Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔ --

پرانے برتنوں سے پرانی بیماریوں کا علاج

ماہنامہ عبقری - اکتوبر 2019ء

قارئین! آپ کیلئے قیمتی موتی چن کر لاتا ہوں اور چھپاتا نہیں‘ آپ بھی سخی بنیں اور ضرور لکھیں (ایڈیٹر: شیخ الوظائف حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی)

قارئین! دیسی برتن ان میں کھانا پینا ہماری نسلوں کے لیے صحت و تندرستی کی واضح دلیل ہے۔ آج بھی ہماری نسلیں ترس رہی ہیں انہیں وہ دیسی برتن تانبے اور پیتل کے جن کو قلعی کیا ہوا ہو۔

یاد نہیں تو ذرا بڑوں سے پوچھ لیں!
آپ کو اگر یاد نہیں تو ذرا بڑوں سے پوچھ لیں تو پھر بھی اگر یاد نہ آئے تو کسی ایسے بڑے ہوٹل اور فوڈ سٹریٹ کی طرف رخ کرلیں جہاں ایک روپیہ کی چیز سو روپے میں ملتی ہے اس کا مہنگا ہونے کی وجہ وہ پرانے تانبے پیتل اور کانسی کے برتن ہیں جن کو ہم چھوڑ چکے ہیں اور وہ انہی میں کھانا دیتے ہیں۔ کراچی میں بھی ایسا ایک ہوٹل ہے جس میں میں نے وہ برتن دیکھے ہیں اب تو آہستہ آہستہ شادیوں میں ان برتنوں کا رواج واپس آرہا ہے جن برتنوں میں کھانا کھا کر کوئی بے اولاد نہیں ہوتا تھا‘ دیکھا آپ میری بات سے چونک گئے‘ آپ کہتے ہیں اس کا بے اولادی سے کیا تعلق ہے؟ کیونکہ جن دھاتوں میں ہم کھانا کھاتے ہیں وہ دھاتیں دراصل ذرا ذرا ہمارے اندر بھی تو جاتی ہیں‘ آخر ساری سائنس چیخ چیخ کر کیوں کہہ رہی ہے کہ پلاسٹک کے برتن کینسر کا سبب بن رہے ہیں‘ کیا ہم پلاسٹک کے برتن کھاتے ہیں؟ چباتے ہیں کیا ہم انہیں گھول کر پیتے ہیں ہرگز نہیں؟ ایک سفر میں ایک صاحب مجھ سے کہنے لگے کہ میں کچھ نہیں سمجھتا تھا کہ پلاسٹک کے برتن سے واقعی کینسر اور لاعلاج بیماریاں ہوتی ہیں۔ مجھے ایک سفر میں ایک انگریز سے ملنے کا موقع ملا۔ یہ اٹلی کا تھا اور انگریز میرے سامنے ایک ہوٹل میں بیٹھا۔ اس نے ایک سفید رنگ کے جار میں ایک گدلا سا پانی رکھا ہوا تھا‘ وہ بار بار اس کو دیکھتا اور پھر پلاسٹک کے برتنوں میں جو کہ بہت نفیس اور خوبصورت اور رنگ برنگے تھے‘ ان میں کھانا کھاتا پھر پلاسٹک کے برتن سے نکلا ہوا نوالہ بہت غور سے تمام پہلوؤں سے بار بار دیکھتا میں یہ چیز مسلسل دیکھے جارہا تھا آخر مجھ سے نہ رہا گیا میں اپنی میز سے اٹھا میں جاکر اس کے ساتھ کی کرسی پر اس کی اجازت لیے بغیر بیٹھ گیا اور بغیر سوچے سمجھے اس سے سوال کیا یہ سب کچھ کیا ہے آپ کیا دیکھ رہے ہیں۔
کیا آپ جراثیم دیکھ رہے ہیں؟
اس جار میں کیا ہے؟ اور اس نوالے میں کون سی ایسی چیز ہے کیا آپ جراثیم دیکھ رہے ہیں کیونکہ انگریز اور جراثیم بہت زیادہ سنے بے ساختہ میرے منہ سے بے شمار سوالات نکلتے چلے گئے اور میں ان سوالات کا جواب سننے کو بے تاب تھا انگریز نے چند لمحے مجھے غور سے دیکھا پھر کہنے لگا مجھے برا تو لگا کہ آپ اچانک آکر میری تمام ریسرچ میں حائل ہوئے ہیں لیکن آپ کی نظروں میں تجسس اور آپ کے چہرے پر حیرت میں اسے دیکھ کر بہت حیران ہوا۔ اس نے اپنی دونوں کہنیاں ٹیبل پر ٹکائیں اور اپنی آنکھوں سے عینک اتار کر میز پر بہت سلیقہ سے رکھی اور لقمہ نگلتے ہوئے اس نے ساتھ پڑی چائے کی پیالی کی چسکی لی اور میری طرف متوجہ ہوا۔
میں نے برتنوں پر پی ایچ ڈی کی ہے
دراصل میں غذائی سائنسدان ہوں اور میں نے برتنوں پر پی ایچ ڈی کی ہے‘ سائنس کہتی ہے کہ پلاسٹک کے برتن استعمال کرنے سے لاعلاج بیماریاں جسم میں داخل ہوتی ہیں‘ یہ وہ محلول ہے اس نے شیشے کے مرتبان کو اٹھا کر ہلاتے ہوئے دکھایا کہ جو میں نے پانی اور پلاسٹک کے برتن سے حاصل کیا یعنی میں نے پلاسٹک کے برتن میں سادہ سا پانی ڈال کر رکھا اور اس کے بعد ریسرچ کی اور اسے چھوٹےچھوٹے ذرات جو انسانی آنکھ عام طور پر نہیں دیکھ سکتی اس میں شامل ہوئی اور ان ذرات میں لاعلاج بیماریوں کے خطرناک ذرات اور مالیکولز تھے اب میں نے پلاسٹک کے برتنوں میں کھانا کھانے کیلئے اسپیشل اسی ہوٹل کا انتخاب کیا ہے اور میں دراصل جان بوجھ کر اپنے اندر خطرناک بیماریاں ڈال رہا ہوں لیکن اس نے کندھے اچکاتے ہوئے میری طرف ترچھی نظروں سے دیکھا اور پھر کہا کہ کوئی حرج نہیں میری ایک جان چلی جائے گی لیکن انسانیت بچ جائے گی اور لاکھوں جانیں ضائع نہیں ہوں گی پھر خود ہی کہنے لگا کہ لگتا ہے کہ آپ انڈین ہیں؟ میں نے کہا نہیں میں پاکستانی ہوں۔ تو کہا ٹھیک ہے! میں نے تمام دنیا کے برتنوں پر ریسرچ کی ہے جب تک ہمارے برتنوں میں پیتل، تانبا اور کانسی کے برتن تھے ہم بے اولاد نہیں تھے‘ ہماری نسلوں میں اولادیں تھیں‘ بیٹے تھے‘ ہم بے طاقت نہیں تھے اور وقت سے پہلے بڑھاپا ہمارے قریب نہیں آتا تھا‘ ہم گورے ہیں‘ ہمارے ہاں برف باری بہت زیادہ ہوتی ہے ہم جب منہ دھوتے اور نہاتے تھے تو ہمارے برتن پانی گرم کرنے کیلئے بھی انہی دھاتوں کے ہوتے تھے اور ان کے ذرات لگ لگ کر ہمارے جسم کے اندر مسامات سے داخل ہوتے تھے اور صحت و تندرستی بڑھتی چلی جاتی تھی جب سے ہم نے اپنے برتن چھوڑے ہیں اور ان برتنوں کا رواج ختم کیا ہے اور نئی جدت اور نئے برتن ہماری ٹیبل پر شامل ہوئے ہیں تو ہمیں وہ سچی زندگی کا سچا نظام خود بھول ہی گیا ہے اور ہم سچی راہوں سے بھٹک گئے ہیں۔
اٹلی سے پلٹا تو گھر کے سارے برتن بدل دئیے
وہ انگریز باتیں کیے جارہا تھا اس کے اندر کوئی درد کوئی احساس تھا اور کوئی سچائی تھی میں غور سے اس کی باتیں سن رہا تھا اس نے ایک نوالہ توڑا اور پھر اس نوالے کو غور سے دیکھنے لگا اور کہا کہ میرے پاس اس وقت وہ حساس آلے نہیں جن کے ذریعے میں آپ کو دکھا سکوں کہ اس ایک نوالے میں کتنے بے شمار پلاسٹک کے ایسے ذرات ہیں جو ہمارے جسم میں جاکر بہت ہی خطرناک بیماریاں جنم دیتے ہیں بجائے اس کے کہ اپنے برتن تبدیل کریں ہم دوائیاں اور علاج معالجے کی طرف مائل اور متوجہ ہوتے ہیں اور ہماری زندگی میں دن رات ایک ہی سوچ ہوتی ہے کہ ہمارا سب کچھ خوبصورت ہو‘ لیکن مصنوعی انداز سے‘ مصنوعی میک اپ‘ مصنوعی مشروبات‘ مصنوعی کھانے‘ مصنوعی لباس (ہر وہ لباس جو سوتی نہ ہو) اور مصنوعی برتن۔ بس یہ سب کچھ ہماری زندگی کا اوڑھنا بچھونا ہے وہ کسی پروفیسر کی طرح مجھے ایک بھرپور لیکچر دے رہا تھا۔ معلوم ہورہا تھا کہ شاید اس کی بات کوئی سننے کو تیار نہیں اور اس کی بات پر کوئی توجہ نہیں دے رہا۔ میں سن رہا تھا مجھے دراصل اس کی باتیں بہت اچھی اور درد مند محسوس ہورہی تھیں وہ دراصل فرانسیسی تھا جو کہ بہت اچھی انگلش نہیں بول سکتا تھا لیکن میرے مطابق وہ بہت اچھی انگلش بول رہا تھا کیونکہ میری خود کی انگلش بھی ویسی ہی تھی۔ میں اٹلی میں کرنے تو سیر گیا تھا اور کاروبار بھی‘ لیکن جب میں وہاں سے لوٹا تو میں نے اپنے گھر کے تمام برتن اور (باقی صفحہ نمبر 52 پر)
(بقیہ:پرانے برتنوں سے پرانی بیماریوں کا علاج)
تمام چیزوں کو بدل دیا۔ دیسی برتنوں میں کھاناصحت و تندرستی کی دلیل:مجھے زمانے کی بہت باتیں سننا پڑیں‘ معاشرے کو بہت شور شرابے میں جانا پڑا۔مجھے ایک سے بڑھ کر دوسرا اور دوسرے سے بڑھ کر تیسرا آدمی سائنس دان معلوم ہوتا تھا جو مجھے اس فطری زندگی کی طرف آنے میں رکاوٹ بن رہا تھا۔ میں حیران تھا میں اٹلی لینے کیا گیا تھا اور لے کیا آیا وہ فطری زندگی جس کو مجھے پاکستان میں ڈھونڈنا تھا مجھے بغیر ڈھونڈے اٹلی میں مل گئی۔ قارئین! دیسی برتن ان میں کھانا پینا ہماری نسلوں کے لیے صحت و تندرستی کی واضح دلیل ہے۔ آج بھی ہماری نسلیں ترس رہی ہیں انہیں وہ دیسی برتن تانبے اور پیتل کے جن کو قلعی کیا ہوا ہو کیونکہ قلعی ایک دھات ہے اور اس کا اندر جانا بھی صحت کیلئے نہایت مفید ہے ہماری طب میں قلعی ایک خاص انداز سے راکھ بنائی جاتی ہے جو کہ سوفیصد بے ضرر ہوجاتی ہے اور ایسی لاعلاج بیماری میں دی جاتی ہے جہاں بڑے بڑے علاج ناکام ہوتے ہیں اور قلعی شدہ برتن جب انسان کھاتا اور پیتا ہے تو یہ قلعی جسم کے اندر جاتی ہے۔ آئیے! فطرت کی طرف لوٹ آئیں اور فطری زندگی کی طرف متوجہ ہوں اور فطری زندگی کو پھر سے آواز دیں کیونکہ فطرت ہی ہماری حقیقت ہے اور فطرت ہی ہماری سچائی ہے اور فطرت سے ہم انسانی زندگی کی طرف واپس آسکتے ہیں۔ اپنی نسلوں کو لاعلاج بیماریوں سے بچائیں دیسی علاج‘ دیسی برتن اور دیسی چیزوں اپنے اردگرد اکٹھی کریں۔ صحت بچ جائے گی‘ فطرت پلٹ آئے گی اور نسلیں لاعلاج بیماریوں سے محفوظ رہیں گی۔

Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 018 reviews.