Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔ --

ایسے شخص کو جلد موت اپنی آغوش میں چھپالےگی

ماہنامہ عبقری - فروری 2020ء

(2)ذُوْحَظِّ مِنَ الصَّلوٰۃِ:قابل رشک زندگی گزارنے والے مومن کی دوسری خوبی یہ ہے کہ ’’وہ نماز کا بہت زیادہ رسیا ہو‘‘ فرائض کی پابندی کے ساتھ ساتھ سنن و نوافل کو بھی نہ چھوڑتا ہو کیونکہ نماز آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے اور فرائض اسلام میں سے سب سے اہم فریضہ ہے۔ بندہ نماز کے دوران اپنے رب سے مناجات اور سرگوشی میں مصروف ہوتا ہے اور ایک سچے عاشق کے لیے اپنے محبوب سے ہم کلام ہونے سے زیادہ پسندیدہ مشغلہ اور کیا ہوسکتا ہے؟ آج کل نماز سے نہایت غفلت برتی جارہی ہے، عوام الناس کا کیا کہنا، دین دار لوگ بھی سنن و نوافل نیز جماعت کی پابندی کا خیال نہیں کرتے، صرف الٹی سیدھی فرض نماز ادا کر کے اللہ رب العزت پراحسان جتاتے ہیں۔ حالانکہ قیامت کے روز سب سے پہلے نماز ہی کا حساب بے باک کیا جائے گا اور پھر فرائض میں پائی جانے والی کوتاہی کو سنن نوافل کے ذریعہ پورا کیا جائے گا۔(3)اَحْسَنَ عِبَادَۃَ رَبِّہٖ: قابل رشک زندگی گزارنے والے مومن کی تیسری خوبی یہ ہے کہ ’’وہ اپنے رب کی عبادت دل لگا کر بڑے ہی خشوع و خضوع سے کرتا ہو‘‘ نماز میں مشغول ہوتو پورے انہماک سے، تلاوت میں لگے تو پوری توجہ سےالفاظ و معانی پر غور کرتے ہوئے ، ذکر و اذکار میں مصروف ہوتو مکمل دل جمعی سے، گویا اپنے رب کی عبادت کرتے ہوئے اس کو اپنے سامنے موجود پاتا ہو، مرتبہ احسان کا اعلیٰ درجہ بھی یہی ہے جیسا کہ ارشاد نبویﷺ ہے: ’’اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ فَاِنْ لَّمْ تَـکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہ یَرَاکَ‘‘(اللہ کی عبادت تم اس طرح کرو گویا تم اس کو دیکھ رہے ہو اور اگر تم اس کو نہ دیکھ سکو تو تصور دل و دماغ میں بیٹھا لو کہ وہ تم کو دیکھ رہا ہے)۔لیکن عبادت کا یہ انداز اسی شخص کو میسر آسکتا ہے جو پرسکون زندگی گزار رہا ہو، ذہنی الجھنوں اور دنیاوی جھمیلوں سے محفوظ ہو، آج کل صرف خانہ پری ہوتی ہے، ظاہری طور پر اعمال تو پائے جاتے ہیں لیکن وہ بے زبان اورکھو کھلے ہوتے ہیں۔ کیوں کہ دل و دماغ کی یکسوئی اور ذہنی طور پر دل جمعی کا کوئی حصہ نہیں پایا جاتا، جب کہ اللہ رب العزت کے یہاں دلی جذبات اور ذہنی رحجانات ہی کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ (4)اَطَاعَہٗ فِیْ السِّرْ:قابل رشک زندگی گزارنے والے مومن کی چوتھی خوبی یہ ہے کہ ’’وہ تنہائی میں بھی اپنے رب کی اطاعت کرتا ہو‘‘ خلوت میں ہو یا رات کے اندھیرے میں، گھر کے اندر ہو یا لوگوں کے نظر سے پوشیدہ، ہر حال میں اللہ رب العزت کی تابعداری میں لگا رہتا ہو، کیوں کہ اس کے نزدیک عبادت کا مقصد صرف اور صرف رب ذوالجلال کی خوشنودی ہے، عام لوگوں پر اپنی دین داری کا رعب ڈالنا، دکھاوا اور ریا کرنا اس کے حاشیہ خیال میں بھی نہیں ہوتا، اس کو یہ یقین ہوتا ہے کہ میرا رب مجھ کو ہر وقت دیکھ رہا ہے اور وہ صرف شکل و صورت ہی کو نہیں دیکھتا بلکہ وہ دل کے احوال سے بھی واقفیت رکھتا ہے۔ ارادہ اور نیتوں کو جانتا ہے، کھرے کھوٹے کی اسے خوب پہچان ہے، اسی لیے وہ بندئہ صادق تنہائیوں میں بھی گناہوں سے مکمل اجتناب کرتا ہے اور خشوع و خضوع  

کے ساتھ یاد الٰہی سے اپنے دل کو بہلاتا ہے۔ آج کل دھوکا دہی اتنا عام ہوگئی ہے کہ لوگ اپنے خالق و مالک کو بھی دھوکا دینے سے گریز نہیں کرتے ظاہر و باطن میں فرق ہوتا ہے، اندر سے کچھ اور باہر سےکچھ، اسی کو سمجھ داری اور عقل و خرد کی معراج تصور کیا جاتا ہے حالانکہ کہ اللہ رب العزت قول و فعل کے اس تضاد کو شدید ناپسند کرتے ہوئے قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:’’اے ایمان والو! تم ایسی بات کیوں کہتے ہو جس کو تم کرتے نہیں ہو، اللہ کو یہ چیز بڑی ناپسند ہے کہ انسان ایسی بات کہے جس پر وہ خود عمل پیرانہ ہو‘‘ (سورۃ الصف:۲،۳)۔(5)وَكَانَ غَامِضًا فِي النَّاسِ لَا يُشَارُ إِلَيْهِ بِالْأَصَابِعِ:قابل رشک زندگی گزارنے والے مومن کی پانچویں خوبی یہ ہے کہ ’’وہ عام لوگوں کی نظروں سے چھپا ہوا ہو، اہل بصیرت ہی اس کی حقیقت سے واقف ہوں‘‘ تواضع، مسکنت اور انکساری کی وجہ سے لوگ اسے اہمیت نہ دیتے ہوں نہ ہی وہ خود شہرت و منصب کا خواہش مند ہو، حب جاہ اور حب مال سے کوسوں دور ہو، اپنی حالت کو خلق خدا سے چھپاتا ہو، نام نہاد پیروں کی طرح سے اپنی بزرگی کے جھوٹے سچے واقعات و مبشرات برسر عام بیان نہ کرتا ہو، کیونکہ یہ عمل خلوص و للہیت کے منافی ہے، اس کی وجہ سے واردات قلبیہ اور الطاف ربانی کا دروازہ بند ہو جاتا ہے، اسی لیے اکابر اولیاء اللہ اپنے روحانی احوال و کیفیات کوحد درجہ چھپایا کرتے تھے، اپنے اور اپنے رب کے تعلق کو غیر اللہ پر ظاہر نہیں کیا کرتے تھے۔(6)رَزَقَہٗ کَفَافاً:قابل رشک زندگی گزارنے والے مومن کی چھٹی خوبی یہ ہے کہ ’’وہ بقدر ضرورت ہی رزق کے حصول کی کوشش کرتا ہو‘‘ اور جتنے سے اس کی ضرورت پوری ہو جائے، اسی پر اکتفا کرتا ہو، دنیا طلبی میں مارا مارا نہ پھرتا ہو۔(7)فَصَبَرَ عَلٰی ذَالِکَ:قابل رشک زندگی گزارنے والے مومن کی ساتویں خوبی یہ ہے کہ ’’جو تھوڑا بہت بقدر ضرورت اللہ نے اس کو عطا کردیا وہ اسی پر صبر کرلے‘‘ اور مزید کے حصول کا لالچ اس کے دل میں پیدا نہ ہو اور یہ جان لے کہ جتنا میری تقدیر میں ہے، وہ مجھے مل رہا ہے اورتا زندگی ملتا رہے گا، میری مزید کوشش اور دوڑ بھاگ سے تقدیر سے زیادہ ہرگز ہرگز میرے ہاتھ نہیں لگے گا اور جتنا مقدار میں ہے وہی ملے گا۔نبی کریمﷺ درج بالا سات خوبیوں کو ذکر کرنے کے بعد ارشاد فرماتے ہیں کہ پھر ایسے شخص کو موت بہت جلدی سے اپنی آغوش میں لے لیتی ہے یعنی اس دنیا فانی سے رخصت ہونے اور اپنے رب سے جا ملنے میں کوئی چیز اس کے لیے رکاوٹ نہیں بنتی، کیوں کہ لمبی آرزوئیں، بے تحاشا مال و دولت، دنیا سےحد درجہ وابستگی اور اہل دنیا سے بہت زیادہ راہِ رسم سے وہ بہت دور تھا، ہمہ وقت موت کی تیاری اور آخرت کی فکر اس کو اپنی جانب متوجہ کیے رہتی تھی، اس لیے موت اس کے واسطے نامانوس اور ناپسندیدہ چیز نہیں تھی، اہل خانہ ہوں یا دوست احباب، مال و دولت ہو یا روپیہ پیسہ، کوئی بھی چیز اس کو خالق سے ہٹا کر اپنی محبت میں گرفتار نہ کرسکے گی۔چنانچہ وہ برضا و رغبت وقت موعود پر دنیا سے اس حال میں رخصت ہو جائے کہ نہ تو اس پر رونے والے بہت زیادہ ہوں گے اور نہ ہی بہت زیادہ مال و اسباب اس نے چھوڑا ہوگا، کیا خوب ہے یہ زندگی اور کتنی قابل رشک ہے یہ موت! اللہ تعالیٰ ہم سب کو حسن خاتمہ کی دولت سے مال مال فرمائے ۔ آمین۔

Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 465 reviews.