ایسے مو اقع تقریباً تمام مر دو ں کی زندگی میں اکثر و بیشتر آتے ہیں جب وہ اپنے کا م سے تھکے ہارے اور اگلے دن کے بقیہ کام کا بو جھ سر پر لئے جب گھر میں داخل ہو تے ہیں تو وہ بات بات پر اپنا غصہ اور جھنجھلا ہٹ اپنے معصوم بچو ں پر بلا وجہ تشدد یا انتہائی ناراضگی کی صورت میں اتار نا شروع کر دیتے ہیں ۔ بعدمیں جب وہ ذرا پر سکون ہوتے ہیں تو انہیں اپنے عمل پر نہ صرف شرمندگی ہو تی ہے بلکہ ان پر پچھتا وے کا حملہ ہو جا تا ہے۔ جس کا مدا وا کرنا ان کے بس سے باہر ہوتاہے۔ کچھ ایسا ہی ہمارے دوست کے ساتھ بھی ہو ا۔ جب ا س نے اپنے معصوم اور بے گنا ہ بیٹے کو اس وقت ڈانٹ دیا جب وہ ابو آئے ، ابو آئے کا شور مچا کر اپنے ابو سے پیا ر لینے کے لیے بھاگ پڑا تھا ۔ لیکن ابو نے نہ صرف اسے ڈانٹ پلائی بلکہ پٹائی بھی کر ڈالی اور بچہ رو تے روتے سو گیا ۔ آنسو اس کے گالوں پر خشک ہو چکے تھے ۔ والد جب پچھتا وے کا شکار ہو کر بچے کے قریب گیا تو بچے کے رخسار پر خشک آنسودیکھ کر بے حال ہو گیا ۔ وہ اپنے آپ سے ہم کلا م ہو کر کہہ رہا تھا۔ سنو بیٹا تم اپنی خوبصورت آنکھو ں پر پلکو ں کی جھا لریں گرائے سورہے ہو۔ آنسو تمہارے رخساروں پر خشک ہو چکے ہیں ۔ تمہارا ننھا ساہا تھ رخسا ر تلے دبا ہوا ہے اور خوبصورت بالوں کے گھنگھرو ما تھے پر چپک گئے ہیں ۔چند لمحو ں پہلے میں اپنے کمرے میں بیٹھا مطالعہ کر رہا تھا کہ نہ جانے کیو ں مجھے ندامت سی محسو س ہونے لگی اور میں مجرموں کی طر ح سر جھکائے تمہا رے سرہانے آپہنچا ۔ تم سو چ رہے ہو گے کہ میں نے تم سے کبھی بھی اچھا سلو ک نہیں کیا ۔صبح جب تم سکول جانے کے لیے تیار ہو رہے تھے تو منہ ہا تھ دھونے کی بجائے صرف اپنا چہرہ تولیے سے پونچھ لینے پر میں تم سے ناراض ہو ا اور اپنے جو تے صاف نہ کرنے پر سزا د ی تھی ۔ ناشتہ کر تے ہوئے میں نے تمہیں پھر ٹوکا ۔ تم میز پر کہنیا ں ٹکائے جلدی جلدی کھانا نگل رہے تھے ۔ جب میں کام پر جانے کے لیے نکلا تو تم نے دروازے سے جھانک کر اپنا چھو ٹا سا ہاتھ ہوا میں لہرا یا اور پیا ر سے مجھے اللہ حافظ کہا ۔ لیکن میرے ماتھے کے بل جو ں کے تو ں رہے ۔
شا م کو جب میں وا پس آیاتو تم زمین پر گھٹنو ں کے بل جھکے ، کھیل رہے تھے اور تمہاری جرا بو ں کے سوراخ صاف دکھائی دے رہے تھے ۔ دوستو ں کے سامنے میں نے تمہیں برا بھلا کہا اور تمہیں کھیلنے سے منع کر دیا ۔ جرابیں مہنگی تھیں ، انہیں تم اگر اپنی جیب سے خریدتے تو شاید زیاد ہ محتاط رہتے اور پھر تمہیں یادہے جب میں اپنے کمرے میں بیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا تو تم ڈرتے ڈرتے اندر آئے تھے۔ تمہا ری آنکھیں افسر دہ تھیں۔ جب میں نے بے صبری سے سر اٹھا کر سوالیہ نظرو ں سے تمہاری طر ف دیکھا تو تم دروازے پر ایک لمحے کے لیے رکے اور پھر تیزی سے دوڑتے ہوئے میری طر ف آئے اور میری گرد ن میں بانہیں ڈال کر تم نے مجھے چوم لیا۔تمہا رے ننھے ننھے بازوﺅں کی گرفت میں ایک انوکھا پیا ر تھا ۔ جسے اللہ پا ک نے تمہا رے دل میں پیدا کیا اور میری بے توجہی بھی اس کا کچھ نہ بگاڑ سکی....تم جا چکے تھے ........ واپسی پر تمہارے قدموں کی چاپ رات کے سناٹے میں صاف سنائی دے رہی تھی اور پھر مجھے ندامت ہونے لگی ۔ میری کتنی بری عا دت ہے کہ میں تمہیں ہر وقت کسی نہ کسی با ت پر ڈانٹتا رہتا ہو ں ۔ اپنے سے کم عمر ہونے کا کیا میں نے تمہیں یہی صلہ دیا ہے ؟ اس کی وجہ یہ نہیں کہ میں تمہیں پیار نہیں کر تا۔ دراصل میں تمہیں اپنے دور اور زمانے کے پیمانے سے تو ل رہا تھا ۔ تمہا ری شخصیت کے تو کتنے ہی خوبصورت پہلو ہیں ۔ تمہا را ننھا سا دل تو کسی وسیع سلسلہ کو ہ پر غرو ب ہونے والے سورج کی طرع عظیم ہے ۔ آج رات اور کوئی چیز اتنی اہم نہیں جتنا تمہارا پیار سے میری گردن میں بانہیں ڈال کر مجھے چو م لینا .... میں اندھیرے میں تمہارے سرہانے شر م سے سر جھکائے بیٹھا ہو ں ۔ تم یہ سب ابھی نہیںسمجھ سکو گے مگر کل سے میں تمہا رے لیے ایک مثالی باپ ہو ں گا۔ میں تمہارا دوست بنو ں گا اور اپنے دل میں دہراتا رہو ں گا کہ
یہ تو ابھی بچہ ہے ، معصوم ہے
تم گھبرائے ہوئے سے ،سمٹے سمٹائے اپنے بستر پر لیٹے ہو ۔ ابھی کل ہی تو تم اپنی ما ںکی گو د میں تھے ۔ اور تمہارا سر اس کے کاندھے سے لگا ہو ا تھا ۔ لیکن میری توقعات تمہاری استعداد و استطاعت سے بھی بہت زیا دہ تھیں ۔ آج پھر میں اپنا وعدہ بھول گیا اور تمہیں بلا وجہ نہ صرف ڈانٹ دیا بلکہ ایک چپت بھی رسید کر دی ۔ مجھے معاف کر دو میرے بچے آئندہ ایسا نہ ہوگا ۔ “
یہ تحریر توجہ طلب ہے۔ عام زندگی میں ہمارا بچو ں کے ساتھ رویہ کم و بیش اسی قسم کا اندا ز لئے ہوئے ہو تا ہے ۔ جن جن با تو ں سے اپنے بچے کو روکا ٹوکا وہ اپنی جگہ درست تھا۔ اگر کوئی غلطی تھی تو صرف یہ کہ روکنے ٹوکنے کا انداز اور رویہ درست نہ تھا ۔ اپنے بچو ں کی رہنمائی کریں ۔ یہ آپ کا بلکہ ہم سب والدین کا فرض ہے ۔ اس کے بغیر ہم اپنے بچو ں کی بہتر تربیت کا تصور نہیں کر سکتے ۔ لیکن بچے غلطیوں کے مرتکب ضرور ہو ں گے ۔ ان غلطیوں کی نشا ن دہی اس اندا ز سے کریں کہ آپ کا بچہ آپ سے خوف زدہ ہونے کی بجائے آپ کو اپنا ہمدرد سمجھے، تا کہ وہ زندگی میں آنے والی نئی نئی اور طر ح طر ح کی مشکلات پر قابو پانے کے لیے آپ سے رہنمائی حاصل کر سکے ۔
آپ کا بچہ ابھی بہت چھوٹا ہے ۔ا گر آپ کا رویہ نہ بدلا اور تربیت کا اندا زنہ بدلا تو کل جب یہی بچہ جو آج آپ کی گردن میں بانہیں ڈال کر اور آپ کو چو م کر اپنے پیار کا اظہا ر کر رہا ہے۔ کل اس کے دل میں آپ کے خلا ف نفرت کے جذبات اُسے آپ سے دور ایک ایسے ما حول میں لے جائیں گے جہاں سے اس کی واپسی نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہو جائے گی اور آپ سر پیٹ کر رہ جا ئیں گے ۔بچوں کی لگا م اپنے ہا تھ میں رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اپنے اندر بچو ں سے شفقت کے جذبات کو ابھاریں ۔ انہیں پروان چڑھائیں اور بچو ں پر نچھا ور کریں اور ایسا ما حول پیدا کریں کہ بچہ آپ پر اعتما د کرے ۔ آپ پر فخر کرے اور آپ کی بتائی ہوئی را ہو ں پر بلا خوف و خطر چلتا رہے ۔ غلط ما حول اور محافل میں بیٹھنے کی بجائے وہ آپ کے زیادہ سے زیا دہ قریب رہنا چاہے اور زندگی بھر آپ کی گردن میں بانہیں ڈال کر آپ کو چو متا رہے ۔ محترم قارئین ! رشتہ دارو ں ، پڑوسیو ں اور ملنے جلنے والو ں کے بچے بھی آپ کی توجہ اور پیا ر کے مستحق ہیں ۔ ان کو نظر انداز مت کیجئے ۔ ( شکر یہ )
Ubqari Magazine Rated 4.5 / 5 based on 318
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں