بنی اسرائیل میں ایک عبادت گزار تھا۔ اس نے پہاڑ کی کھوہ میں اپنا مسکن بنا رکھا تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اس عبادت گزار کی خبر ہوئی تو آپ ایک دن اس کے پاس پہنچے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا: کیا آپ کی کوئی حاجت ہے؟ عبادت گزار نے جواب دیا: آپ میرے لیے پروردگار سے اس کی رضا و خوشنودی کی دعا کردیں اور میری یہ التجا بھی پہنچا دیں کہ وہ مجھے زندگی بھر صرف اپنی ہی خوشنودی کے کاموں میں مشغول رکھے حتیٰ کہ میں اس سے جا ملوں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام دعا و مناجات میں مشغول ہوگئے اور اپنے رب سے لذتِ کلام میں اس قدر ڈوب گئے کہ عبادت گزار کی باتیں یاد ہی نہ رہیں۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے پوچھا: آپ سے میرے عبادت گزار بندے نے کیا کہا؟ موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا: میرے پروردگار! تو ہی زیادہ جانتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا: اے موسیٰ! اس عبادت گزار کے پاس جائیے اور کہیے کہ رات دن جتنی عبادت چاہے کرلے، وہ بہرحال جہنمی ہے کیونکہ میرے صحیفے میں اس کا نام گنہگاروں کی فہرست میں درج ہے، موسیٰ علیہ السلام اس عابد کے پاس گئے اور پروردگار کے فیصلے سے اسے آگاہ کیا تو عابد نے کہا: سبحان اللہ! میں اپنے پروردگار کے فیصلے کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ پھر کچھ دیر بعد بولا: اے موسیٰ میرے پروردگار کے جاہ و جلال اور عزت و شان کی قسم! میں اس کے در سے پلٹنے والا نہیں اور اس فیصلے کو سن کر ہرگز مایوس نہیں بلکہ اب اپنے پروردگار سے میری محبت دوبالا ہوگئی ہے۔ اس کے بعد جب موسیٰ علیہ السلام دوبارہ اپنے پروردگار سے دعا و مناجات میں مشغول ہوئے تو عرض کیا: میرے رب! جو کچھ تیرے عبادت گزار بندے نے کہا ہے اس سے تو اچھی طرح واقف ہے۔ اللہ نے فرمایا: اے موسیٰ میرے اس بندے کو یہ خوشخبری سنا دیجئے کہ وہ جنتی ہے۔ میری رحمت نے اسے جالیا ہے۔ اسے یہ بھی بتا دیجئے کہ اس نے میرا یہ خوش کن فیصلہ اپنے صبر و رضا کے عوض حاصل کیا ہے۔ کیونکہ میرا سابقہ کڑوا فیصلہ سن کر بھی وہ چیں بہ جبیں نہ ہوا۔ (باقی صفحہ نمبر 55 پر)
(بقیہ: کامیابی کا صدیوں پرانا فارمولہ)
میں کریم اور غفار ہوں۔ جب موسیٰ علیہ السلام نے یہ خوشخبری اس عبادت گزار کو سنائی تو وہ سجدے میں گر گیا اور پروردگار کی حمد و ثنا کرنے لگا اور پھر اس طویل سجدے میں ہی اس نے جاں جان آفریں کے حوالے کردی۔ اللہ کے ہر فیصلے اور کام میں کوئی نہ کوئی حکمت ہوتی ہے جس تک انسان کی سوچ نہیں پہنچ سکتی۔ مگر جو بھی ان فیصلوں پر صبر کرے گا وہ ہی کامیاب ہوگا۔ صبر و قناعت ایسی و صف ہے جس سے انسان کی پریشانی او بے ینی سے دور رہتا ہے۔ آج کے دور میں جہاں ہر طرف نفسا نفسی اور افراتفری پھیلی ہے صبر کی اہمیت تو مزید بڑھ جاتی ہے کیونکہ جب صبر کا مادہ ختم ہو جاتا ہے تو مایوسی جنم لیتی ہے اور مایوسی کفر کی طرف سے جاتی ہے جبکہ صبر کا پھل ہمیشہ میٹھا ہوتا ہے چاہے دیر سے ہی ملے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں