Search

انسان کی آنکھ کیسی عجیب چیز ہے کہ اگر آپ آنکھ بند کر لیں تو آپ کو کچھ دکھائی نہیں دے گا۔ساری دنیا آپ کے لئے ایک نا معلوم اندھیرا بن کر رہ جائے گی۔دنیا ہو گی مگر آپ اس کو دیکھ نہیں سکیں گے‘ چیزیں ہوں گی مگر آپ ان کو محسوس نہیں کر سکیں گے۔مگر جب آپ اپنی آنکھ کو کھولتے ہیں تو حیرت انگیز طور پر آپ تمام چیزوں کو دیکھنے لگتے ہیں۔اب کالی چیز آپ کو سفید چیز سے الگ دکھائی دینے لگتی ہے۔اب متحرک چیز آپ کو متحرک دکھائی دیتی ہے اور جامد چیز جامد حالت میں نظر آتی ہے۔آپ انسان کوانسان کے روپ میں دیکھتے ہیں اور جانور کو جانور کے روپ میں۔یہی انسان کا خصوصی امتیاز ہے‘ وہ چیزوں کو ایک دوسرے سے الگ کر کے پہچانتا ہے۔وہ خیر اور شر کا فرق کرنا جانتا ہے۔وہ روشنی کو تاریکی سے اور تاریکی کو روشنی سے جدا کر کے دیکھتا ہے۔وہ یہ صلاحیت رکھتا ہے کہ حق کو حق کے روپ میں دیکھے اور باطل کو باطل کے روپ میں پہچان لے۔وہ اس فرق سے آشنا ہے کہ کون سی چیز دلیل سے ثابت ہوئی اور کون سی چیز دلیل سے ثابت نہیں ہوئی۔
انسان کی یہی خصوصیت اس کےلئے امتحان کا پرچہ ہے۔یہی وہ خاص مقام ہےجہاں خدااس کا امتحان لے رہا ہے۔انسان کو اس دنیا میں یہ ثبوت دینا ہے کہ اس نے خیر کو شر سے الگ دیکھا۔اس نے ظلم اور انصاف کے فرق کو پہنچانا۔اس کے سامنے جب کوئی بات آئی تو اس نے اسےدلیل کی سطح پر جانچا۔اگر وہ دلیل سے ثابت ہو رہی تھی تو اس نے کھلے طور پر اس کا اعتراف کر لیا۔یہ امتحان بظاہر بہت آسان ہے مگر اس کی ایک قیمت دینی پڑتی ہے۔یہ قیمت اپنی نفی ہے۔حق کسی آدمی کواپنی ذات کی نفی پرملتا ہےمگر آدمی یہ قیمت نہیں دے پاتا اس لئے اکثر ایسے ہوتا ہے کہ وہ امتحان میںناکام ہو جاتا ہے۔
آدمی کے سامنے حق ظاہر ہوتا ہے مگر وہ اس کو دیکھ نہیں پاتا۔اس کے پاس حق کی آواز گونجتی ہے مگر وہ اس کو سن نہیں پاتا۔حق خود چل کر اس کے پاس آتا ہے مگر اس کی ملاقات نہیں ہو پاتی۔آہ‘ وہ انسان جو عین اس مقام پر سب سے زیادہ ناکا م ہو جاتا ہے جہاں اس کو سب سے زیادہ کامیاب ہونا چاہیے۔