Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔

بچے خوفزدہ کیوں ہوتے ہیں (فوزیہ جمیل، لاہور)

ماہنامہ عبقری - مئی 2010ء

خوف انسان کی فطرت میں شامل ہے اور خوف کے سبب انسان ہمیشہ سے اپنی حفاظت پر آمادہ رہا ہے اور موت و تباہی سے اپنا دفاع کرتا رہا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر بچہ وقتاً فوقتاً خوف زدہ ہوتا رہتا ہے لہٰذا ہمیں بچوں کے خوف زدہ ہوجانے سے پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ ماریہ کی بیٹی سارہ نے ڈر کی وجہ سے برقی زینے پر قدم رکھنے سے انکار کیا تو سہیلی کو غصہ آنے لگا۔ ہوا یوں کہ سارہ رواں برقی زینے پر سے اترتے ہوئے گرپڑی اور پھر اس کے دل میں ڈر بیٹھ گیا۔ پانچ سالہ سارہ کے چوٹ نہیں لگی لیکن وہ ایسا ڈری کہ برقی زینے کودیکھتے ہی چیخیں مارنے لگتی تھی۔ ڈانٹ ڈپٹ کا بھی کوئی فائدہ نہ ہوا۔ کچھ عرصے بعد سارہ نے خود اپنے خوف پر قابو پالیا۔ ایک دن وہ اپنی سہیلی کے ساتھ بازار گئی۔ سہیلی نے بھاگ بھاگ کر برقی زینے پر چڑھنا اترنا شروع کیا تو سارہ نے بھی اس کی نقل شروع کردی اور پھر اس کا ڈر نکل گیا۔ اس نے سوچا کہ اگر احتیاط برتی جائے تو وہ نہیں گرے گی۔ ایک ماہر کا کہنا ہے کہ صبرو تحمل اور افہام وتفہیم کے ذریعے سے بچوں کے خوف کو دور کیا جاسکتا ہے۔ بعض والدین بچوں کے خوف کو ”قطعی فضول بات“ کہہ کر ٹال دیتے ہیں اور اسے بالکل اہمیت نہیں دیتے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح بچے کا خوف دور ہوجائے گا لیکن ہوسکتا ہے کہ بچہ اپنے خوف کو والدین سے منوانا چاہتا ہو اور یہ چاہتا ہو کہ اس کی بات پر توجہ دی جائے۔ مختلف طرح کے خوف کا تعلق عمر کے مختلف حصوں سے ہوتا ہے۔ بچپن میں حقیقی اور خیالی باتوں میں تمیز کرنا مشکل ہوتا ہے لہٰذا کہانیوں کے بھوت پریت اکثر ایسی حقیقت کا روپ دھار لیتے ہیں جو بے حد ڈرائونی ہوتی ہیں رات کو بچہ اکیلا ہو تو بڑے بڑے کتے، بلندوبالا مقامات اور اجنبی چہرے اسے چار سال کی عمر تک ڈراتے رہتے ہیں۔ یہ بات بہت اہم ہے کہ ہم ایسے الفاظ ان چھوٹے بچوں کے منہ میں ڈالیں جن سے انہیں اپنے خوف کو بیان کرنے میں مدد ملے۔ اگر بچہ اپنے خوف کو بیان کرنے میں کامیاب ہوجائے تو یوں سمجھئے کہ اس نے خوف سے چھٹکارا پانے کی سمت میں ایک اہم قدم اٹھالیا ہے۔ چار سے چھے سال کی عمر تک کے بچے جن باتوں یا چیزوں سے زیادہ ڈرتے ہیں وہ ہیں اندھیرا، سانپ، طوفان، چوٹ لگنے کا خوف، اکیلے رہ جانے کا خوف اور والدین کی موت کا خوف۔ اس عمر میں بچوں کو یہ ڈر بھی لگا رہتا ہے کہ کہیں سکول میں ان کا پیشاب نہ نکل جائے، وہ کھو نہ جائیں اور انہیں سزا نہ ملے۔ جب بچہ سات سال کی عمر کو پہنچتا ہے تو پھر آئندہ پانچ سال تک عام طور پر اسے روحوں اور لٹیروں کا خوف گھیرے رہتا ہے۔ اسے یہ بھی ڈر رہتا ہے کہ وہ اپنی مقبولیت نہ کھو بیٹھے۔ اسے پارٹیوں میں مدعو نہ کیا جائے یا وہ دوسروں کے سامنے احمق نہ بن جائے۔ بارہ سے سولہ سال کی عمر ایسی ہوتی ہے جس کے دوران یہ خوف درپیش رہتا ہے کہ کہیں سکول میں ناکامی نہ ہوجائے، میل جول اور سماجی تعلقات میں خفت کا سامنا نہ کرنا پڑے، موت نہ آن دبوچے یا جنگ نہ چھڑجائے۔ اس کے علاوہ بچے کو یہ دھڑکا بھی رہتا ہے کہ اس میں کوئی ظاہری تبدیلی تو پیدا نہیں ہورہی۔ سولہ سال کی عمر کے بعد جن خدشات کا سامنا ہوتا ہے وہ اسی نوعیت کے ہوتے ہیں جس نوعیت کے خدشے بڑوں کو درپیش ہوتے ہیں۔ ان میں دو طرح کے اندیشے بہت عام ہیں ایک تو یہ کہ ہم سے کوئی محبت نہیں کرتا اور دوسرا یہ کہ زندگی میں مناسب مقام کے حصول میں ناکامی ہوئی ہے۔ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے سکول شروع کرتے وقت، گھر بدلنے کے موقع پر یا کسی بھائی بہن کی پیدائش کی وجہ سے بچوں میں خوف کی علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں یا کسی اور بڑی تبدیلی سے ایسا ہوجاتا ہے۔ یہ علامات جسمانی ہوتی ہیں اور یہ علامات عام طورپر ایسے بچوں میں نظر آتی ہیں جن کے خوف کو پہلے کبھی قابل توجہ نہیں سمجھا گیا۔ ان علامات کی وجوہ کبھی تو بالکل واضح ہوتی ہیں اور کبھی غیرواضح۔ مثلاً یہ کہ اگر ایک چھے سالہ بچہ پیٹ کے درد کی شکایت کرے تو ہوسکتا ہے اس کے سکول میں کچھ مسائل ہوں اور وہ سکول نہ جانا چاہتا ہو۔ یا یہ کہ ایک لڑکا کلاس میں بدتمیزی سے پیش آئے تو ممکن ہے اسے اپنے والدین میں طلاق کی وجہ سے پریشانی ہو۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ اگر بچوںکو نیند یا بھوک کے مسائل درپیش ہوں یا انہیں ٹانگ اور سر میں درد کی شکایت ہو تو اسے ٹالیں نہیں بلکہ اس پر توجہ دیں۔ ایک ماہر نفسیات ڈاکٹر برائن روئٹ کا کہنا ہے کہ ہمیں بچوں کو یہ موقع دینا چاہیے کہ وہ اپنے خوف کو بیان کرسکیں، خواہ یہ حقیقی ہو یا محض خیالی اور فرضی۔ یہ بھی خیال رکھیں کہ بچوں کو خود ان کے اپنے الفاظ میں اور تفصیل سے خوف کے بارے میں بتانے کا موقع دیا جائے۔ ڈاکٹر روئٹ کے مطابق ”میرے خیال میں بچے جو کچھ کہیں والدین کو اسے صحیح مان لینا چاہیے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اگر کوئی ہمارے خوف کے بارے میں توجہ سے سنے تو یہ خوف خودبخود ختم ہونے لگتا ہے۔ بہتر یہ ہوگا کہ اگر بچے کو کوئی حقیقی خطرہ لاحق نہ ہو تو ہم اس کے بیان سے خود نتیجے اخذ کرنا نہ شروع کردیں۔ ایسا خوف جسے اہمیت نہ دی جائے یا جھٹلایا جائے، ختم نہیں ہوجاتا۔ اگر کوئی بچہ یہ کہتا ہے کہ اس کے پلنگ کے نیچے کوئی بلا ہے یا بھوت ہے تو اس سے یہ نہیں کہنا چاہیے کہ یہ سچ نہیں ہے۔ ایسا کہیں گے تو گویا مطلب یہ ہوگا کہ اس کے احساسات کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ بہتر ہوگا کہ خود اس سے پوچھا جائے کہ اچھا اگر پلنگ کے نیچے بلائیں ہیں تو ان کا مقابلہ کس طرح کیا جائے یا کس طرح اس مسئلے سے نمٹا جائے؟ رفتہ رفتہ یہ بچہ خود بخود اس مسئلے سے نمٹنے کی کوشش کرے گا اور تجربہ اس کے خوف کو دور کردے گا۔ بچوں میں خود اعتمادی پیدا کرکے اور ان میں چیزوں کو سمجھنے اور جاننے کی صلاحیت پیدا کرکے بڑے احسن طریقے سے اس خوف کو دور کرنے میں بچے کی مدد کی جاسکتی ہے جو اس کے ذہن پر طاری ہے۔
Ubqari Magazine Rated 3.5 / 5 based on 452 reviews.