(پروفیسر طارق ریاض ،لاہور)
میں اپنے معاشرہ میں دیکھتا ہوں تو لوگ صحت کے لحاظ سے برے حالات سے دو چار ہیں۔ شاید ہی کوئی ایسا شہری ملے جو کسی مرض میں مبتلا نہ ہو۔ جہاں ہم صرف جسمانی امراض کی بات کررہے ہیں۔ لیکن اگر روحانی امراض بھی شمار کرلیں تو معاملہ طول پکڑ لے گا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہمارے معاشرے میں لوگ بیمار کیوں رہتے ہیں؟ اس معاملے کا بغور جائزہ لیا جائے تو اس کی بڑی وجہ حفظان صحت کے مقررہ اصولوں سے انحراف ہے اور زندگی بسر کرنے کا غیر فطری ڈھنگ ہے۔
جہاں تک حفظان صحت کے اصولوں کا تعلق ہے توپورے معاشرہ میںشاید چند افراد ایسے ہوں گے جو ہر لحاظ سے ان اصولوں کی پاسداری کرتے ہوں گے وگرنہ صحت و زندگی کے معاملات میں بھی ہم کسی قاعدے قانون کے پابند نہیں۔ ہوسکتا ہے کہ آپ کو یہ باتیں بری محسوس ہوں لیکن دیکھ لیجئے کتنے لوگ ہیں جو ہر بار ہاتھ دھوکر کھانا یا کوئی اور شے کھاتے ہیں اور ہمیشہ اس کا خیال رکھتے ہیں کہ ہاتھ دھوئے بغیر کچھ نہیں کھانا۔ شاید چند سو افراد ان پر عمل کرتے ہوں۔ اشیاء کھلی پڑی ہوں، ان پر مکھیاں بھنبھنا رہی ہوں، گردپڑ رہی ہو،برتن گندے پانی میں دھل رہے ہوں، ہماری نظروں کو نہ جانے کیا ہو جاتا ہے کہ ہم سب کچھ دیکھتے ہوئے اور جانتے ہوئے بھی یہ زہر اپنے بدن میں معدے کی راہ اتار لیتے ہیں۔ آپ نے بھی ایسے کئی افراد دیکھے ہوں گے جو ابھی تک ناک کان میں انگلیاں مارہے ہیں اور دوسرے لمحے انہی ہاتھوں سے جسم پر خارش کررہے ہیں جب کہ اگلے لمحے بغیر ہاتھ دھوئے کھا پی رہے ہیں۔ اب بھلا بیمار نہ ہوں تو کیا ہوں؟ہمارے بیمار رہنے کی ایک وجہ ناقص غذا لینا بھی ہے۔ کچھ لوگ تو جان بوجھ کر پیسے بچانے کی خاطر غیر معیاری اور ناقص خوراک اور اشیائے خوردونوش خرید لیتے ہیں لیکن یہ بات بھول جاتے ہیں کہ دو چارسو روپے بچاتے بچاتے طبیب یا ڈاکٹر کو0 200 روپے دینا پڑ جاتے ہیں۔
ہمارا زندگی بسر کرنے کا انداز بھی ہمیں بیمار کرنے اور بیمار رکھنے میں کارفرما ہے۔ مثلاً لوگ دو قدم چلنا بھی گوارہ نہیں کرتے۔ گویا جب حرکت ہی نہیں تو فالتو مادے کیونکر جسم سے خارج ہوں گے۔ چکنائیاں الگ جسم میں جمع ہوکر موٹاپا پیدا کریں گی جو خود کئی امراض کی جڑ ہے۔ پوری نیند نہ لینا، خواہ مخواہ راتوں کو جاگنا، دیر سے سونا، پیدل نہ چلنا، مالش نہ کرنا، بے وقت کھانا کھانا، کھا کر بیٹھے رہنا اور یہ علم نہ رکھنا کہ کس قسم کی غذا کب لینی ہے۔ یہ وہ امور ہیں جو ہماری صحت مند زندگی میں سب سے اہم رکاوٹیں ہیں۔ حالانکہ یہ بات طے ہے کہ قانون فطرت توڑنے سے قدرت کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس کے قانون اور قانون توڑنے کی سزا اٹل ہے۔
خوراک ہمیشہ اپنی عمر، جنس اور پیشے کے اعتبار سے منتخب کرنا چاہئے۔ اب ہمارے ہاں ہوتا یہ ہے کہ جو سارا دن مزدوری، کھیتی باڑی یا مشقت کررہا ہے وہ تو لیتا ہے عام غذا اور وہ لوگ جو پورا دن آرام دہ کرسیوں اور صوفوں پر چڑھے رہتے ہیں، حرکت برائے نام کرتے ہیں، وہ مرغن اور چکنائیوں سے پر غذائیں استعمال کرتے ہیں۔ گویا اوّل الذکر درکار توانائی حاصل نہیں کرپاتے اور غذائی کمی کا شکار ہوکر بیمار پڑجاتے ہیں اور موخر الذکر غذائی زیادتی کے باعث صحت سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ہارٹ اٹیک، موٹاپا اور سانس پھولنا ایسے ہی افراد کی عام بیماریاں ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہم ابھی تک یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ صحت کے اصولوں پر عمل پیرا ہوئے بغیر صحت کو برقرار نہیں رکھا جاسکتا۔
ہمارے بیمار رہنے کی ایک اور ضمنی وجہ ہم سب کا معالج ہونا بھی ہے۔ ہر شخص امراض پر بغیر تکان بول سکتا ہے۔ ادویات کے نام ازبر ہیں۔ گویا ہر شخص اپنا علاج خود کرسکتا ہے۔ یہ رحجان بھی غلط ہے۔ ضروری نہیں کہ جس دوا سے ایک شخص کو آرام آئے اسی سے دوسرا بھی شفاء پاجائے۔ معاملہ کچھ بھی ہو، ہم سب کو من حیث القوم یہ سوچنا ہوگا کہ ہم مسلمان ہیں۔ پاکیزگی و صفائی ہمارے ایمان کی نصف ہے۔ پھر دین اسلام کے وضع کردہ اصولوں پر عمل کئے بغیر جسمانی صحت کا حصول بھی ممکن نہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے؟
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں