وہ فرماتے تھے کہ اپنے آپ کو کچھ نہ کہنا اور حقیر و فقیر کہنا تو بہت آسان ہے‘ اپنے آپ کو کچھ نہ سمجھنا بہت مشکل ہے اور تواضع یہ ہے کہ اپنے آپ کو کچھ نہ سمجھے‘ حقیر وفقیر سمجھے۔
اپنے آپ کو کچھ نہ سمجھنا‘ دیکھنا ہو تو میرے حضرت والا (مفکر اسلام حضرت مولانا سیدابوالحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ) کی خدمت میں کچھ روز رہنے کے بعد کھلی آنکھوں کچھ نہ سمجھنے کا منظر دیکھا جاسکتا تھا‘ بارہا دیکھا کہ لوگ اپنے بچوں کو لے کر آتے‘ ازراہ عقیدت حضرت والاسے اپنے بچوں کے سر پر ہاتھ رکھنے کی درخواست کرتے تو حضرت اپنے ہاتھوں کو کھینچتے تھے‘ یہ ہاتھ برکت کیلئے رکھوانے کیلئے کہہ رہے ہیں اور حضرت اپنے آپ کو صاحب برکت نہیں سمجھتے تھے لوگ اصرار کرتے تو بہت جھجکتے ہوئے دل شکنی کے خوف سے بچوں یا بڑوں کے سر پر ہاتھ رکھ دیتے تھے اور کچھ آہستہ کلمات فرماتے‘ اس حقیر کو خیال ہوا شاید بچوں یا بڑوں کے سر پر ہاتھ رکھنے کی کوئی ماثورہ دعا ہوگی جو حضرت پڑھتے تھے‘ دل میں کئی بار تقاضا ہوا کہ حضرت والا سے معلوم کروں کہ آپ کیا دعا بچوں کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے پڑھتے ہیں مگر ہمت نہ ہوئی ایک مرتبہ یہ حقیر رائے بریلی تکیہ شاہ علم اللہ میں حاضر تھا‘ جمعہ کا دن تھا‘ رائے بریلی کے حضرت کے ایک بہت عقیدت مند خادم خاں صاحب اپنے دو بچوں کو لے کر خدمت عالیہ میں حاضر ہوئے‘ حضرت تکیہ لگائے تشریف فرما تھے‘ خاں صاحب آئے‘ سلام و مصافحہ ہوا‘ بچوں نے بھی سلام و مصافحہ کیا‘ خاں صاحب نے درخواست کی کہ بچوں کے سر پر دست شفقت رکھ دیں‘ حضرت والا نے ہاتھ پیچھے کھینچے‘ خاں صاحب نے اصرار کیا اور بچے کو آگے بڑھایا یہ حقیر حضرت کے بالکل قریب لگا کہ آج بغور اس دعا کو ضرور سنے گا جو حضرت والا بچوں کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے پڑھتے ہیں‘ خاں صاحب کے اصرار پر حضرت نے دل شکنی کے خوف سے جھجھکتے ہوئے ان دونوں بچوں کے سروں پر ہاتھ رکھا اور فرمایا اللہ تعالیٰ ان معصوم بچوں کے سر کی برکت سے میرے ہاتھوں کو دوزخ کی آگ سے محفوظ فرما۔ یہ حقیرا ٓج تک سوچتا ہے کہ جن کے رتبے ہیں سوا ان کی سوا مشکل ہے۔
(جو اللہ کیلئے تواضع اختیار کرے اللہ اسے سربلند کردیتا ہے) کافرمان کتنا سچا ہے‘ یہ سیدالعرب والعجم کا رتبہ پانے والا بین الاقوامی امت کا سردار اپنی ذات کی فنا کے کس مقام پر پہنچا ہوا ہے‘ میرے حضرت والا اکثر متوسلین کو خطوط میں تحریر فرمایا کرتے تھے کہ اپنی ذات کی نفی تمام کمالات کا زینہ ہے اور اس زینہ سے حضرت والا نے عنداللہ مقبولیت اور محبوبیت کے اس مقام تک رسائی کی تھی‘ کئی بار سنا حضرت فرماتے تھے کہ اگر کسی آدمی نے کوئی ادنیٰ خدمت اختیار کی‘ کسی کے جوتے اٹھائے‘ کسی اجتماع یا جماعت میں برتن دھونے یا استنجے وغیرہ صاف کرنے کی خدمت کی اور اس کے دل میں یہ گمان رہا کہ میں نے اپنے معیار سے بہت کم درجہ کا کام کیا تویہ خدمت اس میں تواضع کے بجائے کبر پیدا کرے گی اور اگر کسی کے جوتے سیدھے کیے یا کوئی ادنیٰ خدمت کرکے یہ خیال آیا کہ مجھے اس خدمت کا شرف ملا تو یہ خدمت اس کیلئے نفی اور تواضع پیدا کرنے والی ہے۔ حضرت والا کے بچوں کے سروں پر ہاتھ رکھتے ہوئے اس جملہ کو سن کر مجھے حضرت شیخ الحدیث کے ایک خط کا وہ جملہ یاد آیا جو انہوں نے ایک ندوی نوجوان فاضل کو ان کے خط کے جواب میں لکھا تھا جس میں ندوی فاضل نے حضرت مولانا نوراللہ مرقدہ کی خدمت میں عرب میں ملازمت لگوانے کے لالچ میں وقت گزارا تھا اور جب یہ مطلب حاصل ہوتا نہیں دکھا تو حضرت کے یہاں سے جاکر حضرت کی خدمت میں کچھ بے ادبی کی‘ جس کی وجہ سے ان پر حالات آئے اب وہ کیا کریں؟ اس کیلئے حضرت شیخ الحدیث سے مشورہ چاہا تھا حضرت شیخ نے اس کے جواب میں لکھا تم بڑے خوش قسمت ہو کہ تم نے گستاخی کی تو علی میاں کے ساتھ کی جو عفودرگزرکا پہاڑ ہیں اور تواضع جن کے در کی لونڈی ہے۔ میرے حضرت فرماتے تھے کہ اپنے آپ کو فقیر لکھنے والے کو کوئی کہے کہ جناب حقیر و فقیر ادھر آئیے تو کیا حال ہوتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم اپنے کو کچھ نہیں کہنے کے ماہر ہیں اور کچھ نہ سمجھنا ہمارے اندر نہیں ہے‘ کاش! اس کچھ نہ سمجھنے کا عشر عشیر حضرت والا کی جوتیوں کے صدقہ میں اس ناکارہ کو بھی نصیب ہوجائے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں