جیسے جیسے قیامت قریب ہوتی جا رہی ہے لوگ اسلامی تعلیمات سے ہٹتے اور کٹتے چلے جا رہے ہیں۔ اوائل اسلام میں مستحبات ومندوبات کے ترک کرنے کو عیب سمجھا جاتا تھا، اب ایسا دور آگیا ہے کہ فرائض وواجبات کے چھوڑنے کی کوئی پرواہ نہیںکی جاتی ۔
(1) مساجد اللہ تعالیٰ کے گھر ہیں اور روئے زمین کے افضل ترین ٹکڑے ہیں۔ ان مقامات سے انہی لوگوں کا یارانہ ہوتا ہے جو مالک الملک کے منظور نظر ہوتے ہیں اور بکثرت ان میں آتے جاتے رہتے ہیں۔وہ اللہ کے گھر کو آباد کرتے ہیں اللہ ان کے گھروں کو آباد رکھتا ہے۔ (2)قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب اور اس کا پاک کلام ہے۔ اسے پڑھا نہ جائے یا پڑھ کر اپنے اعمال وکردار کو درست نہ کیا جائے تو یہ بدنصیبی ہے بلکہ حامل قرآن فاسق ہو جائے تو زیادہ خطرناک ہے۔ قرآن کی تعلیمات کو اپنی زندگی میں ڈھالنا چاہئے۔(3) نیک وصالح عورت کی شان کے لائق نیک وصالح مرد ہے اور نیک وصالح مرد کے لئے نیک وصالح عورت ہی مناسب ہوتی ہے۔ وہ مرد اور عورت جو ایک دوسرے کی ضد ہوں، کبھی پرسکون نہیں رہ سکتے۔ یہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ لہٰذا زندگی کے بندھن کے موڑ پر ظاہری حسن وجمال کی خوبیوں سے متاثر ہوئے بغیر اسلامی تعلیمات کے پیش نظر حسن باطنی اور اخلاق وکردار کی درستگی کی طرف بھی نظر کر لینی چاہئے۔ وہ حسن ہی کیا ہے جو عمدہ اخلاق کے میٹھے رس سے عاری اور پھیکا ہو ۔(4) اس امت میں علمائے دین کا وجود اللہ تعالیٰ کی خصوصی مہربانی کا مظہر ہے، وہ سوسائٹی اور معاشرہ انتہائی پستی اور گراوٹ کا شکار ہوتا ہے جس میں وارثان انبیاءاجنبی ہوں۔ بھلا یہ کہاں کا انصاف ہے کہ دنیاوی لیڈروں کی خوب آﺅ بھگت ہو، ان کی ہر الٹی سیدھی اٹکل پر سر تسلیم خم ہوجبکہ روحانی اور مذہبی مقتداﺅں اور علماءکرام کی سیدھی بات بھی الٹی نظر آئے۔ یہ طرز عمل اخلاقی پستی کی واضح دلیل ہے۔ علماءکا وجود اس امت کو راہ راست پر رکھنے کا آخری سہارا ہے۔ یہ نہ ہوں تو امت گمراہیوں اور رسومات کے سیلاب میں بہہ جائے، انہی کے دم قدم سے اسلامی علوم محفوظ ومامون ہیں۔ آیئے! ان نعمتوں کی قدر کریں اور ان سے تعلق مضبوط بنائیں۔