Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔ --

کامیابیوںوحصول ِ سکون کے لیے ذِکرالٰہی کو اپنا معمول بنا لیں


کامیابیوںوحصول ِ سکون کے لیے ذِکرالٰہی کو اپنا معمول بنا لیں معروف سماجی،علمی و روحانی شخصیت حکیم طارق محمود مجذوبی چغتائی سے ایک ملاقات تسبیح خانہ ایک عبادت گاہ ہے جسکا مقصد لوگوں کو مصلے اور تسبیح سے جوڑنا اور مسنون اعمال کی طرف راغب کرنا ہے پینل :۔شاہدہ مجید /عشرت جاوید/عمارہ عدنان عکاسی: اقبال شہزاد معاشرے میں فسق و فجور کے فروغ اور فسادات کے پھیلانے میںبعض بے دین لوگوں کی طرح نام نہاد متّقی اور کھوکھلے پرہیزگاربھی برابر کے شریک ہیں،یہ لوگ اپنے چہروں پر تقوٰی کا نقاب چڑھا کرعوام النّاس کی سادہ لوحی سے فائدہ اٹھا تے ہوئے نت نئی خرافات اور بدعات کو جنم دینے کے ساتھ ساتھ انھیں رائج بھی کرتے ہیں،کبھی تویہ لوگ جعلی طورپرپیروں فقیروں کے بھیس میں اور کبھی تعویز گنڈے کرنے والوں کے روپ میں دین ِاسلام کا تمسخراڑاتے ہیں۔ اکثر غلط فہمی میں رہتے ہیں کہ ہم استخارہ کریں گے تو ہمیں ایک بابا جی نظر آئیںگے انہوں نے بڑا سا چوغہ پہن رکھا ہوگا اور ہاتھ میں ڈنڈا لیے ہوں گے‘نہیں !اللہ والو ایسا نہیں ہے،استخارہ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اْس بات کو،اْس عمل یا اْس کام کے متعلق آپ کے دل میں توجہ ڈال دیں،اپنی خیر آپ کے دل میں ڈال دیں۔ میں تمام والدین سے درخواست کرتا ہوں اپنے معصوم بچوں خاص طورپر بیٹیوں کو کبھی نہ دھتکاریں‘ کبھی انہیں تنہا نہ چھوڑیں‘ یہ تو اللہ کی رحمت اوربہت معصوم ہوتی ہیںاور والدین علیحدگی جیسا بڑا فیصلہ کرتے وقت بچوں کے مستقبل کے بارے میں ضرور سوچا کریں کیونکہ ان کا ایک غلط یاصحیح فیصلہ بچے کے مستقبل کو بگاڑیاسنوارسکتا ہے۔ ابتدائے آفرینش سے تادمِ ہنوز انسانی معاشرہ اس بات کا متقاضی ہے کہ افراد خود کو معاشرے کا اہم رکن تصور کرتے ہوئے اْس کی ضرورتوں کا خیال رکھیں اور اپنے اوپر عائد ہونے والے مختلف فرائض و ذمہ داریاں ادا کریں۔ چنانچہ انسانی ضرورتوں کی تکمیل انسان ہی کے ذمہ ہے، ہم کسی کے کام آئیں گے تو کوئی ہمارے بھی کام آئے گا۔ الغرض معاہدہ عمرانی کے اِسی بنیادی اْصول کی بنا پر معاشرے میں مختلف الاقسام پیشے اور مہارتیں تشکیل پذیر ہوئے۔ ہر فرد اپنی انفرادی طبیعت، رجحان، استعداد اور صلاحیت کے پیشِ نظر معاشرے میں اپنی ذمہ داریوں کا تعین کرتا ہے اور انسانی معاشرے میں پنپنے والی مقابلے کی فضا میں اپنا بھر پور کردار ادا کرتا ہے۔ معاشرتی زندگی میں جہاں بدنی و جسمانی تقاضوں کی تکمیل کے لیے، کسان سے لے کر ڈاکٹر اور انجینئر تک کی ضرورت پڑتی ہے وہاں روحانی تقاضوں کی تکمیل کے لیے دین کے خدمت گاروں کی اہمیت کو بھی کسی طور نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اللہ رب العزت کے عطا کردہ نظامِ حیات اور دینِ مصطفویؐ کی تبلیغ و ارشاد پر جو لوگ متعین ہوتے ہیں اْن کا چناؤ اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت سے ہوتا ہے۔ خدمتِ دین کی توفیق محض اللہ رب العزت کے فضل و کرم اور اْس کے احسان کی وجہ سے ہی نصیب ہوتی ہے۔ جس شخص سے اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے اسے اپنے دین کی خدمت کے لیے منتخب فرما لیتا ہے۔اﷲ کے ایسے منتخب بندوں میں سے ایک زندہ مثال حکیم طارق محمود مجذوبی چغتائی کی صورت میں ہم سب کے درمیان موجود ہے۔آپ دین اور دنیا کی خدمت کی ایک بہترین مثال ہیں۔ شیخ الوظائف حکیم محمد طارق محمود مجدوبی چغتائی ضلع بہاولپور سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ کا خاندان وہاں صدیوں سے معزز حیثیت سے آباد ہے، گہرے مذہبی و روحانی تعلق کے ساتھ ساتھ آبائواجداد عموماً تجارت اور زمینداری سے وابستہ تھے۔ آپ کے والد محترم مرحوم آبائی کام کے ساتھ ساتھ طب و حکمت سے بھی وابستہ تھے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے۔لاہور سے نکلنے والے ایک معروف ماہنامہ کے ایڈیٹر اور کالم نگار حکیم آزاد شیرازی رحمتہ اللہ علیہ کے ہاں باکمال درویش، جانشین خاندان ہجویر، ولی کامل، قطب الاقطاب حضرت خواجہ سید محمد عبداللہ ہجویری ؒ قیام پذیر تھے۔ یہی باکمال ہستی حکیم طارق محمود مجذوبی چغتائی کے پیرومرشد ہیں۔ حضرت عبد اﷲہجویریؒ حسنی و حسینی سید تھے اور سیدنا علی بن عثمان المعروف حضرت داتا گنج بخش ؒ کی آل و اولاد میں سے تھے۔ آپ کے اجداد ہجویر (غزنی) افغانستان سے ہجرت کرکے دہلی تشریف لائے تھے۔ 1991ء میں حضرت عبداللہ ہجویری رحمتہ اللہ علیہ نے حکیم طارق محمود مجذوبی چغتائی کو چاروں سلاسل کی خلافت عطا فرمائی۔ اس کے علاوہ حکیم طارق محمود مجذوبی چغتائی کو پاک وہند اور عرب کے متعدد مشائخ کرام نے خلافت عنایت فرمائی۔ ان سلاسل میں عرب کا مشہور سلسلہ شاذلیہ بھی شامل ہے۔حضرت عبداللہ ہجویری رحمتہ اللہ علیہ اپنی زندگی کے آخری ایام میں مدینہ منورہ تشریف لے گئے، وہیں ان کا وصال ہوااور جنت البقیع میں تدفین ہوئی۔حکیم طارق محمود مجذوبی چغتائی نے ضلع بہاولپور میں تسبیح خانہ کی بنیاد رکھی اور اپنے شیخ و مرشد رحمتہ اللہ علیہ کی عطاکردہ ذمہ داری سرانجام دینا شروع کی۔2001ء میں حکیم طارق محمود مجذوبی چغتائی مستقل لاہور تشریف لائے اور موجودہ تسبیح خانہ کی بنیاد رکھی۔ اولاً اپنی رہائش گاہ کی بالائی منزل پر ہفتہ وار درس دیتے رہے۔ اس درس کی مقبولیت بڑھتی رہی جب مجمع زیادہ ہوگیا تو نزدیک ایک قطعہ اراضی لے کر ایک بیسمنٹ پر مشتمل کثیرالمنزلہ عمارت مرد حضرات کے لئے اور ایک عمارت ’’دارالتوبہ‘‘ (قطر فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا) کے نام سے خواتین کے لئے بنائی گئی مگر جب یہ عمارت بھی کم پڑ گئی تو کئی بڑے بڑے ہالز پر مشتمل ایک پرانی فیکٹری کی عمارت خرید کر تسبیح خانہ جدید بنایا گیا ۔آپ حلقہ ء کشف المحجوب میں ہر ماہ اس عظیم کتاب کو سبقاً سبقاً پڑھاتے ہیں اور تصوف و روحانیت کی تعلیمات کو پھیلا رہے ہیں۔حکیم طارق محمود مجذوبی چغتائی طب نبوی ؐاور جدید سائنس، روحانیات تصوف پر 160 سے زائد کتابوں کے مؤلف و مصنف ہیں۔ آپ کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔آپ ’’عبقری‘‘ نام کا ایک ادارہ چلاتے ہیں جو ایک ماہنامہ بھی جاری کرتا ہے جو عوام میں بے حد مقبول ہے ۔دنیا بھر میں آپ کے لاکھوں مدح اور ہزاروں مریدین موجود ہیں۔آپ کے علمی و روحانی کمالات اور انسانی خدمات کے بارے میں گفتگو کے لیے روزنامہ’’انصاف‘‘ نے آپ کے مرکز پرآپ سے ملاقات کی جو قارئین کے پیش نظر ہے: انصاف:آپ کے نام میںمجذوبی بھی شامل ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟ حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی :یہ میرے مرشد سید محمد عبداللہ ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کی عنایت ہے، ان کے ساتھ نسبت کی وجہ سے یہ مجذوبی میرے نام کاحصہ ہے۔ انصاف: تقوی کسے کہتے ہیں، تقوی کے لغوی معنی کیا ہیں؟ حکیم محمدطارق محمود مجذوبی چغتائی :لغت میں تقویٰ کے معنیٰ ڈرنے، بچنے اور چھوڑ دینے کے ہیں۔ اللہ عزوجل کی محبت میں نفسانی خواہشات پر عمل نہ کرنا، اللہ تعا لیٰ کے سامنے جواب دہی کا احساس کرتے ہوئے گناہوں سے اجتناب کرنا، پرہیزگاری اختیار کرنا، برے کاموں، بے حیائی اور بے ہودہ باتوں سے نفرت کرنا، ہر شیطانی خواہش کو سینے میں دفن کردینا، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے ہر وہ کام کرنا جس سے رب تعالیٰ راضی ہو تا ہے، شامل ہے۔ ان تمام کاموں کی انجام دہی کے لیے ضروری ہے کہ انسان کی زندگی اپنے کریم رب کے احکامات اور رسول عربیﷺ کے سنہرے اور خوب صورت اطوار کی عکاس بن جائے۔تقویٰ انسانی زندگی کا شرف ہے۔ یہ قیمتی سرمایہ ہے جس کے ذریعے علم، روحانی ترقی، کامرانیاں اور قرب الٰہی کا حصول آسان ہوجاتا ہے۔ قرآن کریم فرقان حمید کا بغور مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ تقویٰ کے ذریعے خیر و برکت، اجر و ثواب ، نیک بختی اور سعادت مندی کا حصول آسان ہوجاتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے کہ ’’متقی پرہیزگار بہشتوں اور چشموں میں مزے اڑائیں گے۔‘‘ پھر ارشاد باری تعالیٰ ہوا کہ ’’متقی جنت کی نعمتوں سے مسرور ہوں گے۔‘‘اس کے برعکس وہ لوگ جو تقویٰ کی زندگی چھوڑ کر اس فانی دنیا کی زیب و زینت میں گم ہو گئے اور اْنہیں آخرت کی فکر نہیں رہی، اْن کے متعلق اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں : ترجمہ ’’جس نے سرکشی کی اور دنیا کی لذت کو پسند کیا اس کا ٹھکانہ جہنم ہے اور جو جو ابدہی سے ڈرا اور نفس کو خواہشات کی تکمیل سے روکے گا اس کی جگہ جنت ہے۔‘‘ انصاف:اصطلاح میں تقویٰ کا مفہوم کس طرح سے لیا گیا ہے؟ حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی لغت میں تقویٰ وقایتہ سے ماخوذ ہے یعنی جس سے انسان بچائو اختیار کرتا ہے۔تقوٰی کا اصطلاحی معنی یہ ہے کہ تو اپنے اور اللہ کی حرام کردہ چیزوں کے درمیان پردہ اور آڑ قائم کرلے۔امیر المومنین سیدنا علی بن ابی طالب ؓ تقویٰ کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ تقوٰی اللہ تعالیٰ سے ڈر ،قرآن مجید کے ساتھ عمل،تھوڑے پر قناعت اور آئندہ دن کیلئے استعداد پیدا کرنے کا نام ہے۔دیکھا جائے تو تقوٰی انسان کیلئے زندگی کا زاد راہ ہے اور یہ ایسے مکارم اخلاق اور فضائل حسنہ کی آخری حد ہے جس سے ہر انسان کا متصف ہونا لازمی ہے کیوں کہ انہی کی وجہ سے تمام صفات محمودہ پروان چڑھتی ہیںاور یہ ایسی فضیلت ہے جس کے سبب اللہ نے انسان اور اسکے خالق کے درمیان گہرا ربط قائم کرنے کا ارادہ کیا ہے اسی لیے یہ کلمہ اور اسکے مشتقات قرآن مجید میں موجود اخلاقی اور اجتماعی آیات میں پائے جاتے ہیں۔اس سے مراد یہ ہے کہ انسان ہر ایسی شے سے بچے جس سے اس کا رب ناراض ہو،گویا کہ تقوٰی کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے گردتقویٰ کی ایسی ڈھال بنا لیں کہ ہر اطاعت کی جگہ پرآپ اللہ کے سامنے ہوں اور ہر معصیت کی جگہ سے مفقود۔متقین کی صفت علی بن ابی طالب ؓیوں بیان کرتے ہیں کہ متقی لوگ اللہ کی رضا مندگی کیلئے محنت اور کوشش کرتے ہیںاور اللہ کی ناراضگی سے اجتناب کرتے ہیں۔کیونکہ اس میں ان کے لیے بلکہ ساری انسانیت کیلئے مصلحت پنہاں ہوتی ہے۔ انصاف:علماء سے سنا ہے کہ تقویٰ قرب الہٰی کا بہترین ذریعہ ہے،تو بعض مقامات پر بتا یا جاتا ہے کہ تقویٰ نعمت خداوندی ہے، آپ کے نزدیک یہ نعمت حاصل کرنے کے لئے حضرت انسان کو کیا اعمال کرنے ضروری ہیں؟ حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی :حضرت ابوذر غفاری ؓ سے روایت ہے کہ رسول عربی ﷺ نے فرمایا کہ میں ایسی آیت جانتا ہوں کہ اگر لوگ اس پر عمل کرلیں تو ان کی دین و دنیا کے لیے وہی کافی ہے۔ مفہوم آیت یہ ہے کہ ’’ اللہ سے ڈرتے رہو جیسے اس سے ڈرنا چاہیے۔ ( قرآن مجید)یعنی اللہ جل شانہ کی اطاعت اس طرح کی جائے کہ ذرا برابر بھی نافرمانی نہ ہو، ہر سانس کے ساتھ اپنے خالق و مالک کو یاد کیا جائے، ہر حال میں اس کا شکر ادا کیا جائے اور نہ شکری نہ کی جائے۔ایک صحابی نے سرکار مدینہ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوکر عرض کی، یا رسول ﷺ مجھے کچھ نصیحت فرما دیجیے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تقویٰ کو لازم پکڑلو، یہ تمام نیکیوں کی جڑ ہے۔‘‘ تقویٰ کی بدولت ہی اعمال خیر کی توفیق نصیب ہوگی، قرب الٰہی اور قرب رسول ﷺ نصیب ہوگا۔حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ ’’رسول اللہ ﷺ دنیا کی کسی چیز کو تعجب اور پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھتے تھے مگر متقی اور صاحب و تقویٰ کو۔‘‘ حضرت ابو سعید خدری ؓ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے سرور کونین ﷺکی خدمت میں عرض کی کہ مجھے کچھ ہدایت فرما دیں۔ آپ ﷺنے فرمایا کہ ’’ تقویٰ اختیار کرو یہ تمام بھلائیوں کا مجموعہ ہے۔‘‘تقویٰ اللہ رب العزت کی دوستی، قرب و محبت کا ذریعہ ہے۔ بندہ کسی بھی عمل صالحہ سے اتنی جلدی اللہ کا جود و کرم، فضل و عنایت، مدد و نصرت حاصل نہیں کرسکتا، جتنی جلدی تقویٰ کی بدولت ان اکرام و انعامات سے مستفید ہوسکتا ہے۔ بس ! اس درجے اور مقام کو حاصل کرنے کے لیے نفس سے کھلی جنگ لڑنی ہوگی۔امام راغب اصفہانی ؒ فرماتے ہیں کہ،’’گناہ سے نفس کو بچائے رکھنا، اپنے رب کریم کے لیے ممنوعہ باتوں سے اجتناب کرنا، اپنی زندگی کو اللہ جل جلالہ کی اطاعت و تابعداری میں گزارنا اور ہر قدم پر اللہ سے ڈرنا،یہی متقی کی شان ہے۔‘‘حضرت عمر بن عبدالعزیزؓفرماتے ہیں کہ ’’تقویٰ تو یہ ہے کہ جس چیز کو اللہ پاک نے حرام کیا ہے اس سے ہر حال میں بچنا اور جو فرض کیا ہے اس پر عمل کرنا، اس کے بعد اللہ تعالیٰ تجھے جو رزق عطا فرمائے وہ خیر ہی خیر ہے۔حضرت سری سقطیؒ فرماتے ہیں کہ ’’ متقی وہ ہے جو اپنے نفس سے بغض رکھتا ہو۔‘‘ان تمام قرآنی آیات، احادیث مبارکہ اور صالحین کے اقوال سے ثابت ہوتا ہے کہ تقویٰ نعمت خداوندی ہے، تقویٰ کو اختیار کرنے میں ہی بندہ مومن کی خیر اور بھلائی مضمر ہے، تقویٰ ہی دینی اور اْخروی کامیابیوں اور بھلائیوں کا سرچشمہ ہے، تقویٰ ہی عبادات کی قبولیت کا ضامن ہے، تقویٰ اختیار کرنا تمام کار خیر میں اعلیٰ و ارفع ہے۔ انصاف:معاشرے میں ہر دوسرا شخص مختلف حوالوں سے لوگوں کی راہنمائی کا بیڑا اٹھائے پھرتا دکھائی دیتا ہے ، جعلی عاملوں، پیروں کی بھرمار ہے ،لہذا موجودہ حالات میں ایک عام آدمی معاشرے میں حقیقی معنوں میں متقی شخص کو کس طرح ڈھونڈ سکتا ہے، اور ایسے پاکھنڈیوں سے کس طرح بچا جا سکتا ہے ؟ حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی :آپ کی بات بہت حد تک درست ہے ۔معاشرے میں فسق و فجور کے فروغ اور فسادات کے پھیلانے میںبعض بے دین لوگوں کی طرح نام نہاد متّقی اور کھوکھلے پرہیزگاربھی برابر کے شریک ہیں۔یہ لوگ اپنے چہروں پر تقوٰی کا نقاب چڑھا کرعوام النّاس کی سادہ لوحی سے فائدہ اٹھا تے ہوئے نت نئی خرافات اور بدعات کو جنم دینے کے ساتھ ساتھ انھیں رائج بھی کرتے ہیں۔کبھی تویہ لوگ جعلی طورپرپیروں فقیروں کے بھیس میں اور کبھی تعویز گنڈے کرنے والوں کے روپ میں دین ِاسلام کا تمسخراڑاتے ہیں۔چونکہ ایسے لوگ بظاہر بڑے متّقی اور پارسا نظر آتے ہیں چنانچہ عوام بیچاری ان کے ہر قول و فعل کو حکم خدا و رسول اللہ ﷺسمجھ کراطاعت کرنے لگتی ہے جبکہ حقیقت میں ایسے لوگ دین ،عرفان اور تقویٰ سے واقف نہیں ہوتے۔یہ ا پنی طرف سے کتاب و سنّت کی من مانی تفسیریں بیان کر کے لوگوں کے دین و ایمان سے کھیلتے ہوئے ان کی دنیا اور آخرت دونوں خراب کر دیتے ہیں۔ان میں سے بعض تو سرِ عام قرآن و احادیث کی من گھڑت توضیحات بیان کر کے حق کو باطل سے مخلوط کرتے ہیں،حرام کو حلال اور حلال کو حرام بیان کرتے ہیں،مستحبّات کو واجبات پر ترجیح اور واجبات کو ترک کرنے کی ترغیب دیتے ہیں،مشرکانہ جملات و کلمات بطور ورد لوگوں کو پڑھنے کے لئے دیتے ہیں نیزنجاسات کھانے کی ترغیب دینے کے ساتھ ساتھ لوگوں کودیگر حرام کاموں پر بھی اکساتے ہیں۔ایسے میں ضروری ہے کہ لوگوں کے سامنے قرآن و حدیث کی روشنی میں تقویٰ کی حقیقی تصویر پیش کی جائے۔لہذا اس ضمن میں قرآن مجید ،اہل بیت ؓ،صحابہ کرام ؓ اور علمائے اسلام ؒنے تقویٰ اور صاحبانِ تقویٰ کے بارے میں جو معارف و مطالب بیان کئے ہیں۔ان سے ہمیں رہنمائی حاصل کرنی چاہئے۔لہذا ہمیں تقویِٰ بدن،تقویِٰ نفس،تقویِٰ قلب پر توجہ دینی چاہئے، ایسا ہوا تو ہمیں متقی ہونے اور متقی لوگوں کی محفل میں موجود ہونے سے روکا نہیں جا سکے گا اور اللہ تعالیٰ کی رحمتیں، نعمتیں بھی حاصل ہوں گی۔ انصاف:اب ذرا ان تینوں کی مختصراً تعریف سے بھی آگاہ فرما دیں؟ حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی :(تقویِٰ بدن)بدن کا تقویٰ یہ ہے کہ بدن کو دین اسلام کے احکام کے مطابق نجاساتِ ظاہری سے پاک رکھا جائے۔(تقویِٰ نفس)تقویِٰ نفس یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو تمام چھوٹی بڑی بْری عادات اورشیطانی وسواس سے پاک کرے۔(تقویٰ ِ قلب) تقویِٰ قلب یہ ہے کہ دل کو افکارِ خبیثہ اور وسواسِ شیطانی سے پاک کر کے یادِ خدا سے اس طرح بھر دینا کہ دل خانہ خدا بن جائے۔یہی وجہ ہے کہ عرفاء دل کو کعبے سے تشبہیہ دیتے ہیں۔چونکہ کعبہ اللہ کا ظاہری اور دل باطنی گھر ہے۔ انصاف: اولیائے کرام ؒ اورعلمائے اسلام نے تقوی کی 10اقسام بتائی ہیں، وہ کونسی ہیں؟ حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی : روحی تقویٰ ، فکری تقویٰ، اعضاء کا تقویٰ، قلبی تقویٰ،علمی تقویٰ ،ِ سیاسی تقویٰ،اقتصادی تقویٰ ، جنسی تقویٰ ،تقویٰ طبّی ،لفظی تقویٰ کے بارے میں آپ کا اشارہ ہے ۔ انصاف: جی بالکل، ان کے بارے میںتفصیلات سے راہنمائی فرما دیں؟ حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی : روحی تقویٰ:روحی تقویٰ یہ ہے کہ انسان اپنی روح کو گناہوں سے اس قدر بچائے کہ گناہوں سے بچنے کی یہ عادت کبھی بھی اس سے جدا نہ ہو پائے یعنی انسان میں گناہوں سے بچنے کا ملکہ پیدا ہو جائے اور تقویٰ ،لباس کی طرح ہمیشہ انسان کے ہمراہ رہے۔ فکری تقویٰ:فکری تقویٰ یہ ہے کہ انسان گناہ کے بارے میں سوچے بھی نہیںکیونکہ گناہوں سے آلودہ فکرہی گناہوں کے لیے مقدمہ فراہم کرتی ہے۔ اعضاء کا تقویٰ: اعضاء کا تقویٰ یہ ہے کہ انسان کے تمام اعضاء،شیطان کے بجائے اس کے اپنے قابو میں ہوں اور وہ اپنے باطنی تقویٰ کے ذریعے ظاہری طور پر اپنے اعضاء و جوارح کو گناہوں سے محفوظ رکھے اور واجبات و مستحبّات کو اداکرے۔ قلبی تقویٰ:اللہ نے قلبی تقویٰ کانتیجہ شعائراللہ کااحترام قراردیاہے۔ علمی تقویٰ:علمی تقویٰ یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو باطل عقائد اور فخروغرور سے محفوظ رکھے۔علم اگر تقویٰ کے بغیر ہو تو کھلی ہوئی گمراہی اور ضلالت ہے۔صرف وہی علم انسان کے لئے نور اور ہدایت ہے جو تقویٰ کے ہمراہ ہو۔ سیاسی تقویٰ:سیاسی تقویٰ یہ ہے کہ انسان معاشرے میںبرائیوں کے خاتمے اور اچھائیوں کے فروغ کے لیے ہمیشہ سرگرمِ عمل رہے،بدکردار اور فاسق لوگوں کے مقابلے میں دیندار ،شریف اور متقی افراد کی سیاسی حمایت کرے اور عوام النّاس میں یہ شعور پیدا کرے کہ حقِ اقتدار صرف اور صرف خداکے نیک اور صالح بندوں کا حق ہے۔ اقتصادی تقویٰ:اقتصادی تقوی کی دو اقسام ہیں:نمبر ایک کہ انسان مالِ حرام کھانے سے بچے اور دوسروں کے مال پرہاتھ صاف نہ کرے۔نمبر دو کہ اگرانسان کسی بلند منصب پر فائز ہوجائے توکمزور ،غریب اور نادار لوگوں کا حق نہ مارے،دین و شریعت کی مکمل طور پر پاسداری کرتے ہوئے ہر حقدار تک اس کا حق پہنچائے۔ جنسی تقویٰ:جنسی تقویٰ یہ ہے کہ انسان معاشرے میں غیرت مندانہ زندگی بسر کرے،دوسروں کی اوراپنی عزّت و ناموس کی حفاظت کو ہر صورت میں مقدّم جانے، ،لاابالی اور بدمعاش لوگوں کی سرزنش کرے اور اپنے کسی بھی قول و فعل سے کمینے اور پست فطرت لوگوں کی حوصلہ افزائی نہ ہونے دے۔افرادِ معاشرہ کو جنسی مسائل سے نجات کا شعور اور بروقت ازدواج کی ترغیب دلائے۔ طبّی تقویٰ:تقویٰ کی ایک اہم ترین قسم طبّی تقویٰ ہے،طبّی تقویٰ یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کوبیماریوں سے محفوظ رکھنے کے لئے نہ صرف یہ کہ حرام چیزوںکے کھانے پینے سے پرہیز کرے بلکہ حلال چیزوں کو بھی قرآن و حدیث کی روشنی میں استعمال کرے۔ انصاف: روحانیت کیاہے، اور ہم روحانیت کا مرتبہ کس طرح حاصل کرسکتے ہیں؟ حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی : روحانیت کی پہلی سیڑھی مراقبہ ہے۔ موجودہ مشینی دور میں جہاں اسباب سے ہونے بننے اور پلنے کا چرچا عام ہے۔ وہاں روحانی مراقبہ اللہ تعالیٰ (یعنی مسبب الاسباب) سے پہچان اور شناسائی کا اولین اور اکسیر ذریعہ ہے اور اہل اللہ کی ترتیب میں لازم و ملزوم ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ آج کی نفسانفسی میں جہاں ڈیپریشن‘ ذہنی کشمکش مسنون اعمال سے بیزاری عام ہے وہاں روحانی مراقبہ اکسیر شفاء ہے۔ انصاف: استخارہ کی حقیقت کیا ہے؟ حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی :ہم اکثر غلط فہمی میں رہتے ہیں کہ ہم استخارہ کریں گے تو ہمیں ایک بابا جی نظر آئیںگے انہوں نے بڑا سا چوغہ پہن رکھا ہوگا اور ہاتھ میں ڈنڈا لیے ہوں گے‘نہیں !اللہ والو ایسا نہیں ہے۔استخارہ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اْس بات کو،اْس عمل یا اْس کام کے متعلق آپ کے دل میں توجہ ڈال دیں،اپنی خیر آپ کے دل میں ڈال دیں۔اللہ کا اْس کام کیلئے آپ کو متوجہ کردینا اس کو استخارہ کہتے ہیں اور اس کیلئے سچی تڑپ کا ہونا بھی ضروری ہے۔اللہ والوں کی باتیں قیمتی موتی ہوتی ہیں ان کو توجہ سے سناکریں۔ ایک تجربہ کی بات عرض کرتاہوں ،مجھ فقیر کا بھی تجربہ ہے اور بڑے بڑے اللہ والوں کا بھی مشاہدہ ہے کہ کوئی بھی عمل اگر آپ باقاعدگی سے چالیس دن کرلیں تو وہ عمل حیرت انگیز اثرات والا ہوجاتاہے لیکن تجربہ یہ ہے کہ باقاعدگی وشرائط سے کسی عمل کو مسلسل چالیس دن کرنا ناممکن نہیں تو کم ازکم مشکل ترین ضرور ہے۔عموماً کوئی عمل چالیس دن آدمی نہیں کرپاتا۔کہیں نہ کہیں کوئی کمی رہ جاتی ہے۔جیسے بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے چالیس دن پانچوں وقت کی نماز تکبیر اولیٰ کے ساتھ پڑھنی ہے پڑھنے والے پڑھ بھی لیتے ہیں ناممکن نہیں ہے لیکن مشکل ضرور ہے۔ چنانچہ ان بزرگ نے اس شخص کو چالیس دن اپنی محفل میں آنے کو کہا۔سمجھنے کی بات یہ ہے کہ انہوں نے چالیس دن اس شخص کو اپنی محفل میں کیوں بلایا تھا؟اس شخص کو اس لیے بلایا تھاکہ اس عمل کے لینے کی ان کے اندر استعداد پیدا ہوجائے۔ یہ جو اللہ والے، فقیر بار بار کہتے ہیں کہ ہمارے پاس آئوہماری مجلس ،ہماری محفل میں آیا کرو دراصل اللہ والے دل کی دنیا ،دل کی زمین کو تیار کرنااور نرم کرنا چاہتے ہیں،اللہ والوں کے پاس بار بار آنے سے دل کی زمین نرم ہوتی ہے جب دل کی زمین نرم ہوتی ہے توپھر اس کے اندر جو بھی بیج ڈالیں چاہے وہ اعلی ہوں یا گھٹیافصل اعلیٰ ہوگی اور جس کے دل کی زمین سخت ہوگی ،سیاہ ہوگی اس میں اعلیٰ یا اچھا بیج ڈالیں اس کا فائدہ نہ ہوگا،اس کی فصل نہیں اْگے گی۔اب چالیس دن کے بعد وہ شخص کہنے لگے کہ:’’ مجھے آپ کے حکم کے مطابق چالیس دن ہوگئے ہیںاب آپ بتائیں کہ سورۃ فاتحہ کس طرح میرے لیے اسم اعظم بنے گی؟‘‘بزرگ آنکھیں بند کر کے فرمانے لگے:تونے چالیس دن گن کر گزارے ہیں؟ اس شخص نے کہا: ’’آپ نے خود ہی کہا تھا کہ چالیس دن میری مجلس میں آ‘‘ اللہ والے نے کہا: ’’میںنے چالیس دن گننے کو نہیںکہاتھابلکہ اللہ کی محبت اور تعلق پیدا کرنے کیلئے کہاتھاتو صرف دن گنتارہااللہ کے ساتھ تیرا تعلق پیدا ہی نہیں ہوا تیرے دل کی دنیا میں وہ استعداد پیدا ہی نہیںہوئی کہ میں تجھے وہ موتی دے سکوں۔‘‘ اللہ والے بزرگ نے کہا :’’پھر سے محفل میں آنا شروع کراوراللہ تعالیٰ کا تعلق پیدا کر ،محبت پیدا کر جیسے مجنوں نے لیلیٰ سے محبت ، عشق کیا تھاتو بھی پاگل ہو کر دیوانہ ہو کر اللہ سے محبت اور تعلق پیدا کر‘‘اس شخص کی طلب سچی تھی ،اس کی لگن سچی تھی اس نے کہا ٹھیک ہے! میں پھراس محفل میں آئوںگا۔اگر اس کی طلب سچی نہ ہوتی تو کہتا آپ کی نیت ہی خراب ہے آپ مجھے کچھ دینا ہی نہیں چاہتے۔وہ شخص محفل میں آتا رہا اور اللہ والے گنتے رہے ،پہلے اس شخص نے گنا تھا اب اللہ والے گنتے رہے۔جب چالیس دن ہوئے وہ شخص حاضری دے کر جارہاتھا!اللہ والے نے بلایا اور پوچھا کتنے دن ہوگئے ہیں؟ اس نے کہا پتہ نہیںشاید چند دن ہوگئے ہیں۔اللہ والے نے کہا : ’’نہیں! چالیس دن ہوگئے ہیں۔‘‘اللہ والے نے کہا: ’’میں تجھے بتاتاہوں کہ سورۃ فاتحہ تیرے لیے اسم اعظم کیسے بنے گی تو تین کام کرلے۔‘‘ اللہ والے نے کہا:’’سب سے پہلی چیز تو رزق حلال کا لقمہ کھا۔‘‘ہمارے معاشرے میں حلال اور حرام کی تمیز ہی مٹ گئی ،دل کے جذبوں سے یہ بات ہی چلی گئی کہ مال اور رزق حلال ہے یا حرام۔جب سے ہم نے سفید کپڑے پہننا چھوڑے ہیںتب سے ہمیں معلوم ہی نہیں کہ ہمارے ساتھ کونسی میل، کونسا گناہ لگا ہوا ہے۔دوسری چیز سورۃ فاتحہ کو کثرت کے ساتھ نیک لوگوں کے مجمع میں جا کر پڑھنااور تیسرا گناہوں سے بچنا ،چاہے وہ بڑے گناہ ہوں یا چھوٹے۔سورۃ فاتحہ کو نیک لوگوں کے مجمع میںجا کر کثرت سے پڑھنا بہت بڑا راز اور گہری بات ہے۔اس میں راز یہ ہے کہ نیک لوگوں کے مجمع میںکوئی نیک آدمی ہوگا جسے اللہ جل شانہ نے سورۃفاتحہ کی تاثیر دے دی ہوگی۔اْس کے طفیل اللہ تعالیٰ اس کوبھی اس کی تاثیر عطا کردیں گے۔ کیونکہ بعض اوقات بھری مسجد میں ایک نمازی ایسا ہوتاہے جس کی وجہ سے تمام نمازیوں کی نماز قبول ہوجاتی ہے اور بعض بزرگوں نے کہا کہ تمام حاجیوں میں سے ایک حاجی ایسا ہوتاہے کہ جس کی لبیک قبول ہوتی ہے۔اْس نمازی اور اْس حاجی کی وجہ سے باقی سب کی عبادت بھی قبول ہوجاتی ہے ۔ انصاف:آج کل ہمارے معاشرے میںبچوں کی تعلیم و تربیت سب سے بڑا مسئلہ ہے، آپ کے نزدیک بچوں کی تعلیم و تربیت میں بگاڑ کیسے پیدا ہوتا ہے؟ حکیم محمدطارق محمود مجذوبی چغتائی : آپ کی بات بہت حد تک درست ہے ۔کچھ بچے والدین کی طرف سے زبردستی کرنے پر ہوم ورک کرنے تو بیٹھ جاتے ہیں‘ مگر بار بار اٹھ کر ادھر ادھر گھومنے پھرنے لگتے ہیں۔ اس کا علاج پڑھائی کے دوران آرام کے وقفے ہیں۔ پڑھائی لکھائی بلکہ کسی بھی ذہنی کام کے دوران آرام کے وقفے لازمی ہیں۔ جبکہ تعلیم و تربیت میں کمی رہ جانے کا ایک بڑا سبب بچوں میں خوداعتمادی کی کمی بھی ہے ۔بچوں میں خود اعتمادی کی کمی کی کئی ایک وجوہات ہیں،دیکھیں،والدین جب اپنے بچوں سے شفقت کا معاملہ کرتے ہیں تو بچوں کو اس سے بڑھ کر کوشش ہوتی ہے کہ وہ بھی اپنے والدین کو خوش رکھیں اور کسی معاملے میں شکایت کا موقع نہ دیں ایسے بچوں میں فرمانبرداری اور خوداعتمادی کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے اس کے برعکس وہ والدین جو اپنے بچوں سے سختی کامعاملہ کرتے ہیں تو ایسی صورت حال میں بچے باغی ہوجاتے ہیں ،بچوں پر سختی صرف ان کی اصلاح کے لیے کرنی چاہیے۔ بے جاروک ٹوک بچوں کو ضدی اور ہٹ دھرم بنادیتی ہے۔ یہی پودے جب تناور درخت بن جاتے ہیں تو ان کو سیدھا کرنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ والدین اس بات پر توجہ دیں۔ اکثر یہ ہوتا ہے کہ باپ معمولی بات پربچوں کے سامنے شور شرابا کرنا شروع کردیتا ہے یا بچوں کی غلطی پر بجائے نرمی اور اصلاح سے کام لینے کی بجائے انہیں سب کے سامنے خوب بے عزت کیا جاتا ہے‘ اس طرح بچے احساس کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں اور یہ احساس محرومی بچوں میں خوداعتمادی کے پرخچے اڑا دیتا ہے۔ بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ بچے سکولوں میں صرف ڈر کی وجہ سے سبق بھول جاتے ہیں تو اس میں ان معصوم بچے بچیوں کا کوئی قصور نہیں ہوتا کیونکہ سبق سناتے وقت ان کامعصوم ذہن صرف اس بات میں اٹکا ہوتا ہے کہ جیسے والدین معمولی غلطی پر سختی کا مظاہرہ کرتے ہیں تو کیا معلوم یہ اساتذہ بھی ایسے ہی کریںگے۔ ایک خوف ہوتا ہے جو ان کے دلوں میں بھرا ہوتا ہے‘ بہت سے ایسے بچے غیرمعمولی صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں لیکن خوداعتمادی نہ ہونے کی وجہ سے ان کی صلاحیتوں کو یوں زنگ لگ جاتا ہے‘ ایسے بچے بچیاں جب احساس محرومی کے سائے تلے پلتے بڑھتے ہیں تو یہ احساس ان کی زندگی کا ایک حصہ بن جاتا ہے۔ وہ کبھی کھل کربات نہیں کرسکتے۔ دور حاضر میں بچوں میں خوداعتمادی نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے ’’والدین کے آپس میں مزاج نہ ملنا ہے‘‘ والدین جب بچوں کے سامنے جھگڑتے ہیں تو بچوں کے بچپن سے ہی دلوں میں خوف بھرجاتا ہے وہ گھبرا جاتے ہیں‘ سکولوں میں بہت سے ایسے بچے شامل ہیں جن سے اساتذہ کی صرف یہی شکایت ہوتی ہے‘ بچے نافرمان ہیں اس کی بڑی وجہ یہی ہے جب ٹیچرز بچوں کو الٹے سیدھے اور بْرے کاموں سے منع کرتے ہیں تو بچے سوچ میں پڑجاتے ہیں کہ جب والدین ہمیں غلط کاموں سے نہیں روکتے جب وہ ہمارے خیرخواہ نہیں تو کوئی دوسرا کیسے ہمارا خیرخواہ ہوسکتا ہے؟ یہ بات سوچے سمجھے بغیر کہ والدین اور استاد میں کیا فرق ہے؟ والدین ہمیں آسمان سے زمین پرلاتے ہیں لیکن استاد زمین سے آسمان کی بلندیوں تک پہنچاتا ہے ۔ میں تمام والدین سے درخواست کرتا ہوں اپنے معصوم بچوں خاص طورپر بیٹیوں کو کبھی نہ دھتکاریں‘ کبھی انہیں تنہا نہ چھوڑیں‘ یہ تو اللہ کی رحمت اوربہت معصوم ہوتی ہیںاور والدین علیحدگی جیسا بڑا فیصلہ کرتے وقت بچوں کے مستقبل کے بارے میں ضرور سوچا کریں کیونکہ ان کا ایک غلط یاصحیح فیصلہ بچے کے مستقبل کو بگاڑیاسنوارسکتا ہے۔ انصاف:آپ کا اصل کام تو حکمت ہے، پھر یہ لوگوں کو وظائف بتانے کا سلسلہ کب شروع کیا؟ حکیم محمدطارق محمود مجذوبی چغتائی :مجھے یہ عنایت میرے مرشد کی جانب سے کی گئی جس کے بعد میں نے یہ کام شروع کیا۔ انصاف: آپ نے تسبیح خانہ بنا رکھا ہے ،کیا عبادت ایسے ہی مخصوص مقامات پر کی جا سکتی ہے، اللہ تعالی تو ہر جگہ موجود ہیں، اور اللہ کا نام توکہیں بھی لیا جا سکتا ہے پھر ایساکیوں؟ حکیم محمدطارق محمود مجذوبی چغتائی :آپ کی باتیں سو فی صد درست ہیں، مگر تسبیح خانہ بنانے کا مقصد لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی جانب راغب کرنے کا ایک بنیادی مقصد ہے، جولوگ یہاں آتے ہیں، ان کو طریقہ بتا یا جاتا ہے، راہنمائی دی جاتی ہے، لہذا تسبیح خانہ خالصتاً ایک عبادت گاہ ہے ، جہاں اللہ تعا لیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی تعلیمات کی بابت آگاہی دی جاتی ہے اورلوگوں کو تسبیح اور مصلے سے جوڑا جاتا ہے اور ذکر الٰہی کی طرف راغب کیا جاتا ہے۔کیونکہ بلاشبہ دلوں کا سکون ذکر الٰہی میں ہے اور اگر انسان اپنی روزمرہ زندگی اور آخرت میں راحت و سکون اور کامیابی کا طلب گار ہے تو اسے چاہیے کہ ذکر الٰہی اور مسنون اعمال کو اپنا معمول بنا لے۔ انصاف:ایسا کیوں ہے کہ روحانی شخصیات کے پاس روحانی علاج اورراہنمائی حاصل کرنے کے لئے آنے والوں میں زیادہ تعداد خواتین کی آتی ہے؟ حکیم محمدطارق محمود مجذوبی چغتائی :مسکراتے ہوئے، آپ کی معلومات درست ہیں واقعتا راہنمائی کے لئے خواتین کی تعداد زیادہ آتی ہے ۔چونکہ معاشرے میںخواتین سب سے زیادہ مشکلات سے دوچار طبقہ میں شامل ہوتی ہیں، لہذا وہ راہنمائی کے لئے تشریف لاتی ہیں۔اور ان کواپنے گھریلو معاملات کی بہتری کے لئے مختلف آیات اور احادیث کی بابت آگاہی دی جاتی ہے جس کی وہ تسبیح کرتی ہیں، آگے پھل دینا اس پاک ذات کا کام ہے۔ انصاف:سنا ہے آپ صحرائوں کی خاک بھی چھانتے ہیں،اور آپ کے پاس نوادرات کا ایک بڑا ذخیرہ بھی ہے؟ حکیم محمدطارق محمود مجذوبی چغتائی :جی ہاں میں صحرائوں میں بھی جا کر اللہ تعالیٰ کے پاک کلام کی تبلیغ کرتا ہوں، وہاں کے لوگوں میں گھل مل کر سرکار مدینہ ﷺ کی محافل سجاتا ہوں۔ جس سے مجھے روحانی اطمینان اور خوشی حاصل ہوتی ہے۔آئندہ چند روز میں پھر جارہاہوں۔یہی نہیں دنیا کے دیگر ممالک کا بھی دورہ کرتا رہتا ہوں۔دنیا بھر میںکروڑوں کی تعداد میں لوگ مجھ سے اور میرے ادارے سے جڑے ہوئے ہیں جو کہ اللہ تعالیٰ کا مجھ پر خاص کرم ہے۔اور میرے پاس نوادارت کا کافی ذخیرہ ہے جو میرا شوق ہے اور عنقریب میں ان نوادرات کو ایک میوزیم کی شکل میں محفوظ کرنے والا ہوں۔