Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔

دینو کی سچائی آپ کو بھی رُلا دے گی!

ماہنامہ عبقری - مارچ 2020

رسی کا ٹکڑا (ایاز دانش)
گائوں کا سالانہ میلہ زور و شور سے جاری تھا۔ ہر طرح کے لوگ اس میں شامل تھے اور میلے سے بھرپور طور پر لطف اندوز ہورہے تھے۔ اچانک ایک طرف سے ڈھولچی کی آواز آئی۔ وہ شاید کوئی اعلان کرنا چاہ رہا تھا۔ سب لوگوں نے توجہ اس کی طرف کی تو وہ بولا کہ ابھی کچھ دیر پہلے ایک شخص کا بٹوا گم ہوگیا ہے۔ اس کا بٹوا جس میں رقم اور کچھ کاغذات ہیں جس کسی کو ملے وہ گائوں کے نمبردار کے گھر پہنچا دے۔ اسے انعام دیا جائے گا۔
ایک چھوٹے سے گائوں کا یہ میلہ گائوں سے زیادہ دور نہیں بلکہ گائوں کے ساتھ ہی ذرا آبادی سے ہٹ کر لگایا گیا تھا۔ اس میں اگر گائوں کے سارے لوگ ایک ہی وقت میں جمع ہو جائیں تو بھی وہ چار پانچ سو سے زیادہ نہ تھے وہ سب ایک دوسرے کو جانتے تھے۔
تھوڑی دیر بعد پولیس دینو کو ڈھونڈ رہی تھی دینو کو جب معلوم ہوا تو وہ گھبرا گیا۔ پولیس اس تک پہنچ چکی تھی۔ اس نے اسے نمبر دار کے گھر چلنے کا کہا۔ سب لوگ سمجھ چکے تھے کہ یہی چور ہے۔ دینو گھبرایا ہوا نمبردار کے گھر پہنچا۔ نمبردار نے اس سے کہا کہ دینو گمشدہ بٹوا تم نے اٹھایا ہے، لہجہ پوچھنے والا نہ تھا بلکہ بتانے والا تھا کہ تم ہی نے اٹھایا ہے۔ دینو نے گھبرا کر کہا ’’مگر جناب! آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ میں چور ہوں‘‘۔ نمبردار نے بتایا کہ اسے بٹوا اٹھاتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔
’’مجھے بٹوا اٹھاتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔۔مم۔۔مجھے ۔۔مجھے؟ دینو اور گھبرا گیا۔
’’ہاں تجھے!‘‘نمبردار نے اس کی طرف گھور کر دیکھا۔
’’مگر مجھے کس نے دیکھا ہے؟‘‘
’’گامے کوچوان نے‘‘
نمبردار نے گامے کی طرف اشارہ کیا جو وہیں ایک طرف بیٹھا تھا۔ دینو نے گھبرا کر اس کی طرف دیکھا۔ وہ کہنے لگا کہ ہاں میں نے تمہیں اس وقت وہاں فلاں جگہ سے بٹوا اٹھاتے ہوئے دیکھا ہے اور پھر تم نے ادھر ادھر دیکھ کر وہ جیب میں ڈال لیا۔ دینو نے ذہن پر زور دیا اور پھر ایک سانس لے کر بولا:’’اوہ۔۔ہاں۔۔تم نے مجھے دیکھا ہے۔۔ ہاں ضرور دیکھا ہے مگر۔۔اصل بات تو کچھ اورہے۔۔میں نے تو اس وقت رسی کا یہ ٹکڑا اٹھایا تھا‘‘۔ دینو نے جیب سے رسی کا ایک مٹی سے بھرا ہوا ٹکڑا نکالتے ہوئے کہا۔ سب لوگ کہنے لگے کہ نہیں بھلا رسی کا یہ چھوٹا سا ٹکڑا اٹھانے کی کیا ضرورت تھی۔ نہیںہم یقین نہیں کرسکتے۔
نمبردار نے دینو سے کہا کہ دینو سیدھی طرح بٹوا نکال کر دے دے ورنہ پھر تمہار جو حشر ہوگا وہ تم جانتے ہو،
دینو کانپ گیا اور بولا: مگر جناب میں نے تو بٹوا اٹھایا نہیں ہے، میں نے تو رسی کا یہ ٹکڑا ہی اٹھایا تھا۔ میں بٹوا کیسے واپس کرسکتا ہوں‘‘
’’دینو تمہیں آج شام تک مہلت ہے بٹوا واپس کردیا تو ٹھیک ہے ورنہ انجام کے ذمہ دار تم خود ہو گے‘‘ تمبر دار نے کہا اور اسے واپس جانے کا حکم دیا۔ وہ بے چارہ قسمیں کھاتا رہا کہ میں نے صرف رسی کا ایک ٹکڑا ہی اٹھایا ہے، میںچور نہیں ہوں۔
وہ میلے میں واپس آگیا۔ ہر شخص کی زبان پر یہی سوال تھا کہ نمبردار نے دینو کو کیوں بلایا تھا۔ دینو نے انہیں ساری کہانی سنائی مگر کسی نے رسی والی بات پر یقین نہ کیا اور کہنے لگے کہ گاما کوچوان اعتماد والا آدمی ہے۔ وہ بھلا کیوں جھوٹ بولنے لگا۔ دینو واقعی چور ہے۔ دینو اپنے آپ کو سچا ثابت کرنے کے لیے جو کچھ کرسکتا تھا، اس نے کیا مگر ہر کوئی اسے چور سمجھنے لگا۔
شام کے وقت پولیس دینو کو پکڑنے کے لیے آئی مگر اسی دوران پتا چلا کہ بٹوا مل گیا ہے اور اس کے مالک تک پہنچ گیا ہے۔ دینو نے دل میں فتح محسوس کی مگر اب بھی کوئی اسے سچا ماننے کے لیے تیار نہ تھا۔ ہر کوئی اسی کو چور سمجھتا تھا۔
میلہ ختم ہوگیا مگر جہاں میلہ اپنی اور یادیں چھوڑ گیا، وہیں لوگوںکے لیے دینو کی چوری کی کہانی بھی چھوڑ گیا۔ جہاں کچھ لوگ مل بیٹھتے، دینو اور اس کی چوری کا واقعہ چھڑاجاتا۔ دینو اب بھی قسمیں اٹھاتا مگر ہر کوئی اسے چور ہی سمجھتا رہا اور یہ کہانی لوگوں میں عام ہوگئی اور لوگ یہ کہانی ایک دوسرے کو اپنے جنگی کارناموں کی طرح سنانے لگے۔
دینو اسی غم میں گھل گیا۔ وہ بستر مرگ پر پڑگیا۔ اسے افسوس تھا کہ وہ اپنے آپ کو سچا ثابت نہ کرسکا۔ وہ ’’میں چور نہیں ہوں۔۔میں چور نہیں ہوں۔ رسی کا ایک ٹکڑا۔۔ صرف رسی کا ایک ٹکڑا‘‘ چلاتا ہوا مرگیا۔ وہ قبر میں چلا گیا مگر لوگوں کی نظروں میں وہ اب بھی چور ہی تھا۔
کہتے ہیں کہ کچھ ہی عرصہ بعد ایک زبردست سیلاب آیا اور لوگوں سمیت ان کا سب کچھ بہا لے گیا مگر صرف ایک چیز بچی۔ ہاں وہ ایک چیز صرف دنیو کی قبر تھی۔ دینو کی قبر اپنی درست حالت میں قائم رہی اور باقی سب کچھ تباہ ہوگیا۔
بہت عرصے کے بعد اس کی قبر پر کسی نے یہ کتبہ لگایا: ’’یہاں ایک ایسا شخص دفن ہے جو اپنی سچائی ثابت نہ کرسکامگر سیلاب نے اس کی سچائی کو ثابت کردیا‘‘۔

 

Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 621 reviews.