حیران تھا کہ قدموں کو کیا ہوگیا ہے کیوں نہیں اٹھ رہے اور ڈر کیوں محسوس ہورہا ہے کیونکہ سامنے کچھ نہ تھا جس جگہ سے قدم اٹھاتا پھر وہیں رکھ دیتا۔ ایسا معلوم ہوتا کہ زمین نے میرے قدموں کا زور ختم کردیا ہے اور ہلنے کی اجازت نہیں دیتی۔
ہمارا گاوں دیہات میں ہے۔ میں سات میل دور سکول پڑھنے جایا کرتا تھا۔ اس زمانہ میں سڑکیں نہ تھیں۔ ان دنوں موسم سرما کی چالیس چھٹیاں دی جاتی تھیں۔ دو فروری کو ہر سال حاضری ہوتی تھی۔ فروری کا مہینہ تھا‘ معمولی بارش تھی۔ میں صبح سویرے سکول چلا گیا۔ چھٹی ہوئی‘ واپسی پر میرے ساتھ اور بھی لڑکے سنگ ہوگئے جن کے گھر میرے گھر سے آدھا کلومیٹر کے فاصلہ پر تھے۔ بارش کبھی تھم جاتی کبھی شروع ہوجاتی۔ کپڑے بھیگ گئے۔ ہم برف کے گولے بناتے ایک دوسرے کو مارتے اور دوڑتے ہوئے راستہ طے کرتے رہے۔ گھر کا فاصلہ تقریباً نصف میل رہ گیا وہ لڑکے مجھ سے جدا ہوکر اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوئے۔ میں اکیلا رہ گیا۔ عمر میں میں سب سے چھوٹا تھا۔ انہوں نے ہمدردی کی بنا پر مجھ سے کہا بھی تھا کہ اگر ڈر لگتا ہو تو ہم تمہیں گھر چھوڑ آئیں میں جسمانی طور پر دبلا پتلا تھا مگر اللہ نے ہمت دی ہوئی تھی ڈر کو نزدیک نہیں آنے دیتا تھا۔ میں نے انہیں جواب دیا کہ شکریہ‘ کیا ڈر ہے‘ یہ تھوڑی سی جگہ کراس کروں گا۔ نیچے سامنے گھر ہے۔ آپ خوشی سے مطمئن ہوکر اپنے گھروں کو جائیں جہاں سے میرے ساتھی مجھ سے جدا ہوئے اس جگہ کوئی دو سو گز کے قریب ایک جب تھا جس کو ہم جبڑا کہتے تھے۔ بارش کا پانی اس میں جمع ہوتا اور مال مویشی وہاں سے دن کو اپنی پیاس بجھاتے۔ سخت اندھیرا تھا‘تقریباً 7 بجے کا وقت ہوا ہوگا۔ برف باری زوروں پر تھی۔
زمین پر چاروں طرف برف کی چمک تھی۔ اندازے کے مطابق راستہ پر قدم رکھتا اور اکیلے ہونے کی وجہ سے لگاتار آیت الکرسی کی تلاوت کرتا چلا گیا۔ جونہی میں جبڑے پر پہنچا اچانک میرے دل میں کچھ خوف ڈر سا محسوس ہونے لگا۔ ایک دم میرے قدم رک گئے۔ پریشان ہوکر ادھر ادھر نگاہ اٹھائی۔ جبڑا ویران جگہ پر تھا۔ دور دور مکانات تھے۔ کسی انسان کی آواز نہ سنائی دی اور تو اور کتے بھی خاموش تھے۔ بلند آواز سے آیت الکرسی پڑھتا رہا۔ حیران تھا کہ قدموں کو کیا ہوگیا ہے کیوں نہیں اٹھ رہے اور ڈر کیوں محسوس ہورہا ہے کیونکہ سامنے کچھ نہ تھا جس جگہ سے قدم اٹھاتا پھر وہیں رکھ دیتا۔ ایسا معلوم ہوتا کہ زمین نے میرے قدموں کا زور ختم کردیا ہے اور ہلنے کی اجازت نہیں دیتی۔ تقریباً پانچ سات منٹ کھڑا رہا۔ ڈر لگ رہا تھا کہ کدھر جاوں‘ کیا کروں افسوس بھی کررہا تھا کہ ساتھیوں کو ساتھ نہ لاسکا۔ اللہ کا کرنا اچانک کچھ فاصلہ سے ٹلیاں (گھنٹیاں) بجنے کی آوازیں سنائی دیں۔ ان دنوں لوگ ٹلیاں گدھوں اور بیلوں کو ڈالا کرتے تھے۔ اس زمانے میں لوگ گدھوں پر شلجم مولیاں وغیرہ لاد کر لایا کرتے تھے۔ ٹلیوں کی آوازیں سن کر لوگ گھروں سے سردی اور برف باری میں باہر نکلتے اور خریدتے تھے۔ فوراً مجھے خیال آیا کہ سبزی والے آگئے ہیں میں خوش ہوا۔ جان میں جان آئی قدم اٹھائے اور دوڑتا گیا۔ کافی دور تک برف میں پھنستا پھنساتا چلتا گیا۔ کہیں بھی گدھوں یا خچروں کا نشان تک نہ تھا۔ دوسرا کوئی راستہ نہ تھا۔ حیران تھا کہ گدھے یا خچر کہاں گئے؟گھر کے تھوڑے فاصلہ پر ایک پتھر سے ٹھوکر لگی اور منہ کے بل گرپڑا‘ برف آدھ گز سے زیادہ تھی۔ چوٹ نہ آئی مگر اٹھنے کی سکت نہ تھی۔ ہاتھ پاوں سردی کی وجہ سے شل (سن) ہوگئے تھے۔ وہیں پڑا رہا۔دل میں فریادیں کرنے لگا کہ اب کس طرح گھر جاوں گا جو کہ اب صرف چند گز کے فاصلہ پرتھا۔
پانچ دس منٹ راستے میں پڑا رہا۔ نیچے بھی برف اوپر سے رحمت برس رہی تھی اتنے میں ہمارے پڑوسی امام مسجد صاحب کے کھانسنے کی آواز آئی۔ وہ تھوڑے ضعیف تھے۔ ان کے ایک ہاتھ میں لکڑی کی کھونڈی تھی اور دوسرے میں ٹارچ تھی۔ مجھے جینے کا حوصلہ ملا۔ جونہی ان کی نظر مجھ پر پڑی فوراً مجھے اٹھایا۔ کہنے لگے کہ تم اس وقت اس موسم میں اکیلے کیوں آئے ہو؟ اگر میں نہ آتا تو تم اس برف میں تڑپ تڑپ کر مرجاتے۔ انہوں نے میرے گیلے کپڑوں اور سر وغیرہ سے برف جھاڑی اور کندھے پر اٹھایا اور گھر پہنچادیا۔ میری دادی اماں مجھ سے بہت پیار کرتی تھیں‘ انہوں نے پریشانی میں کھانا نہیں کھایا تھا وہ مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئیںاور مولوی صاحب کا شکریہ ادا کیا۔ میں نے گھر والوں کو سارا قصہ سنایا انہوں نے کہا آئندہ اس موسم میں گھر سے باہر نہ جانا۔ میں نے ان سے پوچھا وہ گدھے یا خچر جن کی گھنٹیوں کی آواز میں نے سنی تھی وہ کدھر گئے ہونگے؟ راستہ میں نہیں تھے اور اس کے علاوہ کوئی راستہ بھی نہیں ہے‘گھر والوں نے کہا اللہ تعالیٰ نے تمہیں آیت الکرسی کی وجہ سے بچالیا ہے۔ باقی گدھوں کا علم مالک الملک کو ہی ہے۔
Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 539
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں