بچوں کی ذہنی و جسمانی نشوونما اور تربیت میں بھی یہ نظام بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ایک بچہ جسے اپنے والدین کے علاوہ رشتہ داروں (مثلاً دادا، دادی، تایا، چچا، پھوپھو) کی محبت اور توجہ بھی حاصل ہوتی ہے وہ زیادہ پر اعتماد ہوتا ہے اور مختلف امور سے متعلق اس کی آگاہی اور واقفیت بھی زیادہ ہوتی ہے۔ بالخصوص گھر کے بزرگ اس کو نہ صرف دینی اقدار سے روشناس کرواتے ہیں بلکہ اس میں مختلف اوصاف (مثلاً بڑوں کا ادب و احترام، سچ بولنا، ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہنا) بھی پروان چڑھاتے ہیں جس کے لیے وہ بچوں کو مختلف سچے واقعات اور کہانیاں سناتے ہیں تاکہ وہ ان سبق آموز کہانیوں سے نصیحت حاصل کرکے اپنے اخلاق و کردار کو بہتر بناسکیں اور یوں بھی بچپن میں کی جانے والی نصیحت کااثر پوری انسانی زندگی پر محیط ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین نفسیات بچوں کے ابتدائی دو سال کو ان کی زندگی کے بہت اہم سال کہتے ہیں کیونکہ اس میں بچوں کی تربیت کا تقریباً 95 فیصد حصہ مکمل ہوچکا ہوتا ہے۔
مشترکہ خاندانی نظام کے بہت سے فوائد ہونے کے ساتھ ساتھ کئی نقصانات بھی ہیں تاہم ان کے اثرات دور رس نہیں ہوتے ہیں۔ دراصل اس دنیا میں رہنے والے ہر فرد کا مزاج دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ مزاجوں کے اسی اختلاف کے باعث کئی مسائل جنم لیتے ہیں۔ مثلاً ایک بھائی گھر میں کمپیوٹر کی موجودگی کو ضروری سمجھتا ہے جبکہ دوسرا بھائی اسے عبث خیال کرتا ہے اس پر بحث ہونا شروع ہو جاتی ہے نتیجے میں ایک بھائی کی جیت ہوتی ہے جس کیوجہ سے اس کا دل دوسرے بھائی کی طرف سے خراب ہو جاتا ہے اور یوں تعلقات میں بگاڑ کی ابتداء ہو جاتی ہے۔ اس لیے ضروری ہوتا ہے کہ ہم اعلیٰ ظرفی اور بلند حوصلگی کی صفات اپنے اندر پیدا کریں تاکہ ان مسائل سے بچا جاسکے۔
ایک مسئلہ آرام کا بھی ہوتا ہے ہمیں اپنے سونے جاگنے کے معمول کو فیملی کے مطابق بنانا ہوتاہے۔ اس لئے کبھی ہمارا موڈ جلد اٹھنے کا نہ ہو مگر گھر میں چونکہ سب لوگوں کے اٹھنے کا وقت مقرر ہوتا ہے تاکہ ناشتے کے لیے سب ایک ساتھ جمع ہوسکیں اس لئے ہمیں بھی چارو ناچار اٹھنا پڑتا ہے۔ یوں ہمیں وسعت قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے آرام کو قربان کرنا پڑتا ہے۔ یہ اور اسی طرح کے کئی مسائل اور بھی ہوتے ہیں جن پہ ہم اپنی مضبوط قوت ارادی سے قابو پاسکتے ہیں۔ الغرض مشترکہ خاندانی نظام جدید اور تیز رفتار دور میں ہماری زندگیوں کے لیے سہولت اور فائدہ کا باعث ہے جس سے ہمیں کئی مسائل اور پریشانیوں سے نمٹنے میں آسانی ہو جاتی ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں