اکثر والدین رات ہونے پر یہ محسوس کرتے ہیں کہ انہوں نے سوائے بچوں سے لڑائی جھگڑے کے اور کوئی کام نہیں کیا۔ شاید ہی کوئی ایسا گھر ہوگا جہاں بچوں اور والدین کے درمیان روزانہ کسی نہ کسی بات پر گھر کا ماحول تلخ نہ ہوتا ہو خصوصاً ان گھروں پر جہاں بچے ذرا بڑے ہوں وہاں اس قسم کی باتیں معمول بن جاتی ہیں۔ بظاہر یہ بہت معمولی نوعیت کی باتیں ہوتی ہیں لیکن اس سے بعض اوقات بچوں اور والدین کے درمیان غیر مرئی سا کھنچائو پیدا ہو جاتا ہے۔
بچوں کے والدین سے لڑائی کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ یہ گھر کی چار دیواری تک ہی محدود ہوتی ہے۔ تاہم اس قسم کے معاملات سے نمٹنے کا طریقہ کار مختلف ہوتا ہے۔ یعنی والدین بچوں کی ان حرکات پر مختلف ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔ کچھ صرف پریشان ہونے پر اکتفا کرتے ہیں اور بعض پر بے بسی کی کیفیات طاری ہوتی ہیں اور کچھ والدین تشدد پر اتر آتےہیں اور عموماً بچوں سے الجھنے کا آغاز ناشتے کی میز سے ہی ہو جاتا ہے۔ صبح کا وقت بچو ں اور بڑوں دونوں کے لیے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ کچھ بچے ’’رات کے لوگ‘‘ ثابت ہوتے ہیں۔ وہ رات کو دیر سے سوتے ہیں اور لازمی طور پر صبح کو دیر سے بیدار ہونا پسند کرتے ہیں ظاہر ہے یہ صورتحال والدین کے لیے پریشانی کا باعث ہوتی ہے وہ انہیں وقت پر سکول بھیجنے کے خواہاں ہوتے ہیں۔ تاہم والدین کو یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ بچوں کے لیے آٹھ سے گیارہ گھنٹے کی نیند ضروری ہے وہ انہیں جگاتے وقت اس بات کا خیال رکھیں کہ کیا بچہ اپنی نیند پوری کرچکا ہے۔ اس کے علاوہ بچہ کو جلد سونے کے لیے تیار کریں اور اسے اس قسم کے مشاغل سے دور رکھیں جس میں اس کے رات دیر تک جاگنے کا احتمال ہو۔
دراصل بچہ سونے کا پہلے عادی ہوتا ہے اس کے بعد اسے سکول بھیجاجاتا ہے چنانچہ شروع شروع میں بچے کو اس ضمن میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اسے سکول کی نئی ذمہ داریاں بوجھ لگتی ہیں اور سکول جانے کا عمل تھکا دینے کی حد تک تکلیف دہ محسوس ہوتا ہے۔ یہاں والدین کو چاہئے کہ وہ اسے اعتماد دیں اسے بتائیں کہ سکول جانا اور تعلیم کا حصول اس کے لیے کتنا اہم ہے‘ ہمارا دل نہیں چاہتاتمہیں خود سے دور کریں۔ تمہیں جلدی اٹھائیں لیکن ہمیں تمہاری بہتری کے لیے ایسا کرنا پڑرہاہے۔
عام طور پر ایسا بھی ہوتا ہے کہ باپ رات کو دیر سے گھر آتے ہیں اور بچےان سے کھیلنا پسند کرتے ہیں خصوصاً ایسے بچے جن کا جھکائو باپ کی طرف زیادہ ہو لہٰذا لازمی طور پر بچے صبح دیر سے اٹھیں گے۔ بچے کو سکول میں داخل کرانے سے دو تین ماہ قبل اگر وہ رات کو دیر سے سونے کا عادی ہے تو اس کی عادت کو بدلنے کی کوشش کریں۔ اس طرح وہ آنے والے وقت کے لیے خود کو تیار کرے گا۔اس قسم کے معاملات سے نمٹنے کے لیے بہتر ہےکہ آپ ان کی تیاری کا پروگرام دومراحل میں تقسیم کرلیں۔ ان سےپوچھیں کہ کل آپ کو کسی چیز کی ضرورت پڑسکتی ہے اور یہ کہ آپ کل کونسا لباس پہننا پسند کریں گی۔ اگر آپ کا پروگرام کسی پارٹی میں جانے کا ہے تو ایک روز پہلے لباس کاتعین آپ کا وقت بچا دے گا اور سکول جانے والے بچے لازماً یونیفارم ہی پہنیں گے۔ ہو سکے تو انہیں شام کو ہی نہلا دیں اس طرح صبح سکول جاتے وقت آپ کے چند قیمتی منٹ بچ سکتے ہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں