خوش قسمت اماں
ایک بوڑھی اماں بڑی سی گٹھڑی اٹھائے کہیں جا رہی تھی‘ گٹھڑی وزنی تھی اماں تھک کر درخت کے نیچے بیٹھ گئے‘ کئی لوگ وہاں سے گزرے انہیں گٹھڑی اٹھانے کی التجا کی لیکن کسی نے توجہ نہ دی‘ اتنے میں ایک انتہائی نورانی شخصیت کا حامل خوبصورت جوان تشریف لایا اور پوچھا: اماں اس راستے میں کیوں بیٹھی ہو‘ اماں بولی: بیٹے یہاں سے نقل مکانی کرکے دو میل دور جو پہاڑ والی بستی ہے وہاں جارہی ہوں لیکن اب تھک گئی ہوں‘ گٹھڑی اٹھائی نہیں جاتی۔ نوجوان نے فرمایا: کوئی بات نہیں اماں‘ یہ گٹھڑی میں اٹھا لیتا ہوں چلو تم نے جہاں جانا تمہیں چھوڑ آتا ہوں‘ اماں خوش ہوگئی اور جوان کے ساتھ چلنے لگی‘ خوب دعائیں دینے لگی‘ بیٹے تم کسی نیک ماں باپ کے بچے ہو‘ خدا تمہیں خوش رکھے‘ چلتے چلتے اماں کی مطلوبہ بستی آگئی‘ اماں بولی: بس بیٹا‘ میرا گھر آگیا ہے‘ میری گٹھڑی اتار دو‘اچھا اماں خدا حافظ‘ وہ خوبصورت جوان واپس مڑنے لگے۔ اماں اچانک بولی: بیٹے بیٹے میری ایک بات سنو‘ مجھے نیک اور شریف انسان لگتے ہو‘ شاید آپ کو پتہ نہ ہو آپ کو ایک پتے کی بات بتاؤں‘ ابوجہل نے مجھے بہت ڈرایا ہے کہ اس شہر میں ایک جادوگر ہے جو ہمارے بتوں کو بُرا بھلا کہتا ہے جو اس کی بات سنتا ہے اس پر جادو اثر کر جاتا ہے وہ ماں باپ بہن بھائیوں کو چھوڑ کر اس جادوگر کا ہوجاتا ہے۔ بیٹے میں تمہیں سمجھا جارہی ہوں تو اُس (نعوذباللہ) جادوگر سے بچ کر رہنا۔ جوان کو نصیحت کرنے کے بعد اماں بولی بیٹا تو بہت نیک انسان لگتا ہے بتا تیرا نام کیا ہے۔ پھر کبھی مجھے ضرورت پڑی تو تجھے بلالوں گی۔ جوان نے مسکرا کر فرمایا: اماں جی! جس کو آپ جادوگر (نعوذباللہ) بول رہی ہیں میں وہی ہوں‘ میرا نام ’’محمد‘‘ ﷺ ہے‘ میں بتوں کو چھوڑ کر ایک خدا کی عبادت کیلئے بلاتا ہوں‘ اماں حیرانی سے بولی: کیا کہا بیٹا آپ وہی ہو‘ بیٹے آپ وہی ہیں‘ آپ (ﷺ)کی نورانی صورت دیکھ کر مجھے یقین ہوگیا کہ آپ (ﷺ)سچے پیغمبر ہیں‘ مجھے جلدی سے کلمہ پڑھا کر مسلمان بنادیجئے‘ سچ پوچھیں تو میں نقل مکانی کرکے دوسری بستی میں اسی لیے آئی ہوں تاکہ (نعوذ باللہ) جادوگر کے جادو سے بچ سکوں‘ میرا سامان اٹھائیے اور مجھے واپس مکہ مکرمہ لے چلیے‘ بوڑھی اماں خوشی خوشی واپس آرہی تھی اور ہمارے پیارے نبی کریم ﷺ اماں کی گٹھڑی اٹھائے مسکراتے ہوئے چل رہے تھے۔ (فاران ارشد بھٹی‘ مظفرگڑھ)
مچھیرا‘تین مچھلیاں اور خلیفہ ہارون الرشید
محترم حضرت حکیم صاحب السلام علیکم! اللہ پاک آپ کو لمبی عمر عطا فرمائیں‘ آپ کاسایہ ہمارے سر پر رہے۔ عبقری کے پیارے بچوں کیلئے قناعت پسندی کا ایک واقعہ لکھ رہا ہوں۔ پیارے بچو! آپ نے خلیفہ ہارون الرشید کا نام ضرور سنا ہوگا‘ خلیفہ ہارون الرشید بھیس بدل کر اپنی رعایا کی خبرگیری کیا کرتا تھا‘ ایک بار اس نے دریا کے کنارے ایک شخص کو دیکھا جو جال پھینکے مچھلیاں پکڑرہا تھا‘ خلیفہ نے اس سے پوچھا کہ کوئی مچھلی پکڑی‘ اس نے کہا ابھی تک کوئی نہیں‘ خلیفہ نے پوچھا کوئی امید ہے‘ وہ کہنے لگے: شام تک تین مچھلیاں پکڑلوں گا‘ وہ کیسے؟ خلیفہ نے حیران ہوکر پوچھا۔ تین ہی کیوں؟ وہ کہنےلگے: برسوں ہوگئے ایسے ہی زندگی گزار رہا ہوں‘ قدرت میرے لیے روز تین مچھلیوں کا انتظام کردیتی ہے جونہی تین مچھلیاں پکڑتا ہوں تو جال اٹھا کر گھر چلا جاتا ہوں‘ خلیفہ کو اس کی باتوں سے دلچپسی پیدا ہوگئی تو پوچھا تین مچھلیوں کا کیا کرتے ہو؟ اس نے کہا ایک گھر میں پکا لیتا ہوں باقی دو بیچ کر ضروریات زندگی پوری کرتا ہوں‘ خلیفہ نے کچھ دیر سوچ کر کہا: مجھے اپنا حصہ دار بنالو‘ ہم اکٹھے یہ کام کرتے ہیں‘ مچھیرے نے کہا مجھے اس کی ضرورت نہیں‘ مجھے جو چاہیے مجھے روز مل جاتا ہے‘ کافی تکرار سے خلیفہ نے اسے راضی کرلیا کہ روزانہ کی تین مچھلیوں میں میرا کوئی حصہ نہیں ہوگا اس کے علاوہ جو مچھلیاں پکڑوگے اس میں سے میرا چوتھا اور تین حصے تمہارے۔ خلیفہ نے نئے سامان اور جال کیلئے مچھیرے کو کچھ سکے دئیے اور کہا اگر میں نہ آسکوں تو مجھے بغداد ملنے آجانا‘ میرا نام ہارون الرشید ہے۔ اللہ کی قدرت خلیفہ کی پارٹنر شپ کے بعد مچھلیاں بڑھنا شروع ہوگئیں۔ مچھلیاں پکڑنے والا اپنی تین مچھلیاں علیحدہ کرتا رہا باقی مچھلیاں فروخت کرتا رہا اور خلیفہ کا چوتھائی حصہ الگ کرتا رہا‘ اس وقت سونے چاندی کے سکوں کا راج تھا‘ وہ شخص خلیفہ کی اشرفیاں ایک برتن میں جمع کرتا گیا‘ کافی عرصہ گزر گیا تو وہ فکرمند ہوا کہ کیا انسان ہے کہ میرے ساتھ کاروبار کرنے کے بعد پلٹ کر واپس نہیں آیا‘ آخر اس نے ایک دن ا شرفیوں کابرتن اٹھایا اور بغداد جا پہنچا۔ لوگوں سے ہارون الرشید کا پوچھتا ہوا محل تک جا پہنچا۔ سکیورٹی والوں کو ہدایت تھی کہ جو بھی خلیفہ سے ملنا چاہتا ہو اسے ملوایا جاتا تھا۔ مچھیرا تو خلیفہ کی شان و شوکت اور عظیم الشان دربار دیکھ کر حیران ہوگیا‘ خلیفہ نے اسے پہچان لیا‘ محبت سے اپنے پاس بٹھایا اور پوچھا کیسے آنا ہوا؟ اس نے سر جھکا کر بتایا کہ آپ کے حصے کا منافع لے کر حاضر ہوا ہوں‘ خلیفہ بہت خوش ہوا‘ اس نے اپنا حصہ بھی اسے انعام کے طور پر دے دیا‘ اس کے ساتھ ساتھ بہت تحائف بھی دئیے اور کہا جب تمہاری بات سنی تو محسوس ہوا کہ قدرت نے تمہاری قسمت میں روز تین مچھلیاں لکھی ہیں اور تم قناعت پسند بھی تھے‘ قدرت نے مجھے بے شمار دولت سے نوازا ہے میں نے تیرے ساتھ کاروبار میں اپنی قسمت کا اشتراک کیا تھا جو برکت آئی وہ مشترکہ قسمت کا نتیجہ ہے۔ بچو! اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہر کسی کے ساتھ نیکی کرتے رہیں تاکہ ہماری شراکت سے دوسروں کو بہت سا فائدہ ہو۔ (رب نواز‘ علی بیگ‘ نوشہرہ)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں