خوراک کے بچنے اور محفوظ رکھنے کے حوالے سے خواتین اسے نظرانداز کرنے کی اتنی عادت ہوچکی ہے کہ وہ اس مسئلے کو خاطر میں نہیں لاتیں۔ ادھر کھانا بچا ادھر اسے ضائع کردیا۔ بچے ہوئے کھانے کو دوبارہ قابل استعمال بنانے اور غذائیت کو محفوظ رکھنے کیلئے اپنے بڑوں سے مشورے لیے جاسکتے ہیں
گوشت محفوظ کرنے کے روایتی طریقے : عیدالاضحی کی آمد سے قبل اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ گھر کے فریج اور ڈیپ فریزر میں انتہائی ضرورت کی حامل اشیاء کے علاوہ کوئی سامان نہ رکھا جائے ۔ خاص طور پر ڈیپ فریزر میں زیادہ گنجائش ہونے کے باعث گوشت کی مناسب مقدار کو خاص حد تک بہ آسانی محفوظ رکھا جاسکتا ہے ۔لیکن لوگوں کو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ گوشت اتنا ہی فریزکریں جتنی ضرورت ہو‘ زیادہ عرصہ تک فریج میں رکھے گئے گوشت میں غذائیت باقی نہیں رہتی۔ قربانی کا گوشت فریز کرنے سے قبل اسے دھونے سے گریز کریں کیونکہ گوشت پر پانی لگنے کے بعد اسے رکھا جائے تو اس میں بیکٹیریا پیدا ہوجاتا ہے جو گوشت کو خراب کردیتا ہے۔گوشت کو تھوڑی دیر چولہے پر رکھ کر بھونیں اور پھر اسے المونیم فوائل میں لپیٹ کر رکھ دیں جس کے بعد گوشت دو ماہ تک بالکل محفوظ رہے گا۔
گوشت سکھانے کا طریقہ :گوشت میں نمک ملا کر اسے دھوپ میں سکھالیں ۔ نمک کے علاوہ سرکہ یا لیموں لگا کر بھی گوشت کو سکھایا جاسکتا ہے اور بعد میں حسب ضرورت استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ گوشت کو گھی یا تیل میں تل کر نمک ڈال کر بھی دو تین دن گرم کر کے استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ آج کل موسم متوازن ہے لہٰذا گوشت کو نمک ، سرکہ یا لیموں کا رس لگا کر کئی دن تک استعمال کیا جاسکتا ہے
کھانا بچ جائے تو پھینکئے نہیں! اس کاحل جان لیجئے
یوں تو ہر باورچی خانے کے بہت سے مسائل ہوتے ہیں مگر کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو باورچی خانے سے نکل کر اب صحت کے مسائل بھی شامل ہوچکے ہیں۔ غذائی اشیاء اور خوراک کا جتنا استعمال کیا جاتا ہے اس سے کہیں زیادہ ہم ڈسٹ بن کی نظر کردیتے ہیں۔ بچے ہوئے کھانے کو محفوظ کرنا اور دیگر اشیاء خورد نوش کی تازگی برقرار رکھنے کے مسئلے نے انگلینڈ جیسے ترقی یافتہ ملک کے لوگوں کو بھی بیدار کیا ہے۔
کچن ہر گھر کا بنیادی جز ہے اور اس کے مسائل بھی تقریباً ایک جیسے ہوتے ہیں۔ خوراک کے بچنے اور محفوظ رکھنے کے حوالے سے خواتین اسے نظرانداز کرنے کی اتنی عادت ہوچکی ہے کہ وہ اس مسئلے کو خاطر میں نہیں لاتیں۔ ادھر کھانا بچا ادھر اسے ضائع کردیا۔ بچے ہوئے کھانے کو دوبارہ قابل استعمال بنانے اور غذائیت کو محفوظ رکھنے کیلئے اپنے بڑوں سے مشورے لیے جاسکتے ہیں۔ وہ دور یاد کیجئے جب فریج کے بغیر پانی ٹھنڈا کرنے کیلئے اسے مٹکوں اور صراحیوں میں رکھا جاتا تھا‘ گوشت کو دھوپ میں سکھا کر خشک حالت میں ذخیرہ کیا جاتا‘ سبزیوں کو ململ کے نرم کپڑے میں لپیٹ کر بار بار استعمال کیا جاتا۔ بچے ہوئے کھانوں کو یکجا کرکے نئی ڈش بنائی جاتی اور باسی روٹی کو چور کر توے پر گھی اور چینی کے ساتھ ملیدہ بنا کر بچوں کو کھلایا جاتا۔ دور جدید کی سہولتوں کے باوجود ہم بہت سے مسائل میں الجھے ہوئے ہیں۔ یہ چھوٹے چھوٹے عام مسائل کبھی کبھار جی کا جنجال بن جاتے ہیں۔ انہیں سمجھداری سے حل کیا جاسکتا ہے۔ کچھ کوکنگ ایکسپرٹ نے اس مسئلے کے حل کے لیے Wrapingکو محفوظ اور قابل اعتبار طریقہ قرار دیا ہے۔
اگر سالن بچ گیا ہے اور آپ پریشان ہیں کہ اتنی محنت سے بنایا اب کیا کیا جائے تو اپنے بچے ہوئے یا زائد کھانے کو کسی ایئرٹائیٹ پلاسٹک کے ڈبے میں رکھ کر فریز کردیں اس طرح جب آپ کا دل چاہے اسے گرم کرکے دوبارہ استعمال میں لایا جاسکتا ہے۔ ذائقہ اور غذائیت بھی پہلے جیسی ملے گی۔ یہ ترکیب ان خواتین کیلئے کارآمد ثابت ہوگی جو ملازمت کرتی ہیں اور وقت کی کمی کی وجہ سے کھانا بنانے پر توجہ نہیں دے پاتیں۔ آج کل کھانوں کے نئے ذائقے متعارف کروائے جارہے ہیں جن میں کریم کا استعمال بھی کیا جاتا ہے۔ کریم کا پیکٹ یا ٹن ایک بار کھل جائے تو جلدازجلد استعمال کرنے کی ہدایت دی جاتی ہیں ورنہ فریج میں رکھے رکھے وہ پانی چھوڑ دیتی ہے۔ اس مسئلے کویوں حل کیجئے کہ آئس کیوبز ٹرے جس میں برف جمائی جاتی ہے اس میں بقایا کریم ڈال کر فریزر میں رکھ دیں اور جن کھانوں میں ضرورت ہو‘ ایک یا زائد کیوبز نکال کر ڈال دیں۔
ڈبل روٹی اگر رات کو خریدی جائے تو اگلے دن اور اگر صبح خریدی جائے تو رات تک استعمال کے قابل نہیں رہتی‘ کنارے سخت ہوجاتے ہیں اور ذائقے میں بھی فرق محسوس ہوتا ہے۔ اسے بھی اگرفریزر کردیں تو جب چاہیں نکال کر استعمال کرسکتی ہیں۔ یہ ٹھنڈے سلائس ٹوسٹر میں ڈالیں گی تو چند منٹوں ہی میں آپ کی پسند کے مطابق ہوجائیں گے۔ کڑی پتہ‘ پارسلے‘ ہرادھنیا‘ جیسی نرم ڈنٹھل والی سبزیوں کو بیکنگ شیٹ یا فوائل پیپر میں رکھ کر فریزر میں رکھ دیجئے اور حسب ضرورت نکال کر استعمال کریں کیونکہ یہ سبزیاں مقدار کے لحاظ سے زیادہ ہوتی ہیں لیکن ان کا استعمال محدود ہوتا ہے لہٰذا یہ انہیں محفوظ کرنے کا بہترین حل مانا جاتا ہے۔
پاستا کی بے شمار اقسام اور ذائقے نے اسے بچوں اوربڑوں میں یکساں مقبول بنادیا ہے۔ منفرد ذائقہ زود ہضم بھرپور غذائیت اور منٹوں میں تیار ہوجانے کی خوبی نے مغرب کی اس غذا کو مشرق کے ہر گھر میں بسادیا ہے۔ یہ خالصتاً مغربی طرز خوراک ہے لیکن ہمارے یہاں لوگ اسے مشرقی مصالحوں سے بالکل دیسی ذائقوں میں بدل دیتے ہیں پاستہ اگر بچ جائے تو اسے دوبارہ استعمال کرنے کیلئے دھو کرفریزر کردیں پھر جب دوبارہ چاہیں تو ٹھنڈے پانی سے گزار کراس میں نئے مصالحے‘ سبزیاں اور گوشت شامل کریں یا چاہیں تو میکرونیز‘ چلی سوس‘ سویاسوس‘ چکن اور چیز کے ساتھ بیک کرکے نیا ذائقہ بنائیں۔ پسندیدہ سبزیاں بھی ملائی جاسکتی ہیں۔ ریسٹورنٹ میں چونکہ کھانے کی تیاری اور سرد کرنے میں وقت درکار ہوتا ہے اس لیے بہت سے ہوٹلوں میں پاستا کو ہلکا سا ابال کر ٹھنڈا کرکے فریز کردیا جاتا ہے اور ضرورت کے وقت ٹھنڈے پانی سے گزار کر ابلتے ہوئے پانی میں ڈالا جاتا ہے اور یوں 30 سیکنڈ میں یہ تیار ہوجاتا ہے۔ سبزیاں پکاتے وقت بہت سی سبزیوں کو آدھا یا تھوڑا سا استعمال کرکے باقی فریج میں رکھ دیا جاتا ہے۔ اس طرح ان کی غذائیت اور تازگی جاتی رہتی ہے سبزیوں کو بچانے کیلئے ان سے سوپ تیار کیا جاسکتا ہے۔ سبزیوں کاسوپ غذائیت اور ذائقے کے اعتبار سے بے حد لذیذ ہوتا ہے اور دیگر پسندیدہ اشیاء کے علاوہ کھانے میں بچی ہوئی سبزیوں سے بھی تیار کیا جاسکتا ہے۔چاول ایسی غذا ہے جو تقریباً روزانہ ہی کسی نہ کسی شکل میں کھائی جاتی ہے۔ چاول چاہے کتنی ہی اچھی کوالٹی کا کیوں نہ خریدا جائے لیکن ذخیرے کی صورت میں اس میں کیڑے پیدا ہوجاتے ہیں اور بیکٹیریا کا سبب بنتے ہیں جس سے بعدازاں اسہال اور قے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ چاولوں کو ہلکا سا ابال کر یعنی جب آپ کو لگے کہ ابھی انہیں دس سے پندرہ منٹ اور پکایا جائے اس شکل میں ٹھنڈا کرکے فریزر کیا جاسکتا ہے اور دوبارہ گرم پانی میں ڈال کر ابالنے سے تازہ مزہ حاصل ہوجائے گا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں