Search

گھر کے آنگن میں ایک بیل اگی ہوئی تھی۔ مکان کی مرمت ہوئی تو وہ ملبہ کے نیچے دب گئی۔آنگن کی صفائی کراتےہوئے مالک مکان نے بیل کو کٹوا دیا۔ دور تک کھود کر اس کی جڑیں بھی نکلوادی گئیں اس کے بعد پورے صحن میں اینٹ بچھا کر اس کو سیمنٹ سے پختہ کردیا گیا۔ کچھ عرصہ بعد بیل کی سابق جگہ کے پاس ایک نیا واقعہ ہوا۔ پختہ اینٹیں ایک مقام پر ابھر آئیں۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کسی نے دھکا دے کر انہیں اٹھا دیا ہے۔ کسی نے کہا کہ یہ چوہوں کی کاررورائی ہے‘ کسی نے کوئی اور قیاس قائم کرنے کی کوشش کی۔ آخرکاراینٹیں ہٹائی گئیں تو معلوم ہوا کہ بیل کا پودا اس کے نیچے مڑی ہوئی شکل میں موجود ہے۔ بیل کی کچھ جڑیں زمین کے نیچے رہ گئی تھیں۔ وہ بڑھ کر اینٹ تک پہنچیں اور اب اوپر آنے کیلئے زورکررہی تھیں۔ ’’یہ پتیاں اور انکھوے جن کو ہاتھ سے مسلا جائے تو وہ آٹے کی طرح پس اٹھیں۔ ان کے اندر اتنی طاقت ہے کہ اینٹ کے فرش کو توڑ کر اوپر آجائیں‘‘ مالک مکان نے کہا: میں ان کی راہ میں حائل نہیں ہونا چاہتا‘ اگر یہ بیل مجھ سے دوبارہ زندگی کا حق مانگ رہی ہے تو میں اس کو زندگی کا حق دوں گا‘ چنانچہ انہوں نے چند اینٹیں نکلوا کر اس کیلئے جگہ بنادی۔ ایک سال بعد ٹھیک اسی مقام پر تقریباً پندرہ فٹ اونچی بیل کھڑی ہوئی تھی جہاں اس کو ختم کرکے اس کے اوپر پختہ اینٹیں جوڑ دی گئی تھیں۔ پہاڑ اپنی ساری وسعت اور عظمت کے باوجود یہ طاقت نہیں رکھتا کہ کسی پتھر کے ٹکڑے کو ادھر سے ادھر کھسکا دے مگر درخت کے ننھے پودے میں اتنا زور ہے کہ وہ پتھر کے فرش کو دھکیل کر باہر آجاتا ہے۔ یہ طاقت اس کے اندر کہاں سےآئی۔ اس کا سرچشمہ عالم فطرت کا وہ پراسرار مظہر ہے جس کو زندگی کہا جاتا ہے۔ زندگی اس کائنات کا حیرت انگیز واقعہ ہے۔ زندگی ایک ایسی طاقت ہے جس کو کوئی دبا نہیں سکتا۔ اس کوکوئی ختم نہیں کرسکتا۔ اس کو پھیلنے اور بڑھنے کے حق سے کوئی محروم نہیں کرسکتا۔ زندگی ایک ایسی قوت ہے جو اس دنیا میں اپنا حق وصول کرکے رہتی ہے۔ جب زندگی کی جڑیں تک کھود دی جاتی ہیں اس وقت بھی وہ کہیں نہ کہیں اپنا وجود رکھتی ہے اور موقع پاتے ہی دوبارہ ظاہر ہوجاتی ہے جب ظاہری طور پر دیکھنے والے یقین کرلیتے ہیں کہ اس کا خاتمہ کیا جاچکا ہے اس وقت بھی وہ عین اس مقام سے اپنا سر نکال لیتی ہے جہاں اسے توڑا اور مسلا گیا تھا۔