درد کا بہانہ یا سچائی
میرا بیٹا تیسری جماعت میں پڑھتا ہے۔ ایک ماہ سے سکول جانے میں پریشان کررہا تھا۔ ہر روز پیٹ کے درد کا بہانہ کبھی سر کے درد کا ذکر ‘ہم لوگ اس کی چھٹی کروا لیتے پھر تنگ آکر زبردستی بھیجنا شروع کردیا۔ میں نے سکول جاکر ماحول پر غور کیا تو معلوم ہوا کہ اس کی نئی ٹیچر آگئی ہیں اور وہ بہت سخت مزاج ہیں۔ چھٹیاں کرنے کی وجہ سے بچوں کی پٹائی لگاتی ہیں۔ اب میں نے بچے کو باقاعدگی سے سکول بھیجنا شروع کردیا ہے لیکن پڑھائی میں وہ پہلے جیسا اچھا نہیں رہا۔(ح،لاہور)
مشورہ: بچہ اگر سکول کی چھٹیاں کرتا ہوتو اس کے والدین سے بات کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ پیٹ کے درد اور دوسری تکلیفوں کا ذکر وہ بھی خاص طور پر سکول جاتے وقت کرنا بہانہ تو ہوتا ہے لیکن یہ بہانہ جھوٹا نہیں ہوتا۔ جن بچوں کو کسی نہ کسی وجہ سے سکول جانے میں مشکل ہورہی ہوتو واقعی ان کے پیٹ میں درد ہوتا ہے‘ وہ جس تکلیف کا ذکر کرتے ہیں وہ ان کو ہوتی ہے اور صرف اس وقت تک ہوتی ہے جب تک سکول کا وقت ہوتا ہے۔ جب انہیں اطمینان ہو جاتا ہے کہ اب سکول نہیں جانا تو طبیعت بھی ٹھیک ہو جاتی ہے۔ بہرحال آپ اچھی ماں ہیں جو بچے کے سکول جاکر ماحول پر غور کرتی ہیں۔ اب سکول میں یہ بھی کہہ دیں کہ وہاں بچوں کی پٹائی نہ ہوا کرے۔ تشدد اور سختی کے بغیر تعلیم کے ساتھ بچے کی دلچسپی کو ازسرنو بیدار کرنا ہوگا۔
وہ اپنی غلطی ماننے کو تیار نہیں
میرے کزن کا حادثہ ہوگیا۔ میں اپنی بیوی کے ساتھ اس کو ہسپتال دیکھنے گیا لیکن اس کے کمرے میں نہ جاسکا۔ میری بیوی نے ہی اس کو میری طرف سے پوچھ لیا اور یہ بتا بھی دیا کہ میں باہر کھڑا ہوں۔ اس نے مجھ سے فون پر شکایت کی تو میں گھر جاکر بیوی پر ناراض ہوا۔ وہ اپنی غلطی ماننے کو تیار نہ تھی۔ میرے ساتھ مسئلہ ہے کہ میں کسی کو بیماری یا تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا۔ (ر۔ا، اسلام آباد)
مشورہ:اگر غیر جانب داری سے سوچیں تو غلطی آپ کی ہے۔ بیوی کو بھیجنے کے بجائے کزن کی مزاج پرسی خود کرنی چاہیے تھی۔ تقریباً ہر انسان ہی مشکلات اور مصائب میں گھرا ہوا ہے۔ بسا اوقات ہماری نگاہ ایسے لوگوں پر پڑتی ہے جو بے چارے کسی دکھ یا مصیبت میں مبتلا ہوتے ہیں۔ پرسکون زندگی گزارنے والے اچانک حادثے کا شکار ہوکر مشکل میں پڑجاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا حال پوچھنا نیکی ہے، اس کے ساتھ ان کو حوصلہ بھی دینا چاہیے اور دل میں خدا کاشکر ادا کریں کہ اس نے آپ کو تکلیف سے محفوظ رکھا۔ آئندہ کبھی کوئی ایسا موقع آئے جس میں کسی کی عیادت کرنا ہوتو اپنی گھبراہٹ پر قابو پاتے ہوئے ضرور ملاقات کریں۔
سب کچھ چھوڑ کر
میری چھوٹی بہن کی 8ماہ پہلے شادی ہوئی۔ تین ماہ پہلے وہ امریکہ چلی گئی۔ اس کی ساس وہاں اپنے بیٹے کے ساتھ پہلے سے مقیم تھیں، اب انہوں نے بہن کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب وہ کسی نہ کسی بات پر گھر میں جھگڑا نہ کریں‘ بہت شور کرتی ہیں۔ بہن وہاں اکیلی ہے۔ اس کے شوہر نے اس سے فون بھی لے لیا ہے کہ وہاں سے رابطہ نہ رکھ سکے اب بہن واپس آنا چاہتی ہے، یہ سوچ کر میں فکر مند ہوتی ہوں کہ والدین کو دکھ ہوگا اور لوگ کیا کہیںگے کہ اس کو گئے ابھی صرف تین ماہ ہوئے ہیں۔ (شبانہ‘ کراچی)
مشورہ:آپ کی بہن جس جگہ پر گئی ہے وہاں عورتوں کو بہت حقوق حاصل ہے۔ وہ کسی بھی طرح اپنی ساس کا ظلم سہنے پر مجبور نہیں۔ فی الحال عقلمندی کا تقاضا ہے کہ صبر سے کام لے کر ساس کے مزاج کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ بہن کوسمجھائیں بہت سے لوگ جو ہمارے ساتھ اچھے نہیں ہوتے ، اگر ہم ان کے ساتھ احسان کا معاملہ کریں تو دلی دوست بن سکتے ہیں۔ ابھی صرف تین ماہ ہوئے ہیں، گھر والے بھی یاد آتے ہوں گے ۔ حوصلہ سے کام لے کر شوہر کو احساس دلائیں کہ والدین سے بات کرنی کتنی ضروری ہے۔ شادی کے بعد اپنا ملک ہو یا اجنبی جگہ، ہر لڑکی کو چھوٹے یا بڑے امتحان سے گزرنا ہوتا ہے۔ وقت کے ساتھ حالات اور تعلقات سدھرتے جاتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ ایسے ذہنی مریضوں سے واسطہ پڑجائے جن کا علاج بھی نہ ہورہا ہو۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں