میں نے ایک نجی یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ یہاں اکثر لڑکوں کے پاس مہنگی گاڑیاں ہیں، قیمتی موبائل فون ہیں، کئی تو نشہ کرتے ہیں۔ ان کی بے فکری اور لاابالی پن کو دیکھ کر حسرت ہوتی ہے کہ مجھے تو اپنی فیس کے لیے ہی کتنی بار کہنا پڑتا ہے۔ گھر والوں کو یہ رقم زیادہ لگتی ہے۔ احساس محرومی ہوتا ہے کہ میں ان چیزوں سے محروم کیوں ہوں؟ (محمد عظیم‘ اسلام آباد)
مشورہ:محرومی اور احساس محرومی میں فرق ہے۔ شاید ہی ایسا کوئی فرد ہوگا جو کبھی نہ کبھی قیمتی چیزوں سے محروم ہونے کے بارے میں اپنے دل میں خیال نہ لاتا ہو۔ کم یا زیادہ، چھوٹا یا بڑا، عارضی یا دائمی اس خیال کا شکار ہونا فطری سی بات ہے۔ اس کے ساتھ ہی خود کو مثبت انداز میں سمجھانا اور حاصل نعمتوں پر شکر کرنا سکونِ قلب و ذہن کا سبب بنتا ہے۔ آپ نے احساسِ محرومی کا ذکر کیا۔ یہ وہ احساس ہے جو جسم تو جسم روح کوبھی اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے اور اس کے لیے کسی مادی شے سے محروم ہونابھی ضروری نہیں، گھر والوں کی محبت کا اندازہ لگائیں کہ وہ مشکلات کے باوجود آپ کی فیس دے رہے ہیں۔ مادی چیزوں سے توجہ ہٹاکر تعلیم حاصل کریں۔ وقت کے ساتھ سب کچھ حاصل ہو جاتا ہے۔
زیادہ محنت
مجھے نفسیات کے مضمون سے بہت دلچسپی ہے۔ جب یونیورسٹی میں داخلہ لینے گیا تو وہاں دیکھا اس شعبہ میں لڑکیاں ہی لڑکیاں ہیں۔ واپس آگیا، دوبارہ چکر لگایا تو معلوم ہوا کہ دو لڑکے بھی ہیں۔ سوچا میں بھی داخلہ لے لوں۔ کوئی کہتا ہے ایم بی اے کرو۔ میرا ایک کزن سی اے کررہا ہے، مجھے ان مضامین میں دلچسپی نہیں اور یہ مشکل بھی بہت لگتے ہیں۔ داخلہ لے لوں اور پاس نہ ہوں تو بھی ٹھیک نہیں۔ بیرون ملک جانے کا موقع بھی ہے۔ شاید یہ موقع دوبارہ ملے نہ ملے۔ آج کل دماغ پر سوچوں اور خیالوں کا تسلط ہے۔ کسی فیصلے پر نہیں پہنچ رہا۔ ہر دوست اپنی فیلڈ کی تعریف کرتا ہے۔ (فہد، کوئٹہ)
نفسیات کے مضمون سے دلچسپی بہت لوگوں کو ہوتی ہے لکی ناس کا مطالعہ کم لوگ کرتے ہیں۔ آپ کی دلچسپی اتنی زیادہ ہے کہ اس کا شعبہ بھی دیکھ آئے تو اب داخلہ لینے میں دیر نہ کریں۔ اس مضمون کے ماہرین کی کمی ہے اور خاص طور پر لڑکے ماہر نفسیات کم ہیں جبکہ ڈاکٹروں میں سائیکاٹرسٹ بننے کا رحجان کسی حد تک نظر آتا ہے۔ یہ بات تو آپ کے حق میں جاتی ہے کہ ماہرین نفسیات کم ہیں۔ بیرون ملک اگر آپ امریکہ، کینیڈا یا یورپ جاتے ہیں تو وہاں ماہر نفسیات بہت مصروف ملیں گے اور آپ بھی مزید تعلیم حاصل کرکے اس پیشے سے منسلک ہوسکیں گے۔ زیادہ محنت کرنے والے زیادہ ترقی حاصل کرتے ہیں۔
دوستوںسے مشورہ
گزشتہ چند سال سے ہماری زندگی بہت بے سکون ہوگئی ہے۔ شادی کے پانچ سال بعد بیٹا ہوا پہلے بیوی میری ہر بات پر خاموش رہتی تھی مگر اب اس کو میری کسی بات کی برداشت نہیں رہی۔ غصے میں بچے کو ڈانٹ دوں یا تھپڑمار دوں تو وہ برا مانتی ہے اور اب تو ہماری لڑائی ہو جاتی ہے۔ میرا ایک دوست کہتا ہے وہ سمجھتی ہے کہ اب میں اس کو چھوڑ نہیں سکتا۔ پہلے ڈرتی تھی کہ رشتہ کچّا ہے۔ بچے کے بعد اس کی حیثیت مضبوط ہوگئی۔ میں بھی اس کو چھوڑنا نہیں چاہتا لیکن ذہنی سکون کی ضرور خواہش ہے۔(دانش، دبئی)
غصہ کرنے کی وجہ سے ذہنی سکون ختم ہوا ہے۔ میاں اور بیوی کا رشتہ اتنا خوبصورت اور مستحکم ہوتا ہے کہ اس میں بچوں کے ہونے یا نہ ہونے سے فرق نہیں پڑنا چاہیے۔ دوستوں سے مشورے لینے والے مطمئن نہیں پڑنا چاہیے۔ دوستوں سے مشورے لینے والے مطمئن نہیں ہو پاتے کیونکہ دوست مشورہ دینے کی پیشہ ورانہ مہارت نہیں رکھتے۔ وہ آپ کے سامنے آپ کی غلطیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے مروت سے کام لیتے ہیں اور جب آپ کے گھر میں سکون بحال ہو جاتا ہے تو بے سکونی والے لمحات کو یاد بھی دلادیتے ہیں۔ آپ نے یہ نہیں بتایا بچے کی عمر کیا ہے اس کو کس انداز میں ڈانٹا ہے اور تھپڑ مارنے کی وجہ کیا ہے۔ اس کی غلطی کیا ہوتی ہے؟ حیہ ساری باتیں بھی زیر غور لانی چاہئیں۔ مختصر یہ کہ آپ کو اپنی اصلاح کی ضرورت ہے۔ غصہ پر قابو پانے کی کوشش کریں معاملات بہتر ہو جائیں گے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں