مجھے تمہاری پرواہ نہیں: ازدواجی زندگی پر ریسرچ کرنے والے ایک اور ماہر نے اسی لاتعلقی کے رویے کے بارے میں لکھا کہ اکثر معمولی تنقید بڑھتے بڑھتے جھگڑے کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔ لہٰذا ایک ساتھی مزاحمت سے دست بردار ہو جاتا ہے جبکہ دوسرا مطالبے پر ڈٹا رہتا ہے۔ جتنا زیادہ دوسری طرف سے شکایت اور تنقید بڑھتی ہے اس کے ساتھ دوسرا شخص اتنا ہی لاتعلقی برتتا چلا جاتا ہے۔ گویا یہ دوسرے کے لیے پیغام ہوتا ہے کہ مجھے اس کی باتوں کی کوئی پرواہ نہیں۔ بقول ڈاکٹر کیتھ سین فورڈ اگرچہ اس رشتے میں شریک حیات کو تنقید کا نشانہ بنانا کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ زیادہ تر ایسے رشتے سے وابستہ جوڑے پریشان ہیں۔ ان میں خود مختاری، کنٹرول اور فاصلے کو برقرار رکھنے کی خواہش ہوتی ہے۔ ماہرین میں سے کچھ کی رائے یہ تھی کہ وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ان کا ساتھی اپنی غلطی کا احساس کر لے گا،وہ بے چین تھے اور محسوس کررہے تھے کہ ان کو نظر انداز کیا جارہاہے۔ ان میں سے کچھ ایسے لوگ بھی تھے جنہیں یہ فکر ستا رہی تھی کہ کیا ان کا ساتھی ان سے محبت کرتا بھی ہے یا نہیں، نظر انداز ہونے کے احساس نے ان کے اندر دکھی اور تکلیف دہ جذبات پیدا کردیئے تھے۔
شخصی نظریات کا احترام کریں:آپ کی ازدواجی زندگی میں آپ اور آپ کے شوہر میں بہت سارے ایسے اختلافی نظریات پائے جاتے ہیں جو بالکل ایک دوسرے کے برعکس ہوتے ہیں۔ یہ وہ معاملات ہیں جو گویا قیامت تک حل ہونے والے نہیں ہیں۔ ان مسائل کے ساتھ کیسے نمٹنا ہے سب سے بہتر آپ خود جانتی ہیں۔ ایسا کچھ کریں کہ نہ سیخ جلے نہ کباب۔ مطلب دوسرے لفظوں میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ اپنی زندگی کی انتہائی سیاست کو استعمال کریں۔ اگر کہا جائے کہ برداشت اور درگزر سے کام لیں تو ہوسکتا ہے کہ آپ کے لیے یہ کوئی نئی بات نہ ہو یا آپ یہ بھی کہیں کہ یہ تو آپ کر ہی رہے ہیں چونکہ ہر کسی کا اپنا ایک سلیقہ اور عقیدہ ہوتا ہے وہ زندگی کو اپنے طور پر دیکھتا ہے، اصل مسئلہ وہاں کھڑا ہوتا ہے جب آپ دوسرے کو بھی وہیں کھڑا کرنا چاہتے ہیں حالانکہ ہم سب کو یہ بات جان لینی چاہیے کہ دوسرے کے خیالات اور عقائد اپنی جگہ قابل احترام ہوتے ہیں اگر آپ کا انداز زندگی کے آخری لمحے تک اپنی بات پر اڑے رہنے کا ہے تو مشکل ہی سے آپ دوسرے کے نکتہ نظر کو اہمیت دیتے ہوں گے۔ ضد اور ہٹ دھرمی کبھی اچھے نتائج نہیں دیتی۔ آپ کو دنیا کے ہر رشتے میں اور ہر انسانی تعلق میں کچھ ماننا اور کچھ منوانا پڑتا ہے۔ خواہ آپ کے خیال میںآپ کتنے ہی درست کیوں نہ ہوں۔ ایک دوسرے کی اہمیت تسلیم کریں:اگر آپکی زندگی میں ایک دوسرے کی اہمیت ختم ہوگئی ہے تو آپکی زندگی میں کچھ بھی نہیں رہا۔ ایک بچہ بھی یہ چاہے گا کہ اسے بہت ہی اہم سمجھا جائے اور آپ تو پھر عاقل و بالغ ہیں۔ میاں بیوی جب تنقیدی ہونے لگتے ہیں تو اس کا بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ دونوں میں یہ احساس بڑھنے لگتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کیلئے شاید اہم نہیں رہے یا کم از کم اتنے اہم نہیں رہے جتنا کہ انہیں ہونا چاہیے جبکہ اس رشتے کی مضبوطی کی اصل بنیاد ہی یہ ہے کہ آپ ایک دوسرے کے لیے ناگزیر ہوں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپکی محبتیں سدا بہار رہیں تو آپ کو ایک دوسرے کو ہمیشہ ایمانداری کیساتھ یہ احساس دلاتے رہنا چاہیےکہ آپکا پارٹنر آپ کیلئے بہت اہم ہے۔
ایک دوسرے کی تعریف کیجئے:انسانی تعلقات کے ماہر جان ڈیوی کا کہنا ہے کہ ’’اہم ہونے کی خواہش نسانی فطرت کی گہری ترین خواہش ہے۔‘‘۔ اسی طرح نفسیات کے ایک اور پٹرولیم جیمزکہتے ہیں کہ ’’انسانی فطرت کا اہم ترین تقاضا یہ ہے کہ اس کی تعریف کی جائے‘‘۔ میاں بیوی کی حیثیت سے آپ کو ایک دوسرے کی کاوشوں اور خوبیوں کی ہمیشہ تعریف کرتے رہنا چاہیے۔معذرت خوانہ انداز زیادہ پُر اثر: انسانی تعلقات کے ایک پروفیسر لکھتے ہیں کہ اگر آپ کی پسند کے مطابق کام نہیں ہوا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ اسے ہر صورت قول کرلیں یا اسی پر صب رشکر کرلیں۔ آپ کو بات چیت کا انداز ایسا اپنانا ہوگا کہ آپ کا کام بھی ہو جائےاور سامنے والے کوبُرا بھی نہ لگے۔ چھوٹے چھوٹے فقرے مثلاً ’’مجھے افسوس ہے کہ آپ کو زحمت ہوئی۔‘‘ ’’کیا آپ مائنڈ تو نہیں کریں گے؟‘‘ آپ کا شکریہ، ہماری روز مرہ کی زندگی میں اس قدر پُر اثر احساس چھوڑتے ہیں کہ ہمیں اس کا اندازہ نہیں ہوتا۔ پروفیسر کہتے ہیں کہ یہی انداز آپ اپنے گھر بھی آزماسکتے ہیں۔ وہاں بھی یہ اصول کارگر ثابت ہوگا اور ضرور آپ کا پارٹنر اس رویے کو بہتر محسوس کرے گا۔
آپ مصلحتاً شکست ماننا سیکھیں: یہ درست ہے کہ سچائی ہماری زندگی کا لازمی اصول ہوناچاہیے۔ اسے ہماری زندگی کے ہر ہر پہلو میں نمایاں ہوناچاہیے۔ لیکن سچی بات کہنے کا بھی ڈھنگ ہوتا ہے۔ سماجی رویوں کے ایک ماہر کے مطابق ’’آپ بالکل سچائی پر ہوسکتے ہیں چونکہ آپ اپنے دلائل میں بہت تیز ہیں لیکن جہاں تک آپ کے مدمقابل کے ذہن بدلنے کا تعلق ہے تو غالباً یہ اتنا ہی بے سود ہوگا جتنا کہ اگر آپ خود غلط ہوتے۔ شاید آپ بھی کبھی خود کو بدلنے پر تیار نہ ہوے۔ آپ وقتی طور پر شکست تسلیم کرکے حالات کا رخ موڑ سکتے ہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں