والدین کی محبت اپنے بچوںسے مثالی ہوتی ہے لیکن خصوصی بچوں کی تربیت پرورش بیحد صبر آزما کام ہے، لوگ ایسے بچوں کو اداروں میں داخل کروادیتے ہیں پھر بھی ہمارے معاشرے میں انہیں اپنے گھر اور اپنے ساتھ رکھنے کا رجحان عام ہے‘ خصوصی بچے والدین کیساتھ ہی رہتے ہیں
اگر تلاش کریں تو
مجھے سب سے شکایت ہے۔ بیوی، بچوں کو مجھ سے کوئی ہمدردی نہیں۔ دو بیٹے ملازمت کرتے ہیں۔ بیوی بھی کالج میں پڑھاتی ہیں۔ ان لوگوں کو میرا خیال نہیں رہتا۔ میں بھی ایک نجی ادارے میں ملازمت کرتا تھا کہ اچانک انہوں نے فارغ کردیا۔ اب کیا کہیں کوشش کروں، ہر طرف تو بیروزگاری ہے۔ غصہ کرتا ہوں تو کوئی پرواہ نہیں کرتا۔ آخر میں گھر کا سرپرست ہوں مگر کسی کو احساس ہی نہیں۔ کیا میرے گھر والوں کا کوئی نفسیاتی علاج ہوسکتا ہے کیونکہ میرے خیال میں ان میں کوئی بھی نارمل نہیں۔
( عابد شیخ۔ راولپنڈی)
مشورہ: یہ تو اچھی بات ہے کہ آپ کے بیٹے اور بیوی نے گھر کی ذمہ داری سنبھالی ہوئی ہے اور آپ کام نہیں کررہے، پھر بھی وہ لوگ کوئی شکایت نہیں کرتے، ورنہ آپ گھر کے سرپرست ہیں، آپ پر تو سب سے زیادہ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ اگر تلاش کریں گے تو جاب مل ہی جائے گی۔ بیروزگاری ہونے کے باوجود بے شمار لوگ برسر روزگار ہیں۔ آپ نے کوشش کی تو ضرور کامیاب ہوں گے۔ گھر والوں پر ناراض نہ ہوں، اگرکچھ نہیں تو انہیں محبت تو دی جاسکتی ہے۔ غصہ کرکے اپنے وجود کا احساس دلانا تو مریضانہ رویہ ہے۔ آپ کے گھر والے نارمل ہیں، ان کے لئے اچھے جذبات رکھیں۔
یونہی کبھی کبھی
میرے بچے بڑے ہوگئے ہیں۔ میں گھر میں تقریباً فارغ رہتی ہوں۔ گزشتہ دنوں اپنی ایک دوست کے ساتھ خصوصی بچوں کے ادارے میں جانا ہوا۔ مجھے حیرت ہوئی کہ وہاں ایسے بہت سے بچے رہتے ہیں جن کے ماں باپ ہیں اور وہ خود انہیں مستقل وہاں چھوڑ گئے ہیں۔ کئی ایسے بچے تھے جو بالکل لاوارث بھی تھے۔ میں نے ارادہ کیا ہے ان میں ایک بچے کی ذمہ داری میں سنبھال لوں لیکن پھر اپنے بچوں کی طرف سے فکر ہوتی ہے کہ وہ برا مان جائیں گے۔ کبھی میں اسے گھر پر رکھوں گی یا سیر و تفریح کرواﺅں گی تو مسئلہ ہوگا۔ بچوں کو کیسے سمجھایا جاسکتا ہے۔ اور خاص طور پر بڑے بچوں کو سمجھانا تو بے حد مشکل لگتا ہے۔
(فریدہ شیخ۔ کراچی)
مشورہ :والدین کی محبت اپنے بچوں سے کس قدر مثالی ہوتی ہے لیکن خصوصی بچوں کی تربیت و پرورش بیحد صبر آزما کام ہے، اسی لئے لوگ ایسے بچوں کو ان اداروں میں داخل کرواگئے ہیں پھر بھی ہمارے معاشرے میں انہیں اپنے گھر اور اپنے ساتھ رکھنے کا رجحان عام ہے اور بہت سے خصوصی بچے والدین کے ساتھ ہی رہتے ہیں۔ آپ لاوارث بچے سے ہمدردی رکھنے لگیں۔ ہوسکتا ہے کہ یہ کیفیت عارضی ہو اور کچھ دن بعد ان میں سے کسی بچے کو اپنانے کی خواہش ماند پڑجائے۔ اگر آپ ان کے اخراجات برداشت کرسکتی ہیں یا یوں ہی کبھی کبھی کسی کے لئے کوئی چیز لے جاکر دے سکتی ہیں تب تو آپ کے ساتھ وہ مسائل نہ ہوں گے جن پر یہ پریشانی ہورہی ہے۔ اسے گھر پر اپنے ساتھ رکھنے کے بارے میں نہ سوچیں۔
ابتدائی تربیت میں خرابی
میرے بیٹے کو یہ وہم ہوگیا ہے کہ مجھے اس کا خیال نہیں اور میں اس کی والد سے بھی اور گھر پر آنے والے رشتے داروں سے بھی شکایتیں کرتی رہتی ہوں، وہ مجھے غلط سمجھتا ہے۔ میں اس کی بھلائی چاہتی ہوں اور وہ بدگمان ہورہا ہے۔ کوئی سمجھانے والا بھی نہیں، سسرال میں سب میرے خلاف بچے کو بھڑکاتے ہیں۔ ہم سب ساتھ ہی رہتے ہیں۔
(شہلا عمر۔ لاہور)
مشورہ: آپ نے بیٹے کی عمر نہیں لکھی۔ بچوں کی تربیت میں اس طرح کے کئی مشکل مراحل آتے ہیں جب والدین ان کے ساتھ بھلائی کررہے ہوں اور وہ برائی سمجھ رہے ہوتے ہیں۔ اپنی بات کو پر اثر بنانے کیلئے اسے محبت کا احساس دلا دینا چاہیے۔ آپ ماں ہیں خیال تو بہت رکھتی ہوں گی لیکن بچے اس محبت کا احساس نہیں کرپاتے۔ خاندان والوں کے سامنے اسے برا بھلا نہ کہیں اور نہ کسی سے شکایتیں کریں۔ اس طرح بچوں کی عزت نفس متاثر ہوتی ہے۔ والد سے علیحدگی میں بچے کے حوالے سے گفتگو کی جاسکتی ہے اور ضروری ہو تو بچے کو بھی شامل کرلیں۔ جو لوگ بچے کو آپ کے خلاف بھڑکاتے ہیں ان کی پرواہ نہ کریں۔ وقت کے ساتھ حقائق سامنے آہی جاتے ہیں۔
میں بہت خفا ہوا
میری بیوی ایک عزیز کی شادی میں گئی۔ گاﺅں دور ہونے کی وجہ سے ایک رات وہاں رکنا پڑا، دوسرے دن واپس آگئی اور پھر کھوئی کھوئی سی رہنے لگی۔ میرے پوچھنے پر بتایا کہ مجھے شادی میں ایک لڑکا اچھا لگا تھا۔ اس سے محبت ہوگئی۔ یہ سن کر تو میں بہت خفا ہوا اور میرا دماغ خراب ہوا۔ میں نے پوچھا کہ آخر مجھ میں کیا کمی تھی، بہر حال اس نے مجھ سے معافی مانگی اور یہ وعدہ کیا کہ اب کوئی ایسی بات نہ ہوگی۔ مگر میرے دماغ میں غلط باتیں آرہی ہیں کیونکہ آج کل پھر وہ گانے گاتی ہے تو میں بہت پریشان ہوتا ہوں۔ طلاق دینے کے بارے میں سوچتا ہوں۔ (س۔ صوابی)
مشورہ: یوں لگتا ہے آپ نے اسے دل سے معاف نہیں کیا تب ہی تو غلط خیالات آرہے ہیں۔ گانا گانے کی پرواہ نہ کریں۔ آئندہ جہاں جائیں ساتھ جائیں۔ طلاق دینے کے بارے میں سوچنا اچھا نہیں کیونکہ اکثر طلاق دینے اور لینے والے بعد میں بھی ناخوش ہوتے ہیں۔ ساتھ رہنے کی کوشش کرنا بہتر ہے۔کیونکہ اکثر اوقات طلاق کی وجہ سے خاندان کے خاندان ٹوٹ جاتے ہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں