اسی طرح عدم دلچسپی بھی غائب دماغی کا سبب بن سکتی ہے۔ بقول ایک شخص کے وہ ایک ایسے صاحب سے واقف ہیں جو پچھلے 30سال سے کھیلوں کے اعداد و شمار پوری صحت کے ساتھ بتا سکتے ہیں، لیکن انہیں لیٹر بکس میں خط ڈالنا یاد نہیں رہتا۔ تجربہ اور مشاہدہ یہ ہے کہ خواتین کی یادداشت مردوں سے بہتر ہوتی ہے اور اس کی وجہ غالباً یہی ہے کہ وہ اپنے ماحول پر زیادہ توجہ دیتی ہیں اور یادداشت اسی کے سہارے تازہ اور قائم رہتی ہے۔نظر آنے والے اشاروں کی بھی اس سلسلے میں بڑی اہمیت ہوتی ہے مثلاً اگر آپ کو کوئی دوا دوپہر کے کھانے کے ساتھ کھانی ہے تو دوا کی بوتل کو کھانے کی میز پر رکھیے تاکہ کھاتے وقت اس پر آپ کی نظر پڑے اور آپ دوا وقت پر کھالیں۔ اسی طرح یاد داشت کی پرچی لکھ کر بھی جیب میں رکھی جاسکتی ہے۔ بھول کا ایک انداز یہ بھی ہوتا ہے کہ آپ کسی کمرے میں جاکر یہ بھول جاتے ہیں کہ وہاں کیوں آئے تھے۔ عین ممکن ہے کہ اس وقت آپ کسی اور خیال میں مگن تھے۔ اس کا بہترین علاج یہ ہے کہ آپ جس جگہ سے چلے تھے دوبارہ وہیں پہنچ جائیں۔ یوں آپ کو یاد آجائے گا کہ کمرے میں کیا کام تھا۔غلط نسبت یا تعلق: کبھی ایسابھی ہوتا ہے کہ ہمیں ایک بات یا واقعہ اچھی طرح یاد ہوتا ہے، لیکن ہم جب اسے یاد کرتے ہیں تو اسے غلط جگہ یا شخص سے جوڑتے یا منسوب کرتے ہیں مثلاً آپ نے سخت بھوک کی حالت میں بڑا لذیذ کھانا اپنے دوست احسان کے گھر کھایا تھا، لیکن بعد میں آپ نے بتایا کہ وہ کھانا آپ نے اپنے کسی اور واقف کار کے گھر کھایا تھا گویا آپ نے اس واقعے کا تعلق غلط شخص سے جوڑ دیا۔
اسی طرح بہت سے لوگ دوسروں کے تصورات اور خیالات کو خود سے منسوب کردیتے ہیں۔ اسے غیر ارادی سرقہ یا چوری کہتے ہیں۔ اسی طرح اپنے ساتھ پیش آنے والے کسی واقعے کو دوسروں سے منسوب کردیا جاتا ہے۔ غلط یاد داشت بھی بعض اوقات مسئلہ بن جاتی ہے اور یہ بھی غلط تعلق جوڑنے ہی کا نتیجہ ہوتی ہے مثلاً آپ کو یاد آتا ہے کہ لڑکپن میں آپ اپنے والد کے ساتھ دریا کے کنارے مچھلی کے شکار کے دوران پانی میں گر گئے تھے حالانکہ درحقیقت ایسا نہیں ہوا تھا بلکہ آپ نے یہ سین ایک فلم میں دیکھا تھا۔
یادداشت تیز کرنے کے لیے
(۱)ان دنوں مغربی ملکوں میں چینی دوائی بوٹی جنگوبائی لوبا (Ginkgo Biloba) کی دھوم ہے۔ ماہرین اب متفق ہیں کہ اس سے واقعی حافظہ بہتر ہوتا ہے۔ دراصل اس سے آدمی خود کو بہتر محسوس کرتا ہے۔(باقی صفحہ نمبر59 پر )
ّ(بقیہ: یادداشت تیز نہیں تیز ترین بنانے کے آزمودہ گُر)
یوں اس کی توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت بھی بہتر ہو جاتی ہے۔(۲)دماغی تھکن دور اوریادداشت کو تیز کرنے کے لیے ایک دو پیالی کافی مفید ہوسکتی ہے۔(۳)ناکافی نیند اور تھکن، حافظے کے دشمن ہوتے ہیں۔ بغیر کسی دوا کے بھرپور نیند اس کا بہترین علاج ہے۔ خواب آور دوا سے لی جانے والی نیند سے بھول کی شکایت بڑھ جاتی ہے۔(۴)تجربات سے ثابت ہوگیا ہے کہ ورزش سے یادداشت کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔ سخت ورزش سے دماغ کو درکار پروٹین کی فراہمی بڑھ جاتی ہے۔ باقاعدہ ورزش کرنےوالوں کی فکر صحیح رہتی ہے اور بڑھاپے میں ان کی یاداشت بہت اچھی رہتی ہے۔(۵)طب میں حافظے کی بہتری کے لیے مرکب دوائوں میں خمیرہ گائو زبان صدیوں کی آزمودہ دوا ہے۔(۶)برہمی بوٹی کے استعمال سے حافظے میں اضافہ ہوتا ہے۔(۷)کولیسٹرول نارمل ہوتو چہار مغز کا حریرہ حافظے کی تقویت کے لیےبہت مفید ثابت ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسروں کے شکار اور بہادری کے واقعات کو خود سے منسوب کرنا بھی اس کی ایک صورت ہے۔ ہمارے ہاں اسے شیخی خوری قرار دیا جاتا ہے جبکہ یہ حافظے کی شرارت بھی ہوسکتی ہے۔ یہ باتیں بلاشبہ پریشان کن قرار پاتی ہیں لیکن ان کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اگر ہمارے دماغ میں وہ سب کچھ جو ہم نے دیکھا، سنا یا پڑھا، محفوظ رہ جائے تو اس طرح ہم گویا یادوں کے بوجھ تلے دب کر رہ جائیں گے جبکہ درحقیقت صحیح سوچ اور فکر کے لیے ضروری ہے کہ صرف ضروری اور اہم باتیں یاد رہیں۔ باقی کا حافظے سے نکل جانا ہی بہتر ہے۔ اسی طرح اب جب کبھی آپ کے والد، دوست، یا افسر یہ بھول جائیں کہ انہوں نے گاڑی کہاں پارک کی ہے تو سمجھ جائیے کہ دراصل اس وقت ان کا دماغ گاڑی سے دیگر زیادہ اہم معلومات جمع کررہا تھا، اس لیے اگر کوئی صاحب غیر اہم باتیں بھول جائیں تو فکر مند نہ ہوئیے۔ صرف یہ دیکھیے کہ اہم باتیں انہیں یاد ہیں یا نہیں۔ یہ معاملہ سب کے ساتھ درپیش رہتا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں