میں دو سال سے بیمار ہوں ہر طرح کے ٹیسٹ کراچکا ہوں مجھے ہر وقت نت نئی بیماریوں کا خوف رہتا ہے۔ میرا سارا کاروبار دفتر کے لوگ سنبھال رہے ہیں۔ گھر میں بیوی پریشان ہے۔ لاکھوں روپے خرچ ہوچکے ہیں۔ مجھے ایسا لگتا ہے نفسیاتی مریض بن چکا ہوں۔ کوئی دم درود بھی نہیں چھوڑا۔ میرے تین بچے ہیں۔ بیوی محبت کرنے والی ہے مگر اب وہ بھی مجھ سے عاجز آتی جارہی ہے ۔ (وسیم بیگ، راولپنڈی)
آپ کا طویل خط میں نے بڑے غور سے پڑھا ہے۔ جن بچوں کو بچپن میں غیر ضروری لاڈ پیار اور تحفظ دیا جاتا ہے ان میں جوان ہوکر حالات سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔ کھانے میں نقص نکالتے ہیں، صفائی کا خبط رہتا ہے۔ اپنے علاوہ کسی کو صحیح نہیں جانتے۔ آپ کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ آپ کے مالی حالات بہتر ہیں۔ کاروبار جیسے تیسے چل رہا ہے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ بیوی آپ سے پیار کرتی ہے۔آپ پریشان نہ ہوں صبح اٹھئے نماز جسم اور ذہن کو تازگی بخشتی ہے۔ نماز پڑھ کرباپردہ اہلیہ کو ساتھ لیکر سیرکیلئے نکلئے۔ سورج نکلتا ہے تو پرندے کیسے پرواز کرتے ہیں۔ پھول کیسے کھلتے ہیں۔ اڑتے ہوئے پرندوں کو دیکھئے۔ آپ کو یہ سب کچھ بہت اچھا لگے گا۔اپنی خوراک میں تازہ پھل اور سبزیاں شامل کیجئے۔ خصوصاً دہی کی ایک پیالی ضرور کھائیے۔ آپ بیمار بھی نہیں ہیں۔ نفسیاتی مریض بھی نہیں ہیں۔ کسی دم کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ نماز کی پابندی کیجئے۔ جب کبھی الٹے سیدھے خیالات آئیں تو درود شریف پڑھ کر دعا کیجئے۔ دعا سب سے بڑی طاقت ہے۔ خالق کائنات کے سامنے سرجھکائیے آپ کا ذہنی تنائو کم ہو تا جائے گا۔ دو تین ہفتوں میں آپ اپنا کاروبار خود سنبھال سکیں گے۔
کھمبی کے بارے میں معلومات
میں کھمبی کاشت کرنا چاہتی ہوں۔ اس سلسلے میں معلومات درکار ہیں۔ اسے اگانے کے لیے کتنی زمین درکار ہے اور اس کے فائدے کیا ہیں۔ (شمائلہ،لاہور)
برسات کے موسم میں جگہ جگہ خودبخود کھمبی(مشروم) اگ جاتی ہے۔ بچے اسے سانپ کی چھتری کہتے ہیں۔ یہ پرانے دروازوں کے نیچے گلی سڑی لکڑی، کیاریوں میں نظر آتی ہیں۔ چھتری کے نیچے دھاریاں ہوتی ہیں۔ ان کو Gills کہتے ہیں۔ ان کے اندر کالے کالے دانے یا سپورز ہوتے ہیں۔ ان کی تعداد لاکھوں اربوں تک ہو سکتی ہے۔ پوری دنیا میں کھمبی کاشت کرنے کا رحجان بڑھتا جارہا ہے۔ ان سپورز کو پیک کرکے فروخت کیا جاتا ہے۔ اسے سبزی میں بھی شمار کیا جاتا ہے۔ ان میں حیاتین کا قدرتی خزانہ موجود ہے۔ باہر کے ممالک میں کھمبی کی مختلف اقسام اگائی جاتی ہیں۔ مزے کی بات یہ کہ درختوں پر جہاں جگہ ملے آپ اسے اُگا سکتی ہیں۔ چین کے لوگ درخت کے تنے پر کھمبی اُگاتے ہیں۔ ان کے لیے خاص طور پر جگہ اور زمین کی ضرورت نہیں۔ آپ ان کو ٹوٹی پھوٹی ٹرے۔ برتنوں اور حد یہ کہ چائے کی پیالی میں بھی لگاسکتی ہیں۔ اس سے بھی زیادہ مزے کی بات یہ کہ آپ ان کو پولی تھین کے لفافوں میں اگاسکتی ہیں۔ بیکار ٹرے میں چاول کی پرالی، بھوسہ کی تہہ لگا کر پانی سے تر کردیجئے۔ اس میں سپورز پھیلا دیجئے۔ ایک خاص درجہ حرارت میں اس ٹرے کو رکھ دیجئے۔ چند دنوں میں کھمبیاں پھوٹ آئیں گی اور پھر خوبصورت چھتریوں سے آپ کی ٹرے بھر جائے گی۔ آپ اپنی فصل کو چھری سے کاٹ کر دھوکر حسب مرضی پکا سکتی ہیں۔مشروم کو آپ تمام سال کاشت کرسکتی ہیں۔ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد پی سی ایس آئی آئی آر لیبارٹریز سے آپ کھمبی کے سپورز حاصل کر سکتی ہیں ۔ سفید رنگ کی کھمبی لذیز ہوتی ہے اسے زمین کی چیچک بھی کہا جاتا ہے۔ عرب میں لوگ اسے نبات الرعد یعنی آسمانی بجلی کی سبزی کہتے ہیں کیونکہ یہ بارش کے بعد نظر آتی ہے۔ یورپ میں مشروم کے کھانے لذت اور غذائیت کے اعتبار سے مشہور ہیں۔ چینی کھانوں میں مشروم کے کھانے لوگوں کو پسند آتے ہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں