میں شاید لالچ میں زیادہ ہی ان پر اعتبار کر بیٹھا اور اس مرغی نے میرے اندھےاعتبار کا خوب فائدہ اٹھایا۔ پیارے بچو! آپ بھی ایسی موٹی مرغیوں سے ہوشیار رہیے گا۔کبھی بھی لالچ نہ کیجئے کیونکہ لالچ میں انسان دماغ سے سوچنا بند کردیتا ہے۔
چرب زبانی والے دوستوں سے ذرا بچ کر
یوں تو ان گنت واقعات تقریباً ہر انسانی زندگی میں رونما ہوتے رہتے ہیں۔ کچھ واقعات بہت ہی خوشگوار قسم کے ہوتے ہیں۔ جنہیں ہم یاد کرکے مسکرائے بغیر رہ نہیں سکتے اور اسی طرح بعض واقعات بہت ہی افسوس ناک ہوتےہیں۔بعض واقعات سے ہم کوئی سبق، نصیحت اور دانش مندی کی کوئی بات حاصل کرتے ہیں کہ دنیا میں ایسے بھی لوگ ہیں جو اپنی چرب زبانی، بھولی بھالی شکل و صورت سے لوگوں کو طمع دے کر منٹوں میں کنگال کردیتے ہیں اور پھر ایسے غائب ہوتے ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔
اگست کی 13تاریخ بروز پیر حسب معمول میں نے اپنی دوکان کھولی تو ملازم نے جھاڑو وغیرہ دے دیا۔ میں اخبار لے کر بیٹھ گیا۔ ابھی چند خبریں ہی پڑھ پایا تھا کہ ایک سوٹڈ بوٹڈ، لمبی ٹائی والے بابو جی ایک پرانا موٹر سائیکل لے کر حاضر ہوئے، کہنے لگے:’’جی اسے دیکھنا؟‘‘میں نے کہا ’’کیا ہوا ہے اسے‘‘بابو صاحب کہنے لگے ’’میرا نیا موٹر سائیکل چند دن پہلے چوری ہوگیا ہے‘‘۔’’اوہ۔۔‘‘ میرے منہ سے بے اختیار نکلا۔’’خیر یہ پرانا موٹر سائیکل گھر میں کھڑا تھا،سوچا یہی ٹھیک کروالیا جائے‘‘۔’’یہ تو آپ نے بہت ہی اچھا فیصلہ کیا ہے‘‘ میں نے کہا۔
آج تو موٹی مرغی ہاتھ آئی ہے
کہنے لگا: ’’تو پھر اسے ٹھیک کردیں‘‘۔میں نے کہا ’’اس کے ٹائر ٹیوب تو نئے ڈالنے پڑیںگے۔ بہت خراب حالت میں ہیں‘‘۔وہ صاحب جھٹ بولے ’’بھائی صاحب جو چیز آپ سمجھتے ہیں کہ خراب ہے وہ نئی ڈال دیں‘‘’’کب تک چاہے آپ کو ‘‘ میں نے کہا۔’’جس دن آپ کہیں‘‘۔’’آپ پرسوں آکر لے جانا‘‘ میں نے کہا۔’’بھائی صاحب مجھے فٹ قسم کی موٹر سائیکل چاہیے اور خرچ کی پروا نہ کریں‘‘۔’’جناب کوئی مسئلہ نہیں‘‘ میں نے جواب دیا اور وہ صاحب چلے گئے۔
میں دل ہی دل میں بڑا خوش ہوا کہ آج تو ’’موٹی مرغی‘‘ پھنس گئی۔ میں نے تمام دن دوسرا کام ملازموں کے حوالے کردیا اور خود بھرپور توجہ اور محنت سے وہ پرانا موٹر سائیکل ٹھیک ہی نہیں، بقول بابوجی کے ’’فٹ‘‘ کردیا اور اب میں انتظار کررہا تھا کہ وہ بابو صاحب آئیں اور جلدی سے اپنی موٹر سائیکل لے جائیں۔ مگر میں نے تو اسے پرسوں کا وقت دے رکھا تھا۔ میں نے خود موٹر سائیکل چلا کر چیک کی تو وہ مجھے واقعی بالکل فٹ لگ رہی تھی۔
پیسے کی پرواہ نہ کریں موٹرسائیکل نئی کردیں
خیر اگلا دن بھی گزر گیا اور وہ دن آگیا جس دن بابو صاحب کو موٹر سائیکل لے کر جانی تھی۔ اس دن دوکان پر مختلف موٹر سائیکل ٹھیک کروانے والوں کا رش لگا رہا۔ تقریباً دوپہر کے وقت یہ رش تھما تو سکون سے کھانا کھایا۔ اتنے میں ایک رکشہ دکان کے آگے آکر رکا۔ اس میں سے وہی بابو صاحب نکلے۔انہیں دیکھ کر میری باچھیں کھل گئیں۔ خیر حوصلے سے کام لیتے ہوئے میں سیدھا ہوکر بیٹھ گیا۔’’ہاں جی ہوگیا ٹھیک؟‘‘’’جی بالکل! یہ کھڑ ی ہے‘‘ میں نے کہا۔’’کتنا خرچہ آیا‘‘’’جی سات ہزار دو سو چالیس‘‘ میں نے کہا۔وہ صاحب کچھ سوچنے لگے۔میں نے کہا ’’جناب آپ پہلے چیک کرلیں‘‘۔وہ صاحب بولے ’’جناب آپ نے کھل کر خرچ نہیں کیا۔ مزا نہیں آیا میں نے آپ کو کہا تھا پیسے کی پروا نہ کریں‘‘۔جناب آپ پہلے چیک تو کرلیں میں نے کہا۔’’ابھی تو میں شادی پر جارہا ہویہ لائٹیں بھی تبدیل کردیں اور اگر کوئی اور چیز بھی رہتی ہے وہ بھی تبدیل کردیں‘‘۔’’ٹھیک ہے جناب‘‘۔میں نے اسی وقت موٹر سائیکل میں سے پرانی چیزیں نکالیں اور وہاں نئی چیزیں لگا دیں اور موٹر سائیکل کی لائٹیں بھی بالکل نئےڈیزائن کی فٹ کردیں۔۔اگلے دن تقریباً دوپہر سے ذرا پہلے وہ صاحب آئے۔’’ہاں جی!جناب کیا بنا؟‘‘’’میںنے کہا، اب تو پہلے سے بھی بہتر کردی ہے‘‘۔میں نے بل پہلے سے ہی بنایا ہوا تھا۔ جلدی سے انہیں تھمادیا۔’’آٹھ ہزار سات سو۔۔بس‘‘’’جناب پہلے آپ ایک ٹرائی تو لے کر دیکھ لیں پھر کہنا‘‘ میں نے کہا۔ان صاحب نے دکان کے آگے ایک دو ٹرائیاں لیں اور پھر دوکان کےسامنے آکر موٹر سائیکل پر بیٹھے بیٹھے کہا یار اس کی بریک ذرا نائٹ کرنا ملازم نے فوراً جاکر بریک ٹائٹ کردی۔ میرے دیکھتے دیکھتے بریک ٹائٹ کراکے انہوں نےدکان کے آگے ایک سڑک سے دوسری سڑک تک تین چار ٹرائیاںلیں۔
ارے! وہ موٹرسائیکل والاکہاں گیا؟
ایک منٹ گزرا تو میں نے ملازم سے کہا ’’وہ موٹر سائیکل والا کہاں گیا‘‘۔’’استاد جی وہ بابو تو نظر نہیں آرہا ‘‘میں نے سوچا شاید لمبی ٹرائی لینے گیا ہے۔ ابھی آجائے گا۔ تھوڑی دیر اور گزری تو ہم سب پریشان ہوگئے۔ میں نے فوراً موٹر سائیکل پکڑی اور جس طرف وہ بابو صاحب گئے تھے اسی طرح روانہ ہوگیا۔ سارا شہر ڈھونڈ مارا مگر وہ موٹی مرغی کہیں نہ ملی۔میں شاید لالچ میں زیادہ ہی ان پر اعتبار کر بیٹھا اور اس مرغی نے میرے اندھےاعتبار کا خوب فائدہ اٹھایا۔ پیارے بچو! آپ بھی ایسی موٹی مرغیوں سے ہوشیار رہیے گا۔کبھی بھی لالچ نہ کیجئے کیونکہ لالچ میں انسان دماغ سے سوچنا بند کردیتا ہے۔ہمیشہ اللہ پر توکل رکھیں خوش رہیں گے اور نقصان سے بھی بچے رہیں گے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں