اکثر دیکھا گیا ہے کہ والدین بچوں کی تربیت کے سلسلے میں قدرے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں یعنی وہ اکثر اس بات سے لاتعلق نظر آتے ہیں کہ ان کے بچے کیا کررہے ہیں؟ اور کس قسم کی سرگرمیاں ان کے لیے مثبت ثابت ہوسکتی ہیں یا منفی۔ دراصل آج کے اس تیز رفتار دور میں والدین نے اپنے آپ کو اس قدر مصروف کرلیا ہے کہ ان کے پاس اپنے بچوں کے لیے وقت ہی نہیں بچتا اور جو تھوڑا بہت وقت مل پاتا ہے تو وہ گھریلو مصروفیت کے باعث صرف ہو جاتا ہے۔والدین کو چاہئے کہ وہ اپنی تمام تر مصروفیات کے باعث بچوں کو ضرور وقت دیں کیونکہ والدین کی توجہ کے بغیر بچوں کی تربیت اور شخصیت کی تکمیل نامکمل رہتی ہے۔ انہیں بچوں کی نفسیات کو سمجھتے ہوئے یہ دیکھنا چاہیے کہ ان کے بچے ان سے کیا توقعات وابستہ کئے ہوئے ہیں اور وہ کیا چاہتے ہیں؟کوئی بھی بچہ جب اس دنیا میں آتا ہے تو اس کا ذہن ایک شفاف آئینے کی طرح ہوتا ہے اور یہ بات والدین پر منحصر ہے کہ وہ اس پر جو تشبیہ بنانا چاہیں بنا سکتے ہیں۔ یعنی بچے کو ابتداً جو کچھ سکھانا چاہتے ہیں وہ جلد سیکھ لے گا اور پھر جو بات اسے بتائی جائے گی وہ اس کے شفاف ذہن میں نقش ہو جائے گی۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ آپ بچے کو کس انداز میں سکھاتے ہیں اکثر والدین کو یہ کہتے سنا گیا ہے کہ ان کی مصروفیات کے باعث بچوں کو وقت نکالنا مشکل ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ بچوں کو وقت نہیں دے پاتے۔ اگرچہ یہ بات کسی حد تک درست ہے لیکن والدین کو اپنی تمام تر مصروفیات کے باوجود ایک ایسی حکمت عملی اپنانی چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کے لیے تھوڑا وقت نکال کر ان کی مناسب تربیت میں اہم کردار ادا کریں اور اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ بچوں کو کھانے کی میز پر اپنے ساتھ ضرور بٹھائیں اور انہیں کھانے پینے کے آداب و اطوار سکھائیں کیونکہ جب تک آپ بچے کو کچھ بتائیں اور سکھائیں گے نہیں تو وہ کیسے سیکھ سکتا ہے اور یہ ایک فطری بات ہے کہ بچے بڑوں سے سیکھتے ہیں اور بڑوں کی تمام حرکات و سکنات کا ان پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔ اس لیے بڑوں کو بھی چاہیے کہ وہ کھانے کی میز پر تمام آداب ملحوظ خاطر رکھیں۔ البتہ اگر بچے کھانا کھاتے ہوئے کوئی الٹی سیدھی حرکت کریں تو بجائے انہیں غصہ دکھانے اور ڈانٹ ڈپٹ کرنے کے پیار و محبت سے سمجھائیں کیونکہ بچوں پر پیار و محبت کا جلد اثر ہوتا ہے اور ویسے بھی بچوں میں یہ بات قدرتی طور پر پائی جاتی ہے کہ وہ دوسروں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی غرض سے عجیب و غریب حرکتیں کرتے رہتے
ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کا زیادہ سے زیادہ اعتماد حاصل کریں تاکہ بچے بغیر کسی جھجک کے ان سے اپنے مسائل اور خواہشات بیان کرسکیں۔ اس طرح وہ اپنے والدین کو اپنا دوست سمجھتے ہوئے انہیں اپناہر مسئلہ باآسانی بتاسکتے ہیں اور اس طرح والدین اور بچوں کے مابین مثبت رویے پروان چڑھتے ہیں جس سے والدین کے لیے بچوں کی شخصیت کی تربیت میں آسانی پیدا ہوتی ہے اور بچے کی شخصیت کی تکمیل مثبت انداز میں ہوتی ہے جو والدین کے لیے موثر ثابت ہوتی ہے۔اگر والدین اس بات پر بخوبی غور کریں کہ ان کے بچے اپنی ہر ضرورت اور مسئلے کے لیے صرف ان پر ہی انحصار کرتے ہیں اس لئے انہیں اپنے بچوں کی ہر بات پر متوجہ ہونا چاہئے اور یہی کوشش کرنی چاہئے کہ وہ اپنے بچے کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارنے کی کوشش کریں۔ ماں باپ میں سے اگر دونوں ہی بہت مصروف ترین زندگی گزار رہے ہوں تو ان میں سے کسی ایک کو بچے کو زیادہ وقت دینے کی کوشش کرنی چاہئے اگر والدین بچوں کی نفسیات کو سمجھتے ہوئے ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت ان کی تعلیم و تربیت کرنے کی کوشش کریں تو اپنے اور بچوں کے مسائل کوباآسانی حل کیا جاسکتا ہے اور اس طرح والدین اور بچے دونوں ہی اپنی اپنی جگہ خوش اورمطمئن دکھائی دیں گے اور زندگی پرسکون انداز میں گزار سکتے ہیں اور ان کی خواہشات کے مطابق بچے کی شخصیت بھی نکھر کر سامنے آسکتی ہے۔
بچوں میں ڈر یا خوف ایک عام کیفیت ہے‘ تاہم اس مسئلے سے نگاہیں چرانا اور والدین کا اس معاملے کو سنجیدگی سے نہ لینا سراسر غلط عمل ہے کیونکہ حقیقی یا غیر حقیقی خوف کے نتیجے میں بچوں کی شخصیت مسخ ہونے کا خدشہ رہتا ہے۔ بچوں میں خوف یا ڈر کی نوعیت مختلف ہوسکتی ہے کچھ بچے اندھیرے سے خوف کھاتے ہیں کچھ بچے اکیلے بند یا خالی کمرے سے کتراتے ہیں‘ ایسے بچوں کے ساتھ زبردستی کرنا ہرگز درست نہیں ہوگا‘ کیونکہ اس طرح ان کا ڈر کم ہونے کے بجائے بڑھتا چلا جائے گا یہ کوشش کی جائے کہ بچے کو اندھیرے سے جس قدر ممکن ہو دور رکھا جائے ۔ ایسے کمرے جو خالی رہتے ہوں وہاں ان کے مختلف اوقات میں بچوں کے ساتھ کئی دفعہ آئیں جائیں۔ اگر لائٹ نہ ہو اور چھت پر وقت گزارنا ہو تو بچوں کو دلچسپ کہانیاں سنائیں۔ بچوں کو ایمرجنسی لائٹ استعمال کرنے کا طریقہ بتائیں۔ اکثر بڑے خود بچوں کے دلوں میں خوف بٹھادیتے ہیں جو بعض اوقات ساری عمر ان کے دل و دماغ میں رہتا ہے۔معالج کے پاس جاکر انجکشن لگوانا بھی بچوں کا عمومی خوف ہے‘ اس کی بنیادی وجہ بھی والدین کا عام طور پر یہ جملہ ہوتا ہے مثلاً ’’تم بات نہیں مانو گے تو تمہیں سوئی (انجکشن) لگوادیں گے‘‘ اس خوف کو دور اور کم کرنے کیلئے بچے کو کسی معالج کے پاس لے جائیں اور اسے بتائیں کہ معالج کیسے مریض کی تکلیف دور کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔بچوں کو خیالی شکلوں‘ سایوں یا خود ساختہ آوازوں سے ڈرانا بھی غلط ہے۔ ایسے بچے تیز آوازوں میں متحرک سائے دیکھ کر بھی خوف زدہ ہوجاتے ہیں۔ بچوں کو سزا کے طور پر خالی اندھیرے کمروں میں بند کرنا بھی ان کے دل و دماغ میں زندگی بھر کیلئے خوف بیٹھ جانے کا سبب بن سکتا ہے۔ بچوں کو تعمیری کاموں میں مصروف رکھیں۔ انہیں ایسی کہانیوں سے دور رکھیں جو ان کے دلوں میں ڈر یا خوف پیدا کریں بچے ڈراؤنی کہانیاں پڑھ کر ان دیکھی شکلیں اپنے ذہنوں میں بٹھا لیتے ہیں اور ڈرنے لگتے ہیں۔ ڈراؤنے قصے حادثات کی تصویریں اور دہشت زدہ کرنے والی خبریں بھی بسا اوقات انہیں خوفزدہ کرتی ہیں‘ بچوں کا دھیان مختلف دلچسپ کھیلوں کی طرف لگائیں۔ (باقی صفحہ نمبر53 پر)
(بقیہ: بچے خوفزدہ کیوں ہوتے ہیں؟)
بعض بچے توجہ حاصل کرنے کیلئے بھی ڈر یا خوف کی اداکاری کرتے ہیں۔ اسی طرح بعض بچے زیادہ بہادر بننے کی کوشش میں اصل ڈر چھپانے کی کوشش کرتے ہیں‘ کچھ بچے روزمرہ کے کام جیسے نہانے حتیٰ کہ جھولا جھولنے سے بھی خوف زدہ رہتے ہیں اس لیے والدین کو چاہیے کہ بچے کا ڈر چاہے حقیقی ہو یا غیرحقیقی اس کا بغور جائزہ لیں اور اس کو ختم کرنے کی کوشش کریں۔ ضرورت پڑنے پر معالج سے بھی مشورہ کریں اس امر کو ہرگز نظرانداز نہ کریں ورنہ آگے چل کر یہ ڈر بچے کا شعور بھی متاثر کرسکتا ہے اور اس کی شخصیت پر منفی اثرات مرتب کرنے کا بھی سبب بن سکتا ہے۔
(فرحت شاہین، کراچی)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں