Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔ --

مور حُسن کی اچھوتی تصویر (عرفان بھٹی‘ڈیرہ نواب)

ماہنامہ عبقری - ستمبر 2010ء

افزائش نسل کے سلسلے میں مور کے بارے میں مشہور ہے کہ جب وہ مست ہوکر اپنی مورنی کے سامنے ناچتا ہے‘ تو اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے ہیں۔ مورنی ان آنسووں کو زمین پر گرنے نہیں دیتی‘ بلکہ پی جاتی ہے ا ور پھر وقت مقررہ پر انڈے دینے لگتی ہے اس حسین و جمیل پرندے کا اصل وطن مشرق بعید ہے‘ تاہم پاکستان‘ ہندوستان‘ سری لنکا‘ برما‘ جاوا‘ سماٹرا اور جاپان میں بھی پایا جاتا ہے۔ یہ دو قسم کا ہوتا ہے۔ نیلے سینے والا اور سبز سینے والا‘ سبز سینے والا جاوا اور برما میں ہوتا ہے۔ اس کی گردن سنہری ہوتی ہے۔ جاپان میں سفید مور بھی ملتے ہیں جو اپنی سادگی کے باوجود بڑے پیارے لگتے ہیں۔ تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ فلسطین کے باشندے موروں کے بڑے شوقین تھے‘ چنانچہ حضرت سلیمان علیہ السلام اور ملکہ سبابلقیس کی کہانی میں ان کا ذکر آتا ہے۔ ملکہ مصر قلوپطرہ کے حالات میں بھی مور کا تذکرہ ملتا ہے۔ سکندر اعظم نے جب ہندوستان پر حملہ کیا تو زرق برق پروں والے مور اسے بہت پسند آئے۔ وہ انہیں اپنے ساتھ لے گیا اور یوں یہ پرندہ مشرق سے مغرب میں پہنچ گیا اور وہاں بھی اس کی نسل پھیل گئی۔ مور کے بچے انڈوں میں سے نکلنے کے چند گھنٹے بعد اپنی دم کو اوپر اٹھانے لگتے ہیں۔ یوں تو اس کے سر‘ کلغی‘ گردن اور سینے میں بڑے خوبصورت رنگوں کا امتزاج ہوتا ہے مگر اس کی دم پر پھیلے ہوئے پر حسن کی بالکل اچھوتی تصویر ہیں۔ دم کے لمبے لمبے پروں کی نشوونما میں تقریباً دو سال کا عرصہ لگتا ہے۔ گرمیوں کے اختتام پر دم کے پر جھڑنے لگتے ہیں اور سردیاں شروع ہوتے ہی دوبارہ نکل آتے ہیں۔ جب مور اپنی دم کو چنورکرکے رقص کرنے لگتا ہے تو سینہ تان کر ادھر ادھر گھومتا ہے پھر کانپ کر اپنے پروں کو جھٹکتا ہے جس سے ہلکی سی کھڑکھڑاہٹ پیدا ہوتی ہے۔ موسم برسات میں جب گھنگھور گھٹائیں جھوم کر آتی ہیں اور بادل گرجنے لگتے ہیں تو جنگل کی فضا موروں کی آوازوں سے گونجنے لگتی ہے اور وہ فرط مسرت سے رقص کرنے لگتے ہیں جن لوگوں نے یہ دلکش منظردیکھا ہے وہ اسے عمر بھر فراموش نہیں کرسکتے۔ مور کی آواز بڑی دلکش اور درد بھری ہوتی ہے۔ عام طور پر یہ بچے کی آواز سے مشابہت رکھتی ہے جب یہ مست ہوکر بولتے ہیں تو پی آو ‘ پی آو کی آوازیں نکالتے ہیں اور خطرے کے وقت کااواں‘ کااواں کرکے چنگھاڑتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جنگل کے باسیوں میں مور بہت ہوشیار اور چالاک پرندہ ہے۔ ایک ماہر لکھتا ہے: ”مور سانپ کی طرح تیز ہے‘ بلے کی مانند گھات لگاتا ہے اور دشمنوں سے چوکنا رہتا ہے۔“ افزائش نسل کے سلسلے میں مور کے بارے میں مشہور ہے کہ جب وہ مست ہوکر اپنی مورنی کے سامنے ناچتا ہے‘ تو اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے ہیں۔ مورنی ان آنسووں کو زمین پر گرنے نہیں دیتی‘ بلکہ پی جاتی ہے ا ور پھر وقت مقررہ پر انڈے دینے لگتی ہے لیکن ماہرین فطرت اس نظریے سے متفق نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ افزائش نسل کا سلسلہ موروں میں بھی دوسرے پرندوں کی طرح ہوتا ہے ۔ عام طور پر ایک مور کے حرم میں کم از کم تین اور زیادہ سے زیادہ چھ مورنیاں ہوتی ہیں۔ مورنیاں دانہ دنکا چگتی رہتی ہیں اور مور اپنے پروں کے حسن کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں۔ وہ کبھی کبھی اپنے آقا کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھ لیتی ہیں۔ عام روایت ہے کہ مور اور سانپ روز اول سے ایک دوسرے کے جانی دشمن ہیں۔ اس کے متعلق بعض مذہبی کتب اور ان کی تفاسیر میں بھی اشارے ہیں۔ مور کسی سانپ کو دیکھتے ہی بڑی چالاکی سے اس کے قریب جاتا ہے اور اس کے گرد چکر کاٹ کر اسے ڈسنے کی ترغیب دیتا ہے۔ پہلے پہل وہ اسے مارنے کی کوشش نہیں کرتا۔ اسے صرف ستانے اور تنگ کرنے میں لطف لیتا ہے۔ کبھی کبھی سانپ کو چونچ بھی مارتا ہے جس سے وہ زخمی ہوکر بے بس ہوجاتا ہے۔ اب مور اسے چونچ میں پکڑ لیتا ہے اور سارے کا سارا نگل جاتا ہے۔ مور گو جنگل کا پکھیرہ ہے لیکن اسے پکڑ لیا جائے تو وہ قید کو برضا ورغبت برداشت کرلیتا ہے ۔ امیر لوگ اسے پالتو جانور کی طرح پالتے ہیں۔ دنیا کا کوئی چڑیا گھر اس حسین و جمیل پرندے سے خالی نہیں۔ مور کے خوبصورت پروں سے کئی قسم کی چیزیں بنائی جاتی ہیں مورچھل‘ پنکھے اور جھاڑو بنا کر لوگ اچھے داموں فروخت کرتے ہیں۔بچے اس کے پروں سے اپنی کتابوں میں نشانیاں رکھنے کا کام لیتے ہیں۔
Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 749 reviews.