرامین نہیں پہنچے ایک جگہ اللہ رب العزت فرماتے ہیں۔ترجمہ: لوگو! اپنے پروردگار کی مغفرت کی طرف سبقت کرو اور ایسی جنت کی طرف جس کا طول و عرض آسمان اور زمین کے طول و عرض کے برابر ہے۔ایک اور مقام پر اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں۔ ترجمہ: ’’دوڑ پڑو اپنے پروردگار کی مغفرت کی طرف اور ایسی جنت کی طرف جس کا عرض آسمان و زمین کے برابر ہے جو متقیوں کیلئے تیار کی گئی ہے‘‘ ان آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ مؤمن کو اللہ رب العزت کی جانب سے یہ تحریض صرف عارضی طور پر صلاح و تقویٰ پر آنے کی نہیں جیسا کہ ہمارے معاشرےکا حال ہے بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اللہ بندہ مسلمان کو اپنی چوکھٹ پر بٹھانا چاہتے ہیں کہ وہ اللہ رب العزت کا ایسا مطیع و فرمانبردار اور عاشق بن جائے کہ اللہ اس سے راضی ہوکر اسے سیدھا جنت میں جگہ دیدے۔

Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 934 reviews.