برکت یا کثرت کا ایک آنکھوں دیکھا عبرتناک واقعہ
ابھی خیبرپختونخواکے سفر میں جانا ہوا‘دور پرے کے ایک سفر میں ایک جگہ نماز کا وقت ہوا‘ نماز پڑھنی تھی ہمارے میزبان کہنے لگے یہاں ایک قریب گھر ہے‘ ایک بہت بڑے آدمی کا گھر ہے‘ تقریباً دو سو ایکڑ کا گھر‘ گھر کیا تھا ایک محل تھا‘ اور جگہ جگہ محلات بنے ہوئے تھے‘ انوکھے مہمان خانے‘ مسجد میں گئے تو خوبصورت ترین مسجد‘ نماز ادا کی‘ اہل خانہ نے میزبانی کیلئے قہوہ کا اہتمام کیا‘ کھانے کا پوچھا‘ کھانے کا تو ہم نے منع کردیا‘ میں گھر میں مختلف جگہوں پر گیا‘ بچے ساتھ تھے‘ ان کو بیت الخلاء کی ضرورت پیش آئی‘ جگہ جگہ فوارے‘ نہانے کے حوض (یعنی سوئمنگ پول) مہمانوں کیلئے کرسیاں‘ بیڈ فانوس‘ لیکن سارا گھر خاموش پڑا ہوا تھا‘ ایسے محسوس ہوتا تھا ایک عروج تھا جس کو زوال آگیا‘ ایک جوان پیش پیش ہماری خدمت کررہا تھا بہت خلوص اور سچے جذبے سے‘ میرے بیٹوں نے سمجھا کہ شاید یہ ان کا ملازم ہے پتہ چلا کہ یہ ان کا بیٹا ہے اور کچھ ہی سال ہوئے وہ فوت ہوئے ہیں‘ مجھے ایک پرانے بزرگ کی پرانی بات یاد آئی ’’لَکھ مَرے‘ لَکھ پَال نہ مَرے‘‘ یعنی تم سے لاکھوں چلا جائے لیکن اللہ نے جس کو ذریعے بنایا ہے لاکھوں لانے کا اگر وہ مرگیا اور وہ چلا گیا تو پھر سب کچھ چلا گیا۔ یہ منظر میں نے وہاں دیکھا‘بس ان کے فوت ہوتے ہی ایک ویرانی‘ ایک خاموشی‘ ایک اداسی‘ ایک سناٹا‘ قبائلی اور سرحدی ریت روایت مہمان نوازی چل رہی ہے‘ لیکن مجھے احساس ہوا کہ اب مہمان نوازی میں ان کو کوفت اور مشکل پیش آرہی ہے‘ کیونکہ مجھے وہ وسائل اور وہ روزی کے ذرائع نظر نہیں آرہے تھے‘ زمین کھاگئی آسمان کیسے کیسے نہ گل ہے نہ گونچے نہ پتے ہوئے باغ نذر خزاں کیسے کیسے ہر ایک دل پر ہے داغ ناکامیوں کے ۔ نشان دے گیا بے نشان کیسے کیسے۔
ایک عبرت اور حیرت‘ چاہے تو پل میں بے نشان اور بے نام کردے اور چاہےتو بے نام و نشان کو عالم میں چمکا دے۔
اب ایک دوسرا واقعہ پڑھیے وہ بھی اسی سفر کا ہے میں ایک جگہ جارہا تھا تو ہمارے میزبان نے کہا کہ اپ نے گھر کے باہر تختی پڑھی ہے یہ وہ صاحب ہیں جو ابھی زندہ ہیں ان کے اپنے سات بحری جہاز تھے ‘ ایک بڑی جہازوں کی کمپنی تھی اور ایک دفعہ ان کا ایک جہاز ڈوب گیا یہ فون سن کر پھر تسلی سے سوگئے‘ دولت‘ مال‘ چیزیں بڑی بڑی ملک کی ہستیاں ان کی دوست‘ ان کےساتھ تعلق‘ ان کے ہاں کھانے یا ان کی دعوتیں بس ایک عروج تھا۔ آج حالات ختم ہوگئے‘ گھر میں ایک خاموش لیکن کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں‘ جب میں ان سے ملنے گیا گھر کی دوسری منزل پر ان کا قیام‘ چند کرسیاں میزیں اور صوفے‘ پرانی یادیں دلا رہی تھیں‘ لیکن ان پر مٹی دھول پڑی ہوئی تھی‘ اور ایک احساس تھا کہ لٹ گیا سب کچھ‘ کچھ دیر ان سے ملاقات اور باتیں ہوئیں اپنے عروج کی بات سنائی:
بعض اوقات میں ایک ہی دن میں چار چار ملکوں کا سفر کرتا تھا کہیں کھانا‘ کہیں چائے کہیں ملاقات اور پھر شام کو واپس کراچی آجاتا تھا‘ کراچی میرا بہت بڑ آفس تھا اور بہت بڑا نظام تھا اور پھر جس گاؤں میں وہ رہتے تھے ان کا آبائی گاؤں تھا دو سو افراد روزانہ ان کے دسترخوان سے کھانا کھاتے تھے آج کچھ بھی نہ‘ اور سب کچھ ختم اسی سال سے زیادہ کی عمر‘ اداس چہرہ اور ان کے چہرے کی لکیروں میں اداسی اور عہد رفتہ کی داستانیں عیاں اور فغاں تھیں اور میں پڑھ رہا تھا اور میرا اندر ایک بات کہہ رہا تھا یہ نہ سمجھنا کہ عروج شہرت اور دولت یہ سمجھ عقل‘ علم اور چالاکی سے ملتی ہے‘ نہیں بلکہ اس کی عنایت اور عطا سے‘ کہیں سے کوئی ایسی غلطی نہ ہوجائے وہ سب کچھ نہ چھین لے اور سب کچھ ویران نہ ہوجائے‘ بس ڈرتے رہیں‘ ڈرتے رہیں‘ اور بہت زیادہ استغفار کرتے رہیں‘ اگر خطا ہوجائے جھک جائیں‘ گڑگڑائیں اور ندامت کے آنسو بہائیں‘ امید ہے‘ زوال سے بچیں رہیں گے اور ذلت سے دور رہیں گے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں