Search

بادل کا دل بھر آتا ہے تو وہ برسات کی صورت میں رو دیتا ہے‘ پہاڑ جب غموں کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتا تو آتش فشاں کے روپ میں اپنا زہراگل دیتا ہے‘ پھول غموں کی دھوپ میں مرجھا جاتا ہے‘ دنیا میں ہر جاندار چیز اپنے اندر کے دکھ نکال باہر کرتی ہے مگر انسان کتنا بے بس ہے ۔۔۔ وہ بادل نہیں کہ بر س پڑے‘ وہ پہاڑ نہیں کہ پھٹ جائے‘ پھول نہیں کہ مرجھا جائے‘ انسان کے دکھ اس کے وجود کو گھن کی طرح کھاجاتے ہیں جس طرح لکڑی کو دیمک چاٹ جاتی ہے اور  برسوں کے اس عمل کے بعد انسان ان تمام چیزوں کو شکست دے کر امر ہوجاتا ہے۔ (سمعیہ کلثوم‘ چھنی ریحان)