محترم حضرت حکیم صاحب السلام علیکم!میرا تعلق پشاور کے ایک نواحی گائوں سے ہے‘ آپ ہمیشہ فرماتے ہیں کہ اپنے مشاہدات بھیجا کریں اور آپ نے اپنے ایک درس میں فرمایا تھا کہ آپ اکثر گورکنوں اور غسال وغیرہ سے انکے مشاہدات پوچھتے ہیں اور ان پر ایک کتاب مرتب کرنا چاہتے ہیں اس سلسلے میں میں آپ کو اپنے خاندانی مشاہدات بھجوا رہی ہوں امید ہے آپ اس کو پسند کرکے شائع کردیں گے۔ شروع میں اپنے پردادا سے کروں گی انکے نام لکھوں گی تاکہ سمجھنے میں آسمانی ہو۔ میرے پردادا بہت بڑے زمیندار تھے بہت امیر ہونے کے باوجود وہ انتہائی نیک اور بزرگ صفت تھے۔ ان کا کوئی بیٹا نہیں تھا اس لیے انہوں نے دو شادیاں کیں۔ سات بیٹیاں تھیں۔ بعد میں خدا نے ان کو بیٹا دیا ۔ انہوں نے اپنے بیٹے کے صدقے اور خدا کی رضا کیلئے اپنی جائیداد کا بہت بڑا حصہ غریبوں کو دیدیا۔ جب میرے دادا (میرے پردادا کے بیٹے) تقریباً سترہ سال کے ہوئے تو انہوں نے بیٹے کی شادی کروادی ایک دن جمعہ کی شب کو ان کو بخار ہوگیا تودادا سے کہا کہ میری چارپائی برآمدے میں ڈال دو اور جاکر اپنے ماموں کو بلوائو۔ یہ کہہ کر انہوں نے آنکھیں بند کرلیں۔ میرے دادا نے اپنے والد کے سینے پر سر رکھا تو اس سے لا الہ الا اللہ کی آوازیں آرہی تھیں انہوں نے جاکر ماموں کو بلایا۔ انہوں نے آکر دیکھا تو فرمایا کہ یہ فوت ہوچکے ہیں۔ لیکن ان کا دل زندہ ہے اور کلمہ پڑھ رہا ہے اور یہ دھڑکتا ہی رہےگا۔
دوسری طرف انکی قبر جب کھودی گئی تو جو صاحب قبر کھودنے والے تھے وہ لحد بہت بڑی بناتے تھے۔ اتنی بڑی کہ اس میں چلتے تھے پھر بھی مطمئن نہ ہوتے‘ قبر مکمل ہونے کے بعد انہوں نے لحد کی دیوار پر ہموار کرنے کیلئے کھدال پھیری تو اس سے ایکدم مٹی گرپڑی اور ایک لمبا طاقچہ بن گیا۔ اس میں انجیر کے گچھے کے گچھے پھیلے ہوئے تھے۔ عموماً بلکہ ہمیشہ انجیر الگ الگ تنے سے لگے ہوتے ہیں لیکن یہاں تو بڑے بڑے گچھے تھے۔ وہ صاحب بیٹھ کر انجیر کھانے لگ گئے۔ کافی دیر بعد لوگوں نے باہر سے دیکھا تو وہ بھی قبر میں اتر گئے اور تازہ تازہ پکے ہوئے انجیروں سے جھولیاں بھر بھر کر گھر لے جانے لگے۔ جنازہ لایا گیا تو میرے دادا بہت رو رہے تھے انکے ایک رشتہ دار نے کہا کہ مت رو تمہارے والد بہت عظیم انسان تھے کہ انکی قبر میں جنت کے انجیر آگئے ہیں اور میرے دادا کو چند دانے انجیر کے دانے دیئے کچھ انہوں نے کھائے اور ایک دانہ نشانی کے طور پر چھوڑ دیا اور وہ ابھی تک میری پھوپھو کے پاس تھا اسکے بعد جب میرے دادا کا وقت قریب آیا تو ایک ہفتہ پہلے انہوں نے خواب دیکھا کہ کچھ لوگ انہیں ان کو لینے آئے ہیں لیکن وہ دوسرا شخص کہتا ہے کہ نہیں ہم اگلی جمعرات کو آپ کو لینے آئیں گے۔ اگلی جمعرات میرےدادا بخار ہوگیا اور تھوڑی ہی دیر میں فوت ہوگئے۔ تجہیز و تکفین کے بعد قبرستان میں جب امام صاحب خطبہ دے رہے تھے تو اس وقت سخت گرمی تھی اور بہت دھول اڑ رہی تھی۔ لوگ قبر پر پانی ڈالنے کیلئے پانی لینے جارہے تھے کہ اچانک قبرستان کے اوپر بادل آگئے اور صرف قبرستان پر ہی ہلکی ہلکی بارش ہوگئی باقی علاقے میں دھوپ ہی دھوپ تھی لیکن قبرستان کے اندر لوگوں پر خوشگوار بارش ہورہی تھی لوگوں نے بہت اطمینان سے خطبہ سنا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں