Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔ --

جنات کا پیدائشی دوست‘علامہ لاہوتی پراسراری

ماہنامہ عبقری - جون 2020

جھونپڑی میں موجود بزرگ اور حیران شہزادہ
آخرکار وہ ایک جنگل میں داخل ہوا ‘جنگل بہت گہرا تھا‘ اندھیرا تھا‘ راستہ نظر نہیں آتا تھا ‘وہ جنگل میں چلتا رہا‘ چلتا رہا بعض اوقات کسی چیز سے اس کا گھوڑا ٹکرا جاتا تھا‘ آخرکار اسے دور تھوڑی سی روشنی نظر آئی ‘حیران ہواکہ وہ روشنی کیا ہے ؟وہ اس روشنی کی تلاش میں جب آگے بڑھا تو اس نے دیکھا کہ ایک جھونپڑی ہے‘ گھوڑے سے اترا ‘گھوڑا باندھا اور زور سے آواز دی ‘اندر سے کمزور سی آواز آئی کہ اندر آجاؤ وہ جھونپڑی کے اندر آگیا اور جھونپڑی کے اندر آکر اس نے دیکھا تو ایک بوڑھے بزرگ تھے‘ جو اس جھونپڑی میں بیٹھے ہیں اور ہاتھ میں تسبیح لیے کچھ ذکر کررہے ہیں‘ وہ بزرگ کے پاس جاکر خاموشی سے بیٹھ گیا ‘بزرگ آنکھیں بند کرکے جیسے رات کا ذکر کررہے ہیں ‘تسبیح پڑھ رہے تھے‘ جب وہ تسبیح اور ذکر کررہے تھے تو اس وقت شہزادہ خاموش بیٹھا رہا ‘اس نے ان سےکوئی گفتگو نہیں کی‘ تھوڑی ہی دیر کے بعد بزرگوں نے تسبیح منہ پر پھیری اور اس کی طرف متوجہ ہوئے اور فوراً اس کا نام لیا اور سارا واقعہ ہرن کی تلاش اور اس کےقتل کا بتادیا ‘یہ حیرت سے انہیںاسے دیکھتا رہا کہ یہ کیا باتیں ہورہی ہیں؟
اب انہیں دیکھتے دیکھتے اسے حیرت انگیز طور پر احساس ہوا کہ یہ بزرگ تومیرے دل کی ساری باتیں جانتے ہیں اور میری کہانی کو سمجھتے ہیں‘ اب اس نے اگلا سوال کیا کہ یاشیخ یہ بتائیے ! میں ولی عہد ہوں‘ ظلم وستم‘ گناہ‘ بدکاری لوگوں کے ساتھ چھینا جھپٹی یہ میں برداشت نہیں کرسکتا‘ ان حالات میں کیا کروں؟ بزرگ نے سرگوشی کے انداز میں اس جوان کو کچھ نصیحتیں کیں اور ایک کونے کی طرف اشارہ کیا جب اس کونے کی طرف یہ بڑھا تو وہاں تازہ گرم اور لاجواب کھانا پڑا ہوا تھا‘ یہ سارے دن کابھوکا تھا‘ یہ کھانا کھارہا تھا اور خیال کررہا تھا کہ پتہ نہیں مجھے سارا کھانا کھانا چاہیے یا نہیں‘ بزرگ نے فرمایا: یہ سارا کھانا تمہارے لیے ہی ہے۔ تم کھاجاؤ اور وہ بچھونا تمہارے لیے بچھا ہوا ہے‘ تم سو جاؤ‘ وہاں تمہاری سواری( گھوڑے) کے کھانے کا انتظام بھی ہم نے کردیا ہے‘ وہ بہت حیران ہوا کہ یہ میرے ساتھ کیا ہورہا۔
میں اس ’’بندر جن‘‘ کی باتیں سن رہاتھا ‘اس نے بنگال کے بادشاہ کی بات سنائی ‘مجھے حیرت ہورہی تھی اور احساس ہورہا تھا‘ یہ واقعات کتنے دلچسپ بھی ہیں اور عبرت انگیز بھی ہیں کہ ان واقعات کے اندر کتنی داستانیں‘ کہانیاں اور انجام پوشیدہ ہیں۔ میں حیرت انگیزطورپر ساری داستان سن رہا تھا‘ سارے واقعات سن رہا تھا اور مجھے ایک انوکھا نظام سامنے بالکل سامنے نظر آرہا تھا۔
کیا میرا ہرن مجھے مل سکتا ہے؟
بندر جن مزید بولا: آخرکار وہ شہزادہ سو گیا اور تھوڑی دیر میں گہری نیند میں چلا گیا‘ صبح اسے احساس ہی نہ ہوا اور بہت دیر سے اٹھا‘ اسے اپنے دیر سے اٹھنے کا بہت احساس ہوا اور بہت ندامت ہوئی‘ اٹھتے ہی اس نے دیکھاتو بہترین خوشبودار کھانا اور جنگل کی جڑی بوٹیوں کے مختلف قہوہ اس کا انتظار کررہے تھے‘ وہ حیران ہوا‘ بزرگ نے کوئی بات نہ کہی‘ساتھ ہی چشمہ بہہ رہا تھا‘ اس نے ہاتھ منہ دھویا‘ کھانا کھایا‘ پانی پیا‘ ترو تازہ ہوا ‘ کھانا کھانے کے بعد دیکھا تو اس کا گھوڑا پانی پی کر گھاس کھا کر صحت مند تھا اور ابھی مزید اس کے سامنے گھاس اور پانی پڑا ہوا تھا ۔ یہ سارے حیران کن واقعات وہ دیکھ رہا تھا۔ آخرکار اس نے اس بزرگ سے اجازت مانگی اور ایک سوال کیا کہ کیا میرا ہرن مجھے مل سکتا کہ جس ہرن کے بارے میں والد نے مجھے کہا تھا۔
کیا کوئی والد ایسا بھی ہوسکتا ہے؟
بزرگ نے کہا: بیٹا! تم ہرن کو چھوڑ کر اپنے محل میں چلے جاؤ تمہارا باپ تمہارا انتظار کررہا ہے ‘دیکھو! آئندہ کے لیے خیال کرنا یہ جو بھی لوگ تھے یہ ڈاکو اور شریر لوگ نہیں تھے یہ دراصل تمہارے والد کے بھیجے ہوئے لوگ تھے اور تمہارا والد تمہیں اپنی راہوں سے ہٹانا چاہتا ہے۔ایک دم اس کو جھٹکا لگا یہ کیسے ممکن ہے؟ اس بزرگ کی کسی بات کو وہ جھٹلا بھی نہیں سکتا تھا لیکن اسے یقین بھی نہیں آرہا تھا کہ کیا کوئی والد بھی ایسا ہوسکتا ہے؟ جو اپنے بیٹے کو قتل کرادے اور اسے اپنی راہوں سےہٹا دے؟ اور اس بزرگ نے سرگوشی کے انداز میں اس شہزادے کو مزید احتیاطی تدابیر بتائیں اور احتیاطی تدابیر کے ساتھ ایک جڑی بوٹی کی پہچان کروا دی جو ہرجگہ مل جاتی ہے اور کہا کہ دیکھو اب اگلا وار تمہارے اوپر کھانے میں زہر ملا کر دینے کا ہوسکتا ہے‘ بیٹا یہ جڑی بوٹی روزانہ کھالیا کرو‘ تمہارے اوپر کوئی زہر اثر نہیں کرے گا اگر زہرتمہارے اندر چلا بھی جائے گا تو قے کےذریعےنکل جائے گا اور اس بوٹی کو کبھی نہ چھوڑنا اور کچھ بوٹی کے پتے اس بزرگ نے اس شہزادے کو کھلا بھی دئیے۔
رات کی تاریخی قبرستان کا سناٹا اوربندرجن
بندر جن کی باتیں قبرستان میں ‘میں بھی سن رہا تھا اور میرے ساتھ وہ میرے مسلمان جنات بھی بیٹھے ہوئے تھے جو ذکر اور تسبیحات کررہے تھے۔ رات کی تاریکی تھی قبرستان کا سناٹا تھا اور میں اس بندر جن کی باتیں بہت غور اور دلچسپی سے سنے جارہا تھا وہ بندر جن کہنے لگا وہ شہزادہ یہ ساری ہدایات اور بوٹی کے پتے ساتھ لے کر واپس ہوا اور اس کا گھوڑا دوڑ رہا تھا اور اس کا رخ اس کے محل کی طرف تھا جب محل کی طرف پہنچا اور اپنے باپ سے ملا تو اسے باپ بہت ہمدردی سے ملا کہ بیٹا تو رات کہاں تھا میں بہت پریشان تھا؟ اور یہ تیرا جسم‘ لباس اور زخم بیٹے نے ساری کہانی سنائی‘ باپ نے ایسے محسوس کروایا کہ جیسے اسے کسی چیز کا پتہ ہی نہیں اور بہت زیادہ دکھ رنج اور ہمدردی کا اظہار کیا۔ وہ دکھ درد اور رنج کی باتیں سنتا رہا۔ اس نے محسوس کیا کہ والد کی آنکھوں میں وہ محبت‘ وہ شفقت نہیں ہے جو پہلے تھی۔ اب والد کی آنکھوں میں بھی انتقام کی آگ ہے‘ اب وہ چیز نہیں ہے جو پہلے تھی‘ اب وہ یہ سوچتا رہا‘ آخرکار والد نے اسے کہا کہ اب تم بیٹا اپنے کمرے میں جاؤ جہاں والد نے پہلے سے تدبیر یہ سوچی تھی کہ ایسی مرہم پہلے سے تیار کروا رکھی تھی کہ جس کے اندر زہر ملی ہوئی تھی تاکہ زخموں کی دوا جسم پر لگائیں اور وہ زہر اس دوا کے ذریعے جسم پر اثر کرجائے اور یہ ختم ہوجائے۔ جب اس کے والد نے دوا کی بات کہی تو اسے اچانک اس بزرگ کی بات یاد آئی کہ دیکھو اگلا وار تم پر زہر کا ہوگا‘ اس نے خیال کیا پہلے میں اس جڑی بوٹی کے پتے کھالوں اس نے آتے ہی اپنے خاص ذاتی غلام سے کہا کہ پتے پہلے سے اکٹھے کرکے لاؤ وہ اپنے شاہی کمرے میں گیا اور چپکے سے اس نے بہت سے پتے کھالیے اور باقی پتے سنبھال کر رکھ لیے اور معتمد قابل اعتماد غلام کو کہا کہ وہ تروتازہ پتے اکثر لایا کرے اور رکھا کرے اور مجھے بار بار کھلاتا رہا کرے۔ اب اس نے وہ پتے سارے کھالیے اور کھانے کے بعد اس نے پٹی باندھنے والے جراح اور زخموں کا علاج کرنے والے جو کہ شاہی محل میں موجود ہوتے ہیں ان کو بلالیا‘وہ جراح آگئے اس کا علاج شروع کیا‘ زخموں کو صاف کیا‘ ان میں ایک جراح ایسا تھا جس کی آنکھوں میں شیطانیت تھی‘ کینہ اور بغض تھا‘ شہزادہ ولی عہد عاقل بالغ سمجھدار تھا‘ وہ سمجھ گیا کہ یہ وہ شخص ہے جو میرے باپ کے ساتھ ملا ہوا ہے اور میرے باپ نے اس کی ڈیوٹی لگائی ہے مجھے زہر کے ذریعے قتل کرانے کیلئے‘ شہزادہ مطمئن تھا‘ تھوڑی دیر ہوئی اس نے زخموں پر دوا لگائی‘ مرہم پٹی کی۔ دوائی کے تھوڑی ہی دیر کے بعد جب وہ پٹیاں وغیرہ باندھ کر چلے گئے تو شہزادہ کو قے کی کیفیت ہوئی‘ کمرے سے باہر پھولوں کی کیاری تھی اس نے قے میں واضح زہر محسوس ہوا‘ اب اس کے بعد اس کے پاس فوراً یہی حل تھا کہ وہ فوراً وہ پتے کھائے‘ وہ اپنے شاہی کمرے میں گیا اور اس نے جی بھر کر وہ پتے پھر کھالیے‘ اور اسے اپنے بزرگ کی باتوں کا احساس ہوا کہ بزرگ نے کہا تھا کہ تم پر اگلا وار زہر کا ہوگا‘ اب وہ روزانہ اسی جڑی بوٹی کے پتے کھاتا رہا‘ شاہی کھانا بھی کھاتا رہا۔
میراباپ میری موت کیوں چاہتا ہے؟
چند دنوں کے بعد اس نے محسوس کیا کہ اس کا باپ الجھا الجھا سا ہے کیونکہ زہر دینے والوں نے کہا تھا کہ بس پٹی لگاتے ہی تھوڑی دیر کے بعد اس کا جسم تڑپے بغیر ساکت ہوجائے گا اور یہ مر جائے گا اور ہم کہیں گے کہ یہ شکار پر گیا تھا وہاں کے زخموں کی وجہ سے اور خون بہنے کی وجہ سے یہ مر گیا۔ ہم پوری مملکت میں موت کا اعلان کردیں گے۔ اب اگلے چند دنوں کے بعد اس نے اپنے باپ کے چہرے پر الجھاؤ‘ تناؤ‘ کھچاؤ اور گھبراہٹ محسوس کی اور اس نے محسوس کیا ۔ وہ حیران ہوا کہ یہ اس کے ساتھ کیا ہورہا ہے اب اس کی حیرت بڑھتی چلی گئی اب بادشاہ نے اپنے اعتماد رکھنے والے وزیروں کو بلایا کہ میں نے تو اس کو زہر دیا تھا‘ زہر نے اثر کیوں نہیں کیا؟ اب وہ سب حیران‘ آخرکار اس نے کہا کہ اس کے پاس زہر کا کوئی تریاق ہے اور کوئی ایسی چیز ہے جس کی وجہ سے زہر اس پر اثر نہیں کررہی اس کو بلایا اس سے حال احوال بادشاہ نے لیا اور باتوں ہی باتوں میں کریدا شہزادہ نے کچھ بھی نہ بتایا‘ انہی وزیروں اور مشیروں میں ایک شخص ایسا تھا جو شہزادے کا اعتماد رکھتا اس نے ولی عہد کو یہ ساری بات بتائی کہ کسی طرح آپ کو ان مرہموں میں زخموں کےعلاج میں زہردیا گیا اور ایسا خطرناک زہر دیا گیا کہ جس خطرناک زہر کی وجہ سے آپ کا نقصان ہوسکتا تھااب وہ حیران ہوئے شہزادہ حیران ہوا کہ میراباپ میری موت کیوں چاہتا ہے؟
لیکن اسے یہ بھی پتہ تھا کہ موت کو چاہنے کی بنیادی وجہ باپ میری واعظ و نصیحت کو برا سمجھتا ہے اور باپ چاہتا ہے کہ میں ختم ہوجاؤں‘ قتل ہوجاؤں‘ برباد ہوجاؤں ۔
بندر جن یہ باتیں سنارہا تھا میں سوچنے لگا کہ اس کے پاس صدیوں کے واقعات ہیں‘ صدیوں کے قصے ہیں‘ دن بیت جائیں راتیں بیت جائیں پھر صبح اور شام آجائے بندر جن کے واقعات ختم نہیں ہوں گے اور بندر جن کی کہانیاں کبھی ختم نہیں ہوں گی میں اس کے واقعات اور مشاہدات سن رہا تھا۔ آخرکار درمیان میں اسے روکتے ہوئے یہ بات کہی کہ اس قصے کو مختصر کریں اور بتائیں پھر کیا ہوا؟
یوں ایک عبرت اور ظلم کی کہانی ختم ہوئی
کہنے لگے: ہوا یہ کہ اور بہت دلچسپ بات ہے کہ ایک دفعہ اس نے پھر بیٹے کوکھانے میں زہر دیا‘ قدرت کا نظام ایسے بنا کہ جس کھانے میں زہر دیا تھا اور وہ زہر دینے والے نے کھانا ولی عہد کے سامنے رکھنا تھا وہ ولی عہد نے وہ کھانا اپنے باپ کے سامنے رکھا ولی عہد کو خود معلوم نہیں تھا اور بادشاہ کو بھی علم نہیں تھا کہ آج اس کھانے میں زہر ملا ہوا ہے‘ اچانک ماں نے بیٹے کو بلایا اور بیٹا اٹھ کر چلا گیا باپ نے کھانا کھایا اور تھوڑی ہی دیر میں وہ تڑپے بغیر مر گیا اور شہزادہ سمجھ گیا کہ جو زہرمجھے دینا تھا وہ زہر باپ پر اثر کرگیا اور باپ کا سخت نقصان ہوا اور باپ مرگیا یوں ایک عبرت اور ظلم کی کہانی ختم ہوئی اور رعایا نے ایک سکھ کا سانس لیا اور احساس کیا کہ ایک ایسے شخص اور بادشاہ کی حکومت اور مملکت آئی کہ جس کے ذریعے انسانیت کو سکون راحت اور خیر ملی اور جس کے ذریعے سے انسانیت کو نفع اور عافیت کا نظام ملا۔ انسانیت کو بہت دکھ پہنچا رہا تھا وہ ظالم اور اب سکھ ملا۔
قبرستانی جنات کی تباہ کاریاں
بندر جن نے اوربہت واقعات سنائے جو اس دفعہ اس جن سے مجھے سبق ملا وہ یہ ملا کہ قبرستان میں باقاعدہ جنات ہوتے ہیں‘ جو لوگوں کو فسق و فجور‘ گناہ‘ بدکاری کی طرف مائل کرتے ہیں اور جو لوگوں کو گناہوں کی طرف اکساتے ہیں وہ قبرستانی جن ہی ہوتے ہیں جس کی وجہ سے لوگوں کی زندگی میں پریشانی‘ بے سکونی‘ مشکلات مسائل اور دکھ اور تکالیف ہوتی ہیں۔ لوگ اسی پریشانی ‘مشکلات‘ دکھ‘ تکالیف میں اپنی نسلوں کو برباد کربیٹھتے ہیں اور ان کی نسلیں برباد ہوجاتی ہیں‘ اس لیے بعض کتب میں یہ واقعات آئے ہیں کہ قبرستان میں جب جائیں تو جنات سے حفاظت کے اعمال ضرور کریں اور بڑوں سے بات سنی ہے کہ قبرستان میں لوگوں کوجن چپک جاتے ہیں اس کی بنیادی وجہ وہ شریر اور شیطانی جنات ہیں میں نے اس بندر جن سے ایک بات پوچھی کہ یہ بتائیں جو لوگ مسنون دعاؤں کا اہتمام کرتے ہیں کیا آپ انہیں بھی نقصان پہنچا سکتے ہیں اس نے حیرت اور حسرت سے میری بات کا جواب دیا کہنے لگا: ان کو چاہتے ہوئے بھی ہم ان کا کچھ نہیں کرسکتے اور چاہتے ہوئے بھی ہم انہیں نقصان نہیں دے سکتے۔ اس کی وجہ ہے کہ ان لوگوں کے ساتھ ایک حفاظت کا نظام ہوتا ہے اور وہ حفاظت کا نظام ہم چاہ کر بھی نہیں توڑ سکتے۔
شریر جنات کو آگ لگانے کیلئے تعوذ پڑھیں!
جو لوگ مسنون دعاؤں کا اہتمام کرتے ہیں مسنون دعاؤں کو پڑھتے ہیں ان کا ہم کچھ نہیں بگاڑ سکتے وہ لوگ محفوظ رہتےہیں اور سدا حفاظت میں رہتے ہیں مجھے حیرت ہوئی کہ حفاظت کے اعمال کی کیا برکات ہیں‘ یہ خطرناک جنات شعلوں سے بنے ہوئے بھی انہیں کچھ نہیں کہہ سکتے۔ میں نے انہیں کہا کہ سب سے زیادہ کون سی چیز ہے جس سے آپ ڈرتے ہیں‘ کون سی تسبیح ہے‘ کون سا منتر ہے‘ کون سا وظیفہ ہے کہنے لگے: اَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم ہمیں بہت ڈراتا ہے اس لفظ سے ہم بہت خوف زدہ ہوتےہیں اور بہت خوف کھاتے ہیں‘ اور اس لفظ کی وجہ سے ہم تھرتھرا جاتے ہیں ہم خود(باقی صفحہ نمبر 55 پر)
(بقیہ: جنات کا پیدائشی دوست)
آگ سے بنے ہوئے ہیں لیکن اس لفظ کی جو طاقت ‘ہیبت ‘قوت اور قدرت ہے ہمیشہ ڈراتی ہے اور ہمیشہ خوفزدہ کرتی ہے‘ مجھے اس کی بات سن کر بہت حیرت ہوئی کہ سن کی بات میں کیا طاقت ہے‘ کیا تاثیر ہے‘ کیا وزن ہے اور مجھے ایک احساس ہوا کہ یہ لفظ جسے ہم خدانخواستہ کوئی اہمیت ہی نہیں دیتے یہ لفظ جنات کے ہاں کتنا بھاری ہے اور ہماری ہاں کتنا ہلکا ہے۔ میں اس بندر جن کی بات سن رہا تھا‘ میں نے دل ہی دل میں سانس روک کر اَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم پڑھا تو ایک دم کہنے لگا یہ کیا کیا آپ نے؟ میں نے کہا کیا ہوا؟ کہنے لگا: آپ نےوہ چیز پڑھی ہےجو میں نے ابھی بتائی ہے۔ کہنے لگا:میں ایک دم ہل کر رہ گیا ہوںاورایک دم ایسے ہوا کہ میں ختم ہوجاؤں گا‘ مجھے آگ لگ جائے گی آپ ایسا نہ کریں‘ یہ نہ پڑھیں‘ مجھے احساس ہوا کہ اس نے جو کچھ کہا ٹھیک کہا تھا کیونکہ میں نے نقد اس پر آزمایا تھا‘ میں اس کی باتوں سے بہت متاثر ہوا اور مجھے اس دفعہ جو جن ملا‘ خوب ملا اس نے مجھے بہت سبق دیا‘ میں نے اس سے دوستی اس لیے کی تھی کہ یہ جن میرے قریب آئے گا پھر میں اس کے ایمان اسلام اورہدایت کا اللہ کے خزانوں سے ذریعہ بنواؤں گا کہ اللہ اس کا دل بدل دے‘ کیونکہ بڑا سردار تھا اس کی بے بہا رعایا جنات تھی‘ میری دوستی اس سے چل رہی ہے‘ میری کوشش ہے کہ اس کو کلمے والی دولت نصیب ہوجائے اور ان شاء اللہ ہوگی۔ (جاری ہے)

Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 173 reviews.