بحیثیت مسلمان ہم جس بااخلا ق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیرو کا ر ہیں کا غیر مسلموں سے کیا مثالی سلوک تھا آپ نے سابقہ اقساط میں پڑھا اب ان کے غلاموں کی روشن زندگی کو پڑھیں۔ سوچیں! فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جب20 ہجری میں مصر پر اسلام کا جھنڈا لہرایا تو وہاں کے مذہبی پیشواوں کے سارے حقوق برقرار رکھے‘ وہاں کا پٹریارک رومیوں کے ظلم سے تیرہ برس تک جلاوطن ہوکر ادھر ادھر زندگی بسر کررہا تھا‘ حضرت عمر بن العاص رضی اللہ عنہ نے اس کو تحریری امان دے کر واپس بلایا اور اس کو اس کا پرانا منصب عطا کیا۔
مصر کے فتح کے موقع پر حضرت عمر بن العاص رضی اللہ عنہ نے لڑائیوں کی تلخیاں دل سے بھلادیں جب وہاں کے عیسائیوں نے ان کو اپنے یہاں مدعو کیا تو اپنے ہمراہیوں کے ساتھ دعوت میں شریک ہوئے اور پھر ان کو اپنے یہاں جوابی دعوت میں مدعو کیا۔
21 ہجری میں اسکندریہ فتح ہوا تو وہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ایک تصویر کی ایک آنکھ کو اسلامی فوج کے ایک لشکری نے اپنے تیر سے پھوڑ ڈالا عیسائیوں کو اس عمل سے سخت تکلیف ہوئی‘ انہوں نے حضرت عمروبن العاص رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچ کر یہ مطالبہ کیا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر بنا کر ان کو دی جائے تاکہ وہ بھی اس کی ایک آنکھ پھوڑ ڈالیں۔ حضرت عمر بن العاص رضی اللہ عنہ نے جواب دیا تصویر دینے کی کیا ضرورت ہے ہم لوگ موجود ہیں تم ہم میں سے جس کی آنکھ چاہو پھوڑ ڈالو‘ پھر اپنا خنجر ایک عیسائی کے ہاتھ میں دے کر اپنی آنکھیں سامنے کردیں‘ یہ سن کر عیسائی کے ہاتھ سے خنجر گرپڑا‘ عیسائی اپنے دعویٰ سے یہ کہہ کر بازآگیا کہ جو قوم اس قدر دلیر‘ فیاض اور بے تعصب ہو اس سے انتقام لینا سخت بے رحمی اور بے قدری ہے۔
یہ واقعہ مصر کے ایک عیسائی بشپ سعید بن البطریق نے اپنی تاریخ مصر میں لکھا ہے جو چھپ چکی ہے۔ اس واقعہ کو مولانا شبلی نے جنوری 1903ءکی ایجوکیشنل کانفرنس کے خطبہ صدارت میں بھی بیان کیا تھا۔