(سید واجد حسین بخاری، احمد پور شرقیہ)
محترم حضرت حکیم صاحب السلام علیکم!اقتدار اور کرسی کا نشہ ہی ایسا ہے کہ جو بھی اس میں گرفتار ہوتا ہے مشکل سے سنبھل سکتا ہے اور اس نشہ کا تریاق نہیں ہے۔ جب حلال اور حرام کی تمیز ختم ہو جاتی ہے اور جب لقمہ حرام جزو بدن بن جاتا ہے اور جب انسان جسم کو حرام رزق سے پالتا پوستا ہے اور اولاد کے جسم میں حرام رچ بس جاتا ہے وہی اولاد جوان ہوکر والدین کو ذلیل و خوار کرتی ہے اور اسی والد کو مارتی ہے اور گھر میں گھسنے نہیں دیتی جس کی خاطر والد نے ساری زندگی رشوت لے لے کر دوسروں کا حق مار مار کر دولت اکٹھی کی ہوئی ہوتی ہے۔ کوٹھیاں بنائی ہوئی ہوتی ہیں مگر اس وقت والد بے بس ہوتا ہے۔ دوست احباب جوانی میں والد کو سمجھاتے ہیں کہ کہ اولاد کو رزق حلال کھلائو مگر اس وقت والد کسی کی بات ماننے کیلئے تیار نہیں ہوتا۔ بڑے ناز و نعم سے اولادکو پالتا ہے ان کے نخرے برداشت کرتا ہے۔ اچھے اچھے تعلیمی اداروں میں داخل کراتا ہے مگر آخرت بھول جاتا ہے، قبر بھول جاتا ہے، منوں مٹی تلے دب جانا بھول جاتا ہے، یہ بھول جاتا ہے کہ اللہ کے ہاں ایک ایک پائی کا حساب دینا ہے۔
اخبار میں ایک چھوٹی سی خبر نے ہلا کر رکھ دیا کہ فلاں آفیسر کے بیٹے نے خودکشی کرلی یہ خبر کئی سال پیچھے لے گئی۔ جب ہمارے علاقے میںتعینات تھے بڑے دھڑلے سے نوکری کرتے تھے مشہور تھے کہ رشوت کے تھوڑے پیسوں پر بھی راضی ہو جاتے تھے تھوڑی یا زیادہ رقم لیتے ضرور تھے۔ ملازمت کے دوران اکثر ریت، سیمنٹ اور اینٹ لیتے تھے اور وہ سارا سامان ، میٹریل اپنے آبائی گائوں بھجواتے تھے کیونکہ وہاں ان کی کوٹھی بن رہی تھی اور تقریباً تین سال تک کوٹھی تکمیل کے مراحل میں رہی۔ ان صاحب کو ریٹائر ہوئے بھی بیس سال ہوگئے ہیں ان کے ہاں تعزیت کے لیے جانا ہوا۔ وہاں جاکر معلوم ہوا کہ ان کے بیٹے نے اپنے آپ کو پسٹل کا فائر مارا ہے۔ جیسے ہی کوٹھی میں داخل ہوئے تو عجیب قسم کی وحشت و ویرانی در و دیوار سے ٹپک رہی تھی اتنی بڑی کوٹھی تھی جس کے تقریباً اٹھ دس کمرے تھے۔ آگے بھی لان تھا اور کوٹھی کے پیچھے بھی لان تھا۔ ایک ھو کا عالم تھا۔ وہ صاحب کوٹھی کے پیچھے والے لان میں بیٹھے تھے صرف اکیلے تھے دیگر کوئی فرد اس کوٹھی میں موجود نہ تھا۔ بہت پرانی چار پائیاں تھیں۔ چار پائیاں اٹھا کر چھائوں میں بیٹھ گئے۔ دیگر احباب بھی ساتھ تھے، سفید ڈاڑھی عمر 80 سال ، بیٹے کے ذکر پر اتنا روئے اتنا روئے کہ آنسو تھمنے کا نام ہی نہیں لیتے تھے کہنے لگے کہ غریب گھر کا فرد تھا۔ بہت جائیداد بنائی بیس ایکڑ اراضی مرنے والے کے نام لگائی تھی مرتے وقت اسکی عمر 35 سال تھی بس اس کو صرف ایک ہی جنون تھا کہ میں نے بیرون ملک جاکر رہنا ہے اور اس نے تمام اراضی تقریباً ایک کروڑ روپے میں فروخت کردی نہ زمین رہی۔ نہ پیسہ رہا سب کچھ برباد ہوگیا۔
چھوٹی سی بات پر جوان بیٹے کی خودکشی!آخر کیوں؟
وہ بزرگ پھر رونے لگے آنسوئوں سے ان کا رومال بھیگ گیا پھر اللہ سے شکوہ کرنا شروع کردیا کہ اللہ نے میرے ساتھ زیادتی کی ہے (نعوذ باللہ) میرا جوان بیٹا مجھ سے چھین لیا ہے۔ ساری اولاد میں سے یہی سب سے زیادہ لاڈلہ تھا۔ کہنے لگے کہ یہ کوٹھی میں نے اسکے لیے بنوائی تھی۔ اب یہی کوٹھی مجھے کھانے کو آتی ہے۔ پھر بیٹے کے دوستوں کا گلہ کیا کہ وہ بھی اس کو نہیں سنبھال سکے۔ وہ بزرگ کہنے لگے کہ کسی کی موت پر میں بھی جب دلاسا دیتا تھا تو کہتا صبر کریں اب معلوم ہوا کہ غم کیا ہے۔ غم کس طرح کلیجہ کھا جاتا ہے، غم کس طرح نڈھال کر دیتا ہے۔ اور جوان بیٹے کی موت پر صبر کرنا کتنا مشکل کام ہے۔ میں یہ سوچ رہا تھا کہ جب نوکری تھی، اقتدار تھا یہ صاحب کسی کی پرواہ نہیں کرتے تھے۔ ہر جائز و ناجائز طریقے سے انہوں نے دولت اکٹھی کی ہے۔ حلال و حرام کی تمیز ختم کردی تھی۔ مشکوک رزق اولاد کو کھلایا۔ اب وہی کوٹھی ہے جو مشکوک رزق سے بنائی گئی ہے۔ اسکے لان میں میری اچانک نظر پڑی تو وہاں دو قبریں موجود تھیں۔ ایک سنگ مر مر کی اور دوسری تازہ بنی ہوئی تھی۔ میں حیران رہ گیا کہ یا الٰہی! یہ کیا ماجرہ ہے؟ وہ بزرگ کہنے لگے کہ یہ قبر سنگ مر مر والی میری بیوی کی ہے۔ چونکہ یہی بیٹا ماں کا بہت لاڈلہ تھا اس نے لڑکر یہاں لان میں قبر بنوائی ہے کہ ماں کی جدائی برداشت نہیں کرسکتا اور جب بیٹا فوت ہوا تو ایک لکھی ہوئی وصیت تھی کہ مجھے ماں کے قدموں میں دفن کیا جائے اس لئے بیٹے کو یہاں دفن کیا گیا ہے بزرگ پھر دھاڑیں مار مار کر رونے لگے۔ سب سے حیران کن بات بتائی کہ میں نے بھی وصیت کی ہے کہ مجھے بھی اسی لان میں دفن کیا جائے۔
اللہ! اللہ! کیا مقام عبرت ہے۔ بزرگ کی آخری عمر ہے۔ ساری زندگی مشکوک رزق اکٹھا کرتے گزر گئی کہ آخری عمر آرام سے گزرے گی۔ مگر آخری عمر میں صرف رونا باقی رہ گیا ہے۔ سکون، چین، آرام چھن گیا ہے۔ بیٹے کے غم میں روتے ہوئے زندگی کے دن گزر رہے ہیں وہ کوٹھی جو مشکوک رزق سے بنائی گئی ہے وہ ویران ہوگئی ہے اور واقعتاً قبرستان بن گئی ہے اور ان قبروں کی وجہ سے ان بزرگ کے بعد کوئی بھی اس کوٹھی میں رہنے کیلئے تیار نہیں ہوگا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں