عبدالمجید مغل صاحب وثیقہ نویس نے یہ واقعہ سنایا ہے کہ میں عرصہ دراز سے اسٹام فروش ہوں اور وثیقہ نویسی کرتا ہوں ‘کہنے لگے میرے سامنے شب وروز کئی سلگتے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔ ان میں سے ایک واقعہ قارئین کی نذر ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ایک بزرگ میرے واقف کار تھے۔ ان کاشہر میں بہت اچھی جگہ پر ذاتی مکان تھا جو کہ تعمیری اعتبار سے بہت خوبصورت بنا ہوا تھا‘ اچھی مالیت کا تھا‘ بزرگ کے تین بیٹے تھے اور مکان اتنا بڑا تھا کہ ان کے تینوں شادی شدہ بیٹے بڑی آسانی سے اس گھر میں زندگی کے شب وروز بسر کررہے تھے۔ بزرگ کافی عمر رسیدہ تھے۔ ایک دن بڑا بیٹا اپنے بزرگ کے ساتھ آیا اور مشورہ کیا کہ سارا مکان اس بڑے بیٹے کو تملیک کردوں۔ میں نے سمجھایا کہ آپ ایسا نہ کریں‘ مکان اپنے نام رہنے دیں‘ کسی کو تملیک نہ کریں۔ آج جو آپ کی خدمت ہورہی ہے وہ صرف مکان کی وجہ سے ہے‘ بیٹوں کو آپ سے کوئی محبت نہیں ہے۔ بڑے بیٹے نے میری اس بات کوگراں سمجھا۔ مجھے عجیب نظروں سے دیکھا اور اپنے بزرگ کو تقریباً کھینچتے ہوئے دکان سے لے گیا۔ دوسرے دن تینوں بیٹے اکٹھے ہوکر آئے اور بزرگ نے مشورہ مانگا۔ میں نے وہی مشورہ دیا کہ مکان تملیک نہ کریں۔ تینوں بیٹے مجھ سے ناراض ہونے لگے کہ آپ مشورہ مت دیں اور تملیک نامہ رجسٹرڈ کرادیں۔ میں نے پھر بھی بزرگ کو منع کیا کہ تملیک رجسٹری نہ کروائیں۔ تملیک کرانے کے بعد بیٹوں نے آپ کو گھر سے نکال دینا ہے۔
ایسا محسوس ہوتا تھا کہ بیٹوں نے بزرگ کو مجبور کردیا ہے کہ مکان ہمارے نام تملیک کردیں۔ تملیک نامہ لکھا گیا اور بزرگ نے سارا مکان اپنے تینوں بیٹوں کے نام تملیک کردیا۔ اب قانوناً اور ریکارڈ کے مطابق بیٹے اس مکان کے مالک تھے اور بزرگ کا مکان سے کوئی کوئی تعلق باقی نہ رہا تھا۔ تملیک نامہ کے 15 دن بعد وہ بزرگ روتے ہوئے میرے پاس آئے اور کہا کہ بیٹوں نے روٹی دینا بند کردی ہے۔ میں نے سمجھا کر انہیں واپس گھر بھجوا دیا۔ 15 دن بعد دوبارہ میرے پاس آئے۔ انکی حالت پہلے سے نہایت ابتر تھی۔ کہنے لگے کہ بیٹوں نے گھر سے نکال دیا ہے۔ کاش میں اس وقت آپ کاکہا مان لیتا اور مکان تملیک کرکے نہ دیتا۔ مغل صاحب کہنے لگے کہ میں نے بزرگ کو کہا کہ آپ میرے ساتھ میرے گھر چلیں اور گھر میں رہیں۔
جیسی ماں ویسی بیٹی
آج کل معاشرہ جس ڈگر پر چل رہا ہے اور جو ثقافتی یلغار ہورہی ہے اور جس روشن خیالی اور اعتددال پسندی کے خوبصورت نعروں میں ہم پھنس گئے ہیں وہاں سے نکلنا بہت ضروری ہے۔ ورنہ سارا نظام تباہ و برباد ہوجائیگا اور یہ روشن خیالی کا سیلاب ہم سب کو خشک و تر کو بہا کر لے جائیگا اب بھی وقت ہے ہم اپنے گھروں‘ بیوی‘ بچوں کو سنبھال سکتے ہیں۔ ایک دوست بہت پریشان بیٹھے تھے پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں کہنے لگے کہ میرے بچے رات دیر تک ٹی وی دیکھتے رہتے ہیں اور خاص طور پر بچوں کی ماں رات گئے تک ٹی وی پر انڈین ڈرامے دیکھتی رہتی ہے اور رات کو دیر سے سونے کی وجہ سے صبح نہ تو بچے نماز پڑھتے ہیں اور نہ ہی بیوی نماز پڑھتی ہے۔ میں کہہ کہہ کر تھک گیا ہوں مگر میری کوئی بات ہی نہیں سنتا۔ گھر والے کہتے ہیں کہ پرانے خیالات کا آدمی ہوں اور میرے اندر کسی بوڑھے کی روح آگئی ہے۔ میرا دوست کہنے لگا کہ میں اسی پریشانی میں بیٹھا تھا کہ اچانک بچوں کی نانی کا فون آگیا کہ میں بچوں کو ملنے کیلئے آرہی ہوں۔ میں خوش ہوگیا کہ چلو بزرگ خاتون آرہی ہیں۔ وہ نیک اور پانچ وقت کی نمازی ہوں گی انہیں کہوں گا کہ بچوں کو خاص طور پر اپنی بیٹی کو نصیحت کریں کہ وہ پانچ وقت نماز پڑھا کرے۔ بچوں کی نانی اماں پہنچ گئیں میں مل کر اپنے دفتر چلا گیا۔ یہ سوچا کہ رات جب بچے سوجائیں گے پھر یہ بات کروں گا۔ رات کو جب گھر واپس آیا تو دیکھا کہ نانی اماں بچوں کے ساتھ بیٹھ کر بڑے مزے سے انڈین ڈرامے دیکھ رہی ہیں اور پچھلی قسطوں کا بھی حوالہ دے رہی ہیں اور ان پر تبصرہ بھی کررہی ہیں۔ میں حیران رہ گیا۔ سوچا اچھا فجر کی نماز کے بعد بات کروں گا۔ نانی اماں خیر سے صبح 9 بجے سو کر اٹھیں کہنے لگیں بیمار رہتی ہوں اس لیے صبح جلدی اٹھ نہیں سکتی۔ دوست کہتا ہے مجھے اتنا دکھ ہوا اور میں سوچنے لگا کہ بیٹی تو بیٹی ماں کا بھی یہی حال ہے وہ بھی نماز سے کوسوں دور ہے۔ بوڑھی نانی بھی اتنی ہی انڈین ڈراموں کی شوقین ہے جس قدر نوجوان لڑکیاں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں