Search

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا غیر مسلموں سے حسن سلوک فتح مکہ کے وقت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوسفیان کو نہ صرف معاف کر دیا بلکہ اس کے گھر کو وہ درجہ دیا گیا جو ایک پناہ گاہ کا درجہ ہوتا ہے اور جو اس وقت بیت اللہ کو دیا گیا تھا۔ بیت اللہ میں جو داخل ہو گااس کو بھی امان ہے اور جو ابو سفیان کے گھر میں داخل ہو گا، اسے بھی امان ہے۔ حالانکہ ابوسفیان نے سوائے جنگ بدر کے اسلام کے خلاف قریش مکہ کی ہر جنگ میں قیادت کی اور سپہ سالاری کے فرائض سرانجام دیئے۔ یہ وہی ابو سفیان تھے جنہوں نے ایک دفعہ ایک بدو کو بہت بڑی رقم کا لالچ دے کر حضور علیہ الصلوٰة والسلام کے قتل پر متعین کیا۔ یہ بدو جب مدینہ پہنچا تو مسجد نبوی میں سرکاردو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کسی قبیلے کے وفد سے مصروف گفتگو تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدو کو دیکھ کر اہل مجلس سے فرمایا کہ یہ آدمی میرے قتل کے ارادہ سے یہاں آیا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اسے پکڑ لیا، تلاشی لی تو اس کے کپڑوں سے ایک خطرناک خنجر برآمد ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدو سے فرمایا: ”تم سچ سچ ساری بات بتا دو تو چھوڑ دیئے جاﺅ گے۔ یہ لوگ اگرچہ دشمن تھے لیکن نبوت کے مزاج سے واقف تھے کہ زبان سے نکلی ہوئی ہر بات سچی اور ہر وعدہ پکا ہوتا ہے۔ چنانچہ اس نے بے کم وکاست ساری حقیقت بیان کر دی۔ سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے امان دے کر فرمایا: ”جہاں چاہو چلے جاﺅ“ اس حسن سلوک سے متاثر ہو کر وہ بدو فوراً مسلمان ہو گیا۔