میں گورنمنٹ ہائی سکول میں پڑھتا تھا ہمارے ایک ہیڈماسٹر تھے چوہدری عبدالرزاق صاحب‘ وفات پاگئے‘ بہت ذمہ دار اور نہایت نظام اور نظم کو سنبھالنے والے انسان تھے۔ صبح آٹھ بجے سکول کا وقت تھا اسمبلی ہوتی تھی ان کا مزاج تھا کہ وہ ڈنڈا لے کر سکول کے مرکزی بڑے دروازے پر کھڑے ہوجاتے۔ ہر دیر سے آنے والے طالب علم کو دو ڈنڈے مارتے‘ ایک دائیں ایک بائیں ہاتھ پر اور ایک پیغام دیتے کہ آئندہ دیر سے نہیں آنا‘ ان کا بیٹا بھی وہیں پڑھتا تھااس معاملہ میں اس کو بھی معاف نہیں کرتے تھے میری کوشش ہوتی تھی جس کا دعویٰ نہیں کرتا کہ ہمیشہ جلدی جاؤں کالج تک میری یہی ترتیب اور ریت رہی
ایک مرتبہ میں دانستہ سکول میں دیر سے پہنچا‘ دل میں خیال آرہا تھا کہ ہیڈماسٹر صاحب کھڑے ہوں گے اور آج دو ڈنڈے لگنے ہی لگنے ہیں جو کسی طرح معاف نہیں ہونے۔ کچھ دعائیں‘ ذکر تسبیحات کررہا تھا دروازے پر پہنچا تو لائن لگی ہوئی تھی ہر دیر سے آنے والا دو ڈنڈے کھا کر ہی اپنی کلاس میں جارہاتھا جب میرے باری آئی تو فرمانے لگے ایک طرف ہوکر کھڑے ہوجاؤ‘ ساتھ ہمارے پی ٹی ماسٹر سر اکبر بھی کھڑے تھے ریٹائرڈ فوجی تھے‘ بہت زیادہ غصیلے تھے ‘ جب غصے میں آتے تھے جو منہ سے جھاگ اور تھوک بہت نکلتی تھی‘ دلکش انداز میں سگریٹ پیتے اور گالیاں بہت دیتے تھے‘ پھر ہمارے طالب علم جان بوجھ کر انہیں چھیڑتے بھی تھے‘ وہ ہیڈ ماسٹر صاحب کے ساتھ کھڑے ہوتے تھے اگر کوئی طالب علم بھاگنے کی کوشش کرتا یا کوئی بدتمیزی کرتا تو سر اکبر اس کو اس انداز سے لیتے تھے کہ گمان سے بالاتر۔
بڑوں کی نیکی نسلوں کے کام آتی ہے
جب سب کو سزا مل گئی تو مجھے کان سے پکڑا اور قریب کرکے کہنے لگے: تیری خاندانی عظمتیں میں جانتا ہوں تجھے پتہ نہیں اور تو دیر سے آنے والوں میں سے نہیںہے‘ نرمی سے کان سے پکڑا سختی سے نہیں‘ اور لہجہ میں بھی نرمی اور محبت تھی حالانکہ وہ سخت مشہور تھی‘ میری نظریں جھکی ہوئیں‘ بس میرے منہ سے ایک لفظ نکل رہا تھا کہ استاد جی‘ میرا قصور ہے میں دیر سے آیا ہوں‘ آپ کی مہربانی آپ نے معاف کردیا۔ مجھے کہنے لگے: تجھے پتہ ہے تیرا دادا کون تھا؟ اور تیرا پڑدادا کون تھا؟ اور اس کا والد کون تھا؟ کہنےلگے: ہم مہاجر ہیں آباد کار ہیں‘ ہمارے بڑے انڈیا سے آئے تھے لٹے پھٹےآئے تو کلیم میں ہمیں ریاست میں مکان اور کچھ جگہیں ملیں ‘ ہمیں کسی نے آپ کے داداؒ کے بارے میں بتایاکہ یہاں ایک سخی ہیں جن کے مزاج میں سخاوت ہے‘میں چھوٹا تھا میرے والد مجھے آپ کے داداؒ کے پاس لے گئے‘ آپ کے پڑدادا کو بھی دیکھا ہوا ہے‘ دراز قد تھے‘ بھاری جسم تھا اور پورا حلیہ‘ چہرہ‘ ان کا حسن و جمال‘ نور نورانیت اور محفل کی روح اور روحانیت سب بیان کیا اور ایک خوب لمبا چوڑا نقشہ کھینچا‘ مجھے حیرت ہورہی تھی کہ ہیڈماسٹر صاحب مجھے اور میرے خاندان کو کیسے جانتے ہیں اور واقعی جانتے اور خوب اچھی طرح جانتے تھے اور ان کا جاننا بھی کیا خوب تھا۔
وہ درویش سخاوت کی مثال تھے
فرمانے لگے: ان کا لنگر عام چلتا تھا‘ جتنے بھی مہاجر پردیسی تھے ان سب کو کھلاتے پلاتے تھے حتیٰ کہ ان کی غلطی‘ کمی بیشی کو بھی برداشت کرتے تھے کہنے لگے تیرے پڑداداؒ بہت جلالی تھے لیکن پردیسیوں مسافروں مہاجروںکے بارے میں ان کا لہجہ رویہ انداز بہت مشفقانہ اور شفقت بھرا تھا۔(جاری ہے)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں