پرانی ملازمہ آئی اور بولی مکہ کی تیاری کریں
مسلمان مشرق میں ہو یا مغرب میں ، امیر ہو یا غریب، گورا ہو یا کالا ہر دل میں مکہ اور مدینہ کی چبھتی ہوئی خواہش اور ارمان موجزن رہتا ہے، اس کی اولین تمنا اپنی آنکھوں سے اللہ کا گھر دیکھنے‘ مدینے کی گلیاں گھومنے اور روضہ اطہرﷺ کی زیارت کرنا ہوتی ہے۔ اس میں مال و اعمال کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہو جائے تو قسمت سنور جاتی ہے۔ اللہ رب العزت کے لطف و عنایت سے وہاں کی حاضری ہوتی رہتی ہے۔ لیکن اس بار عمرے کی سعادت بالکل غیر متوقع طور پر ہوئی۔ جب بھی جاتی ہوں ہر بار کی خوشی اور ولولہ الگ ہوتا ہے یقین جانیے پروگرام بنتے ہی نیندیں اڑ جاتی ہیں۔ جوش ایمانی سے دل لبریز ہو جاتا ہے مسرت و انسباط کی لہریں عجب طلاطم برپا کردیتی ہیں۔ وفور جذبات سے اشک رواں ہو جاتے ہیں۔ اکثر مجھے سات برس قبل کا واقعہ یاد آجاتا ہے جب گھر کی پرانی ملازمہ صبح ہی صبح خوشی خوشی آئی اور کہا کہ مکے کی تیار کرو۔ اس وقت میں عدت میں تھی، نہ کوئی ذکر‘ نہ پاسپورٹ‘ نہ وسائل‘ نہ امید۔ اس کی بات سن کر کہا :اماں تجھے کس نے کہہ دیا ہے؟
ایسی میری تقدیر کہاں؟ کہ میں مکہ مکرمہ جاؤں
اس نے کہا رات میں نے خواب دیکھا ہے کہ قافلہ مکہ جارہا ہے اور تم سب سے آگے ہو ‘میں نے بے بسی سے کہا اماں ایسی میری تقدیر کہاں؟ لیکن وہ بضد رہی اور بار بار کہتی تم نے ضرور جانا ہے (اللہ اسے جوارِ رحمت میں جگہ دے) وہ تعبیر ایک سال کے بعد ملی ہم اچانک ہی عمرے کی حاضری کو آئے۔لگتا تھا کہ یہ پہلا اور آخری آنا ہے‘ عمر بیت گئی دعائیں مانگتے مانگتے۔ تب یہ حسرت پوری ہوئی تھی لیکن تڑپ اور خواہش دوبارہ آنے کی بڑھتی رہی۔ دعا کرتی یا اللہ ایک بارپھر بلالے۔ اور پھر بحکم ربی ریاض میں روزی کا سلسلہ بندھا تو حاضری کے مواقع ملنے لگے لیکن جاکر تشنگی بڑھ جاتی ہے محبت اور عقیدت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ دعائوں میں عاجزی اور حاضری کی تمنا تیز تر ہو جاتی ہے۔
گھر سے نکلتے وقت تو دل اتنا مضطرب اور بے تاب نہیں ہوتا لیکن طائف پہنچ کر کیفیت کچھ اور ہو جاتی ہے۔ عمرہ کی نیت کرتے ہی محبتیں اور کیفیتیں بدل جاتی ہیں۔ حرم میں تو دھڑکنیں بے اختیار ہو جاتی ہیں۔ جوں جوں قدم صحن حرم کی طرف بڑھتے ہیں ہوش و خرد مفلوج ہونے لگتے ہیں لبیک کی صدا جسم میں سنسناہٹ اور ہلچل پیدا کردیتی ہے ‘قدم لرزتے اور ڈگمگاتے محسوس ہوتے ہیں۔
رش میں بھی غلاف کعبہ سے لپٹنے کا موقع ملا
کعبہ پر نظر پڑتی ہے تو اپنے گناہوں، غلطیوں اورپشیمانیوں سے آنکھیں نم ہو جاتی ہیں بہت کچھ مانگنے کی طلب میں آئے ہیں لیکن سب ذہن سے محو ہو جاتا ہے۔ اے اللہ ہم حاضر ہیں۔ اے اللہ ہم حاضر ہیں کہتے وقت لہجے کی لرزش، گناہوں کا اعتراف ہی ہوتا ہے۔ جتنی بار جائو حالت ایسی ہی ہوگی۔ حرم کعبہ کا منظر بھی قابل دید ہوتا ہے جہاں دیوانہ وار ہر ملک اور ہر نسل کے لوگ طواف میں مصروف ہوتے ہیں نہ کوئی محمود نہ ایاز ایک ہی لباس اور ایک ہی لگن میں مگن ہوتے ہیں۔ سب ہیبت سے خوفزدہ اور جان و مال سے فدا ہونے کو تیار۔ حرم کے قریب رش بھی بے تحاشا ہے جیسے انسانوں کا سیلاب آگیا ہو۔ اس جم غفیر میں بچوں کی تعداد بھی پہلے سے زیادہ ہے کچھ کندھوں پر سوار ہیں اور کچھ نے ویل چیئر کا سہارا لیا ہے اس رش میں غلاف کعبہ کو چھونا بھی محال ہے حجر اسود تک تو رسائی ہی ناممکن تھی لیکن اللہ تعالیٰ کی کرم نوازی سے غلاف کعبہ سے لپٹنے کا موقع بھی مل گیا اور رکن یمانی تک بھی پہنچ گئے لیکن حجراسود کے بوسے کی طلب مایوس کردیتی طواف کا آغاز کیا ہی تھا کہ خانہ کعبہ کے گرد فیتے کا حصار باندھ دیا گیا۔ یوں ہم پہلی رو میں فیتے کے ساتھ چلتے رہے۔ ساتوں چکروں میں حجراسود عین نگاہوں کے سامنے آجاتا شاید بوسہ لیتے وقت بھی یوں دید نہ ہوتی نظروں سے بے شمار بوسے لے کر دل کی اور آنکھوں کی پیاس بجھتی رہی پھر آب زم زم پی کر تازہ دم ہوگئے‘ چہرے پر بہار آگئی دل کو قرار آگیا۔ صفا ومروہ آکر بھی سعی کرتے وقت ایمان تازہ ہو جاتا ہے۔ وہاں حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام اور حضرت حاجرہ علیہ السلام کی بے کلی کا خیال آیا حضرت اسماعیل علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ننھی منی صورت اور ایڑیاں رگڑنے کا تصور دل کی دنیا تہہ و بالا کر دیتا ہے۔ انسان کو ہر تکلیف، پریشانی اور تھکن میں بھی سرور اور مزہ آتا ہے اس بندہ پرور اور بندہ نواز سے قلبی رابطہ پیوستہ ہو جاتا ہے۔
مدینہ منورہ کا سفر! کیفیت کچھ نہ پوچھیے!
ان احکام کی ادائیگی کے بعد جب عاشقان نبی ﷺ کا قافلہ مدینہ منورہ رواں دواں ہو جاتا ہے اس سفر کی شدت چاہت محبوں سے پوچھو ایسی چستی، تن دہی اور جوش نظر آتا ہے۔ نعتیہ کلام پڑھتے، درود و سلام کی صدائیں بلند کرتے جاتے ہیں۔ جوں جوں مدینہ قریب آتا ہے دھڑکنوں پر اختیار نہیں رہتا انسان خود کو روحانی فضائوں میں محسوس کرتا ہے۔ اپنی قسمت پر رشک آنے لگتا ہے ہرشے خوبصورت نظر آتی ہے۔زندگی کی ازلی اور دلی خواہش پوری ہورہی ہوتی ہے جب میناروں پر نگاہ جاتی ہے تو فرط جذبات سے آنسو رواں ہو جاتے ہیں بے چینی اور بے تابی عروج پر ہوتی ہے گنبد خضریٰ پر نظر جاتی ہے تو تجلیات سعدیہ کا ورد جاری ہو جاتا ہے۔ ریاض الجنۃ کی کشش سب سے بڑھ کر ہے‘شمع رسالت کے پروانے مضطرب نگاہوں اور مشتاق نظروں سے روضہ پاکﷺ کی طرف جاتے ہیں۔ یہ دن عید سے بڑھ کر ہوتاہے خوش بختی اور شکر گزاری میں یہی کہہ سکتی ہوں کہ منگتے‘ آہوں اور سسکیوں میں فریادیں کرتے ہیں‘ پیارے نبیﷺ کی تڑپ یہاں لائی ہے عبادتوں کا رنگ نرالا ہے۔ مسجدنبویؐ اور مدینہ پاک میں سکون ہی سکون ہے محبوب حقیقی کی محبت اور عشق نبیﷺ کی راحت میں خشوع و خضوع سے عبادت ہمہ وقت جاری و ساری رہتی ہے میزبان رسول اللہﷺ کی خوشنودی میں پیش پیش رہتے ہیں اللہ کو بندگی پسند ہے اور یہی کیفیتیں اور چاہتیں یہاں نظر آتی ہیں کیونکہ مدینہ منورہ ہر شخص کو گناہوں سے دور کرنے میں ایسا مددگار ہے جیسے بھٹی چاندی کو صاف و شفاف کر دیتی ہے۔ اہل ایمان کے دل منور ہو جاتے ہیں ‘یہاں کی حاضری سے ایمان بڑھتا ہے زندگی روحانیت سے سرشار ہو جاتی ہے یہاں سے واپسی کا سفر بہت ہی اذیت دہ اور پرتھکن ہو جاتا ہے دل تسکین کی دو لت سے خالی ہو جاتا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں