(پوشیدہ)
محترم قارئین السلام علیکم! تین بار تحریر لکھی اور پھاڑ دی‘میں اپنا پیغام آپ تک پہنچانا چاہتی ہوں‘میری تحریر میں ہر نوجوان لڑکی‘ لڑکے کیلئے ایک سبق ہے‘ ایک تجربہ ہے‘ ایک مشاہدہ ہے‘ کسی کے ایک دل میں بھی میری بات اتر گئی تو میرا مقصد پورا ہوجائے گا۔ قارئین! میں ایک باعزت گھرانے کی بدقسمت گنہگار لڑکی ہوں‘ سمجھ نہیں آتی بات کہاں سے شروع کروں‘ لکھتے ہوئے ڈر لگ رہا ہے کہ روز محشر میرا کیا حشر ہوگا‘ میری تمنا ہمیشہ نیک بننے کی رہی‘ مگر نجانے کہاں تربیت میں کمی آگئی اور میں بھٹک گئی‘ سترہ سال کی تھی کہ گھر سے بھاگ گئی‘ واپس کیسے آئی یہ ایک الگ داستان ہے‘ خیر قسمت اچھی والدین نے دوبارہ قبول کرلیا‘ میری بہنیں‘ سہیلیاں‘ کزنز کوئی بھی میرے جیسا نہ تھا‘ دوبارہ بھٹکی اور اپنے شہر سے بھاگ کر لاہور آگئی‘ یہاں سے پھر کسی نیک کے ہتھے چڑھی اور وہ مجھے میرے والدین کے پاس چھوڑ گئے ‘ 23 سال کی عمر میں شادی ہوگئی‘ اب کہاں سکون! وہی ملنا تھا جومیں نے بویا تھا۔ یہ دنیا ’’مکافات عمل‘‘ ہے‘ بس اب قرآن کی آیت کا مفہوم سمجھ آیا کہ اچھی بیویوں کے اچھے خاوند اور بُری بیویوں کے لیے بُرے خاوند ہوں گے۔ قارئین! اب زندگی انتہائی تلخ گزرنا شروع ہوگئی‘ میں سسرال والوں کی بہت خدمت گزار تھی‘ سارا دن کام کرتی‘ مگر خاوند نوکرانیوں اور باہر کی لڑکیوں کی طرف متوجہ رہتا‘ سارا دن نوکرانیوں کی طرح کام کرتی‘ مگر صرف ذلت ملتی۔ اللہ سے روتی‘ گڑگڑا کر دعائیں کرتی مگر شاید میرے گناہ بہت زیادہ تھے جن کی سزا ابھی کم ملی تھی‘ پھر یوں ہوا کہ میرے شوہر نے مجھ پرگھٹیا الزامات لگانا شروع کردئیے‘ جو بھی گھر آتا اس کے جانے کے بعد میرے شوہر اس کے ساتھ مجھے منسلک کردیتے اور گھر میں شور برپا کردیتے‘ اکثر خود راتوں کو باہر رہتے اور صبح آکر گھر میں ہنگامہ کھڑا ہوجاتا ہے کہ اس کی دوستیاں ہیں۔ یقین کیجئے مجھے واضح کانوں میں آوازیں آتیں کہ تو نے اپنے شریف باپ کو اذیتیں ذلتیں دی ہیں تجھے اس کی سزا مل رہی ہے۔ سارے خاندان کے ایک ایک فرد کو میرا شوہر خود میری کہانیاں سناتا اور مجھے بدکردار مشہور کردیا۔ خدا کی قسم میری جگہ کوئی اور لڑکی ہوتی تو کچھ کھا کر مرجاتی۔ 26 سال اپنے کیے کی سزا بھگتی‘ ساری زندگی روتے سسکتے ظلم اور الزامات سہتے گزری‘ میرا خاوند جب مجھے مارتا تو اس کی آنکھیں سرخ ہوجاتی جب تک میں نڈھال نہ ہوجاتی وہ رکتا نہ تھا۔ بس!! پھر میں نے فیصلہ کرلیا کہ میں بُری بنوں گی اور میں بُری ہوگئی۔ فون پر لڑکوں سے باتیں کرنا شروع کردیں‘ انٹرنیٹ کا غلط استعمال شروع کردیا‘ مجھے ایسا لگا نہ میں دنیا کی رہوں گی نہ دین کی‘ یقین نہ آتا کہ میں اتنی گری ہوئی عورت ہوں‘ نہ اچھی بیٹی‘ نہ بہن اور نہ بیوی بن سکی۔ قارئین! درد کی کہانی لکھوں تو کتاب بن جائے ابھی صرف اپنی زندگی کی کتاب کا آدھا صفحہ بھی نہ لکھ سکی ہوں۔ میری نوجوان نسل سے ہاتھ جوڑ کر اپیل ہے کہ خدارا کبھی گھر سے باہر قدم نہ نکالیے‘ والدین کی اطاعت کیجئے‘ ایسا کوئی کام نہ کیجئے جس کی شریعت نے اجازت نہ دی ہو۔ اسلام نے ہمیں جینے کا مکمل ضابطہ اخلاق دیا ہے۔ میں اپنی آنکھوں سے دیکھتی ہوں کہ جنہوں نے اسلام کی حدود میں رہ کر جوانی گزاری ان کی شادی شدہ زندگی انتہائی خوشگوار اور پرسکون ہے۔ ان کےمیاں بیوی کے درمیان مثالی محبت‘ احترام دیکھتی ہوں۔ اے کاش میری معافی بھی قبول ہوجائے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں